مسلک محدثین معتدل مسلک ہے، ہر ایک کے حقوق کی رعایت رکھتا ہے۔ جو جس کا مقام ہے، اسے دیتا ہے۔ افراط و تفریط اور غلو و تقصیر سے اجتناب کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے مذہب اہل سنت والجماعت کی پیروی ضروری ہے، حزم و احتیاط بھی اسی میں ہے۔ اہل حق جس کے متعلق جو بات کرتے ہیں، وہ علم و عدل پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ اہل بدعت و ضلال جہالت اور ظلم کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اہل بیت سے عقیدت و محبت اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا ایمان ہے، ساتھ ساتھ غلو و تقصیر سے بچنا بھی ضروری ہے۔ بعض لوگ اہل بیت کی شان میں غلو کرتے ہوئے درست الفاظ کا استعمال نہیں کرتے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ یا ”علیہ الصلاۃ والسلام“ لکھنا یا ”مولی علی“ کہنا یا ”کرم اللہ وجہہ“ لکھنا یا پڑھنا، اسی طرح حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ”امام“ اور ”علیہ السلام“ کا لفظ لکھنے یا پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ یہ روافض کی ایجاد ہے اور ان کا شعار ہے۔ بعض کتب احادیث میں ناسخین نے یہ الفاظ ذکر کر دیے ہیں، اصل میں نہیں ہیں۔ ائمہ اہل سنت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے ایک جیسے الفاظ کا استعمال کرتے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“ بخاری کے ایک نسخہ میں 2 بار، ابو داود میں 29 بار، نسائی میں 1 بار، السنن الکبری للنسائی میں 8 بار، ابن ماجہ میں 2 بار، موطا مالک میں 1 بار، مصنف عبدالرزاق میں 2 بار اور مسند اسحاق میں1 بار لکھا گیا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے” کرم اللہ وجہہ “کے الفاظ نسائی میں 5 بار اور ابن ماجہ میں 5 ار ذکر ہوئے ہیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ ”علیہا السلام“ صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں 37 بار، ابو داود میں 2 بار، ابن ماجہ میں 3 بار ذکر ہوا ہے۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ بخاری کے ایک نسخہ میں 3 بار، ابو داود اور نسائی میں 4 بار ”علیہ السلام“ ذکر ہوا ہے، جبکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لیے بخاری میں 3 بار، سنن نسائی اور ابن ماجہ میں 1 بار ذکر ہوا ہے۔
اسی طرح عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے لیے بخاری کے ایک نسخہ میں 4 بار اور ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کے لیے 1بار ”علیہا السلام“ ذکر ہوا ہے۔
یہ الفاظ محدثین نے نہیں لکھے، بلکہ ناسخین نے اپنی طرف سے لکھ دیے ہیں، علما نے ان پر نکیر کی ہے۔ بطور شعار ان کا استعمال درست نہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774ھ) لکھتے ہیں:
قلت: وقد غلب هذا فى عبارة كثير من النساخ للكتب، أن يفرد على رضي الله عنه، بأن يقال: عليه السلام، من دون سائر الصحابة، أو: كرم الله وجهه، وهذا وإن كان معناه صحيحا، لكن ينبغي أن يساوى بين الصحابة فى ذلك، فإن هذا من باب التعظيم والتكريم، فالشيخان وأمير المؤمنين عثمان بن عفان رضي الله عنهم أجمعين أولى بذلك منه، رضي الله عنهم أجمعين.
”میں کہتا ہوں، بہت ساری کتابوں میں کاتبین کی جانب سے یہ طریقہ غالب آ گیا ہے کہ وہ صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ”علیہ السلام “لگاتے ہیں، باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نہیں لگاتے، اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ”کرم اللہ وجہہ“ لکھتے ہیں۔ تو ان کا معنی اگرچہ صحیح ہے، لیکن مناسب ہے کہ اس معاملے میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو برابر رکھا جائے، کیونکہ یہ تعظیم و تکریم کے باب سے ہے اور شیخین رضی اللہ عنہما و سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس تعظیم کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ حق دار ہیں، رضی اللہ عنہم اجمعین۔ “
(تفسير ابن كثير: 478/6، المواهب اللدنية للقسطلاني: 277/2)
قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) فرماتے ہیں:
الصلاة على غير الأنبياء يعني استقلالا لم تكن من الأمر المعروف وإنما أحدثت فى دولة بني هاشم.
”غیر نبی کے لیے مستقل طور پر ”الصلاة“ کا لفظ استعمال کرنا خیر القرون میں معروف نہیں تھا، یہ بنو ہاشم (عباسیہ) کے دور خلافت میں رائج ہوا۔ “
(الشفاء بتعريف حقوق المصطفى: 68/2، فتح الباري لابن حجر: 170/11)
علامہ غزالی رحمہ اللہ (505ھ) فرماتے ہیں:
الصلاة على غير رسول الله صلى الله عليه وسلم مكروه إذ فيه موافقة الروافض ولأن العصر الأول خصصوا الصلاة والسلام به كما خصصوا عز وجل بالله وكما لا يحسن أن يقال: محمد عز وجل وإن كان عزيزا جليلا لا يحسن أن يقال: أبو بكر صلوات الله عليه وإن كان الصلاة هو الدعاء.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے لیے ”الصلاة “کا لفظ استعمال کرنا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں روافض کی موافقت ہے، نیز صدر اول میں ”علیہ الصلاۃ والسلام“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، جیسا کہ ”عز وجل“ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ جیسے محمد عز وجل کہنا درست نہیں، باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عزیز اور جلیل ہیں، اسی طرح ابو بکر صلوات اللہ علیہ کہنا بھی درست نہیں، اگرچہ صلوۃ دعا کے معنی میں ہے۔ “
(الوسيط في المذهب: 446/2)
علامہ ابن العطار رحمہ اللہ (724ھ) فرماتے ہیں:
الصحيح الذى عليه الأكثرون منهم: أنه مكروه كراهة تنزيه، قالوا: لأنه شعار أهل البدع، وقد نهينا عن شعارهم، لكن المعتمد فى دليل المنع أن الصلاة فى لسان السلف صارت مخصوصة بالنبي وغيره من الأنبياء صلوات الله وسلامه عليهم أجمعين استقلالا، كما أن قولنا: عز وجل، مخصوص بالله سبحانه وتعالى، فكما لا يقال: محمد عز وجل، وإن كان عزيزا جليلا، لا يقال: أبو بكر أو على صلى الله عليه، وإن كان معناه صحيحا.
”جو بات اکثر علما نے کی ہے، وہی صحیح ہے کہ غیر نبی کے لیے”الصلاة “کا لفظ استعمال کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ علما نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ اہل بدعت کا شعار ہے اور ہمیں ان کے شعار کو اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن ممانعت کی سب سے قوی دلیل یہ ہے کہ سلف صالحین ”صلاة “ کو مستقل طور پر انبیائے کرام صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین کے لیے خاص سمجھتے تھے۔ جیسا کہ ہم ”عز وجل“ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم محمد عز وجل نہیں کہہ سکتے، بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم عزیز و جلیل ہیں۔ اسی طرح ابو بکر رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ کے ناموں کے ساتھ صلی اللہ علیہ نہیں کہہ سکتے، باوجود اس کے کہ اس کا معنی درست ہے۔ “
(العدة في شرح العمدة: 612/2)
علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ (1252ھ) لکھتے ہیں:
إنما أحدثه الرافضة فى بعض الأئمة والتشبه بأهل البدع منهي عنه فتجب مخالفتهم.
”یہ بدعت روافض نے اپنے بعض ائمہ کے لیے ایجاد کر لی ہے اور اہل بدعت سے مشابہت اختیار کرنا ممنوع ہے سو ان کی مخالفت واجب ہے۔ “
(فتاوی شامی: 753/6)
محدثین کا شعار
حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
الصلاة والرضوان والرحمة من الله بمعنى واحد إلا أنها وإن كانت كذلك فإنا نستحب أن يقال للصحابي رضى الله عنه وللنبي صلى الله عليه وسلم تشريفا له وتعظيما.
”صلی اللہ علیہ وسلم، رضی اللہ عنہ اور رحمہ اللہ کا ایک ہی معنی ہے، لیکن اس کے باوجود ہم محدثین صحابی کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ کہنا پسند کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرف و تعظیم کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ”صلی اللہ علیہ وسلم“ کہنا پسند کرتے ہیں۔ “
(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع: 106/2)