سوال
اگر بیٹا اہلِ حدیث ہو اور اس کے والدین (باپ اور والدہ) بریلوی ہوں، تو کیا بیٹا اپنے والد یا والدہ کے جنازے کی نماز میں شریک ہو سکتا ہے، جب کہ جنازے کی نماز بریلوی امام پڑھا رہا ہو؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی شخص مشرک یا کافر ہو، تو اس کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ اپنی زندگی میں خود کو اہلِ حدیث، دیوبندی، بریلوی یا کسی اور فرقے سے منسوب کرتا رہا ہو۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان موجود ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسۡتَغۡفِرُواْ لِلۡمُشۡرِكِينَ وَلَوۡ كَانُوٓاْ أُوْلِي قُرۡبَىٰ﴾
"نہیں ہے نبی کے لیے اور نہ ایمان والوں کے لیے یہ کہ استغفار کریں واسطے مشرکین کے، اور اگرچہ وہ قریبی ہی ہوں” [التوبة: 113]
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنۡهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِۦٓۖ إِنَّهُمۡ كَفَرُواْ﴾
"اور نہ تو نماز پڑھ ان میں سے کسی ایک پر کبھی بھی، اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر، بے شک انہوں نے کفر کیا” [التوبة: 84]
لہٰذا، اگر والد یا والدہ مشرک یا کافر ہیں، تو ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں، چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
مشرک و کافر کی امامت میں نماز پڑھنا
اسی طرح کسی مشرک یا کافر کی امامت اور اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا بھی درست نہیں، خواہ وہ امام خود کو اہلِ حدیث، دیوبندی، بریلوی یا کچھ اور کہتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اعمال کے بارے میں فرمایا:
﴿أُوْلَٰٓئِكَ حَبِطَتۡ أَعۡمَٰلُهُمۡ وَفِي ٱلنَّارِ هُمۡ خَٰلِدُونَ﴾
"وہ لوگ خراب گئے ان کے عمل، اور آگ میں رہیں گے وہ ہمیشہ” [التوبة: 17]
نتیجہ
◈ اگر والدین توحید پر قائم نہیں تھے اور شرک پر فوت ہوئے، تو ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں، چاہے وہ بیٹے کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
◈ اسی طرح اگر امام بھی عقیدۂ شرک رکھتا ہے تو اس کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب