اہل بیت سے محبت کا دعوی
تحریر: غلام مصطفی ظہیر امن پوری

روافض کا مذہب جھوٹ اور غلو پر مبنی ہے۔ ان کی اہل بیت سے محبت معتبر نہیں۔ جس طرح نصاریٰ کا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے دعوی محبت مبنی بر حقیقت نہیں، محض غلو ہے، اسی طرح اہل رفض کا اہل بیت سے دعوی محبت مبنی بر حقیقت نہیں محض غلو ہے، ان کا دین اہل بیت کی تعلیمات کے منافی ہے۔ تمام اہل بیت بشمول سیدنا علی رضی اللہ عنہ، ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی منقبت و فضیلت کے قائل تھے، ان سے محبت کرتے تھے، ان کی خلافت کو برحق مانتے تھے۔ جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالعموم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے بالخصوص بغض رکھتا ہے، اہل بیت اس سے بری ہیں۔ اس لیے ہر دور کے علما نے روافض کا کذب و زور بیان کیا ہے۔
❀ قاضی اشبیلی مالکی رحمہ اللہ (543ھ) فرماتے ہیں:
أكثر الملحدة على التعلق بأهل البيت وتقدمة على على جميع الخلق.
”اکثر ملحدین اہل بیت سے تعلق ظاہر کرتے ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تمام انسانوں پر مقدم کرتے ہیں۔ “
(العواصم من القواصم، ص 247)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن القوم رافضة فى الظاهر ملحدة فى الباطن.
”یہ لوگ ظاہر میں رافضی ہیں، مگر باطن میں ملحد ہیں۔ “
(تاريخ الإسلام: 486/8)
❀ حسن بن حسن بن حسن بن علی رحمہ اللہ (145ھ) نے اس شخص سے فرمایا، جو اہل بیت کے بارے میں غلو کرتا تھا:
ويحكم أحبونا لله فإن أطعنا الله فأحبونا وإن عصينا الله فأبغضونا، قال: فقال له رجل: إنكم قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهل بيته، فقال: ويحك لو كان الله مانعا بقرابة من رسول الله صلى الله عليه وسلم أحدا بغير طاعة الله لنفع بذلك من هو أقرب إليه منا أبا وأما، والله إني لأخاف أن يضاعف للعاصي منا العذاب ضعفين وإني لأرجو أن يؤتى المحسن منا أجره مرتين، ويلكم اتقوا الله وقولوا فينا الحق فإنه أبلغ فيما تريدون ونحن نرضى به منكم، ثم قال: لقد أساء بنا آباؤنا إن كان هذا الذى تقولون من دين الله ثم لم يطلعونا عليه ولم يرغبونا فيه.
”تمہاری بربادی ہو! ہم اہل بیت سے اللہ کے لیے محبت کرو، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں، تو ہم سے محبت کرو اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کریں، تو ہم سے بغض رکھو۔ وہ شخص کہنے لگا: آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی اور اہل بیت ہیں! فرمایا: تمہاری بربادی ہو! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کے وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی سے اپنی نافرمانی کی سزا روک لیتا، تو یہ ان کو فائدہ دیتا، جو ماں باپ کے لحاظ سے ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ ہم اہل بیت میں سے جو گناہ گار ہو، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ ہم میں سے نیکی کرنے والے کو دہرا اجر ملے گا۔ تمہاری بربادی ہو! اللہ سے ڈرو اور ہمارے بارے میں حق بات کہو۔ تمہاری طرف سے یہی کافی ہے اور ہم تم سے اسی پر راضی ہیں۔ جس غلو کو تم دین کا حصہ قرار دے رہے ہو، اگر ایسا ہی ہے، تو پھر ہمارے آباء و اجداد نے ہمارے ساتھ بہت برا کیا، ہمیں اس پر مطلع نہ کیا اور نہ ہمیں اس کی ترغیب دلائی۔ “
(طبقات ابن سعد: 245/5، وسنده حسن)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
إن قال قائل: فالرافضة يحبون عليا رضي الله عنه، فهل هم معه؟ فالجواب: لا، لأن محبة الصحابة شرعية، فينبغي أن تكون على وجه يأذن الشرع فيه، ومن ضروراتها اتباع المحبوب، وعلي رضى الله عنه لا يرضي بالبراءة من أبى بكر وعمر علیہما السلام .
”اگر کوئی کہے کہ روافض سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرتے ہیں، تو کیا وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوں گے؟ تو جواب یہ ہے کہ نہیں، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت شرعی ہے، لہذا ضروری ہے کہ محبت کا انداز ایسا ہو، جس کی شریعت میں اجازت ہو۔ محبت کے لیے ضروری ہے کہ محبوب کا اتباع کیا جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ، ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے برات پر راضی نہیں تھے۔ “
(كشف المشكل من حديث الصحيحين: 138/1)
❀ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (110ھ) فرماتے ہیں:
ما أظن رجلا ينتقص أبا بكر وعمر رضي الله عنهما يحب النبى صلى الله عليه وسلم.
”جو شخص سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہو۔ “
(سنن الترمذي: 3685، وسنده صحيح)
❀ امام محمد بن یوسف فریابی رحمہ اللہ (212ھ) بیان کرتے ہیں:
سمعت سفيان، ورجل يسأله عن من يستم أبا بكر رضي الله عنه، فقال: كافر بالله العظيم، قال: نصلي عليه؟ قال: لا، ولا كرامة.
”میں نے سنا کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کسی شخص نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کی بابت پوچھا، تو فرمایا: وہ تو کافر ہے۔ پوچھا: ہم اس کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، اس کا کوئی احترام و اکرام نہیں۔ “
(سير أعلام النبلاء للذهبي: 253/7، وسنده حسن)
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (241ھ) فرماتے ہیں:
من شتم أبا بكر وعمر وعائشة رضي الله عنهم ما أراه على الإسلام.
”جو ابو بکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دے، میں اسے مسلمان نہیں سمجھتا۔ “
(الصارم المسلول لابن تيمية، ص 571)
❀ احمد بن عبداللہ ابن عطیہ رحمہ اللہ (560ھ) فرماتے ہیں:
أحمق الناس فى مسألة كذا وكذا الروافض، خالفوا الكتاب والسنة، وكفروا بالله.
”فلاں فلاں مسئلہ میں سب سے بیوقوف روافض ہیں، انہوں نے کتاب و سنت کی مخالفت کی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔ “
(سير أعلام النبلاء: 346/20، تاريخ الإسلام للذهبي: 166/12، وسنده صحيح)
❀ جعفر صادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بري الله ممن تبرأ من أبى بكر وعمر .
”اللہ تعالیٰ اس شخص سے بری ہے، جو ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے برات کرتا ہے۔ “
(سير أعلام النبلاء للذهبي: 260/6)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا القول متواتر عن جعفر الصادق، وأشهد بالله إنه لبار فى قوله، غير منافق لأحد، فقبح الله الرافضة.
”یہ قول جعفر صادق رحمہ اللہ سے متواتر ہے، میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ آپ رحمہ اللہ اپنی بات میں سچے ہیں اور آپ رحمہ اللہ کے دل میں کسی کے لیے بھی نفاق نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ روافض کو برباد کرے۔ “
(سير أعلام النبلاء: 260/6)
❀ عبد الصمد بن یزید صائغ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
ذكر عند الفضيل وأنا أسمع الصحابة، فقال: اتبعوا فقد كفيتم؛ أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي رضي الله عنهم.
”میں سن رہا تھا کہ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (187ھ) کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ہوا، فرمایا: آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ (جیسے کبار صحابہ ) کا اتباع کر لیں، آپ کو یہ کافی ہو جائیں گے۔ “
(سير أعلام النبلاء للذهبي: 448/8، وسنده صحيح)
علامہ ابوالعباس قرطبی رحمہ اللہ (656ھ) فرماتے ہیں:
هذا الحديث رد من على رضى الله عنه على الشيعة فيما يتقولونه عليه من بغضه للشيخين، ونسبته إياهما إلى الجور فى الإمامة، وأنهما غصباه، وهذا كله كذب وافتراء، على رضى الله عنه منه براء، بل المعلوم من حاله معهما تعظيمه ومحبته لهما، واعترافه بالفضل لهما عليه وعلى غيره، وحديثه هذا ينص على هذا المعنى، وقد تقدم ثناء على رضى الله عنه على أبى بكر رضي الله عنهما.
”یہ حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شیعہ پر رد ہے، جو وہ شیخین رضی اللہ عنہما سے بغض کی وجہ سے ان پر بکواس کرتے ہیں، ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے امامت میں ظلم کیا اور امامت غصب کر لی، نعوذ باللہ! یہ سب کذب اور افترا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ اس سے بری ہیں۔ بلکہ وہ تو ان شیخین رضی اللہ عنہما سے محبت کا تعلق رکھتے تھے، ان کے سب سے افضل ہونے کا اعتراف کرتے تھے، ان کی یہ روایت اس بات پر نص ہے۔ اس سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لیے تعریف گزر چکی ہے۔ “
(المفهم لما أشكل من تلخیص کتاب مسلم: 252/6)
❀ قاضی عیاض رحمہ اللہ (544ھ) فرماتے ہیں:
في هذا الحديث حجة على الشيعة وتكذيب دعواهم على على فى عمر، وسوء اعتقادهم فيه، وشهادته بفضله وفضل أبى بكر رضي الله عنه، وبفضل النبى صلى الله عليه وسلم لهما، وتخصيصه لهما، وفيه صدق ظن على رضى الله عنه وصحة حسبانه فى أن يدفن عمر رضى الله عنه مع صاحبيه.
”یہ حدیث شیعہ کے خلاف دلیل ہے اور ان کے اس دعوی کی تکذیب ہے، جو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کرتے ہیں اور اس بارے میں برا عقیدہ رکھتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی گواہی دی ہے، نیز گواہی دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فضیلت اور خصوصیت دیتے تھے۔ اس حدیث میں ذکر ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وہ گمان، جو وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے دونوں ساتھیوں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ دفن ہونے سے متعلق کرتے تھے، سچ ثابت ہو گیا۔ “
(إكمال المعلم بفوائد مسلم: 394/7)
❀ امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حب أهل بيت نبيك صلى الله عليه وسلم ولا تكن رافضيا.
”اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے محبت کیجئے اور رافضی مت بنیے۔ “
(تاريخ ابن معين برواية الدوري: 1163، وسنده صحيح)
امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول حق ہے، اہل سنت کے دو افراد بھی اس میں اختلاف نہیں کرتے۔ اس قول سے معلوم ہوا:
① ائمہ اہل سنت اہل بیت سے محبت کرنے والے تھے۔
② اہل بیت سے محبت کی تلقین کرنے والے تھے۔
③ اہل بیت سے بغض کو رافضیت سمجھنے والے تھے۔
④ روافض کا اہل بیت سے محبت کا دعوی جھوٹا ہے، بلکہ وہ درحقیقت اہل بیت سے بغض و عناد رکھتے ہیں اور ان کی تعلیمات سے یکسر منحرف ہیں۔
⑤ اس قول میں ناصبیوں کا بھی رد ہے، جو اہل بیت کے دشمن ہیں۔
⑥ اس قول سے ثابت ہوا کہ ہر ناصبی رافضی ہے اور ہر رافضی ناصبی ہے۔
⑦روافض اور نواصب دو انتہائیں ہیں، اہل سنت والجماعت متوسط ہیں، نہ روافض کی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم سے اعلان برات کرتے ہیں اور نہ نواصب کی طرح اہل بیت سے بغض روا سمجھتے ہیں، بلکہ ہر ایک کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہیں۔
⑧ اہل سنت والجماعت اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں، نیز ان کے فضائل و مناقب کے قائل ہیں۔
⑨ اہل سنت والجماعت غلو، تقصیر اور افراط و تفریط سے کوسوں دور ہیں، نہ اہل بیت کی شان میں غلو کرتے ہیں اور نہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں۔
⑩ائمہ اہل سنت کی کتابوں میں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا درس ملتا ہے، لہذا یہ کہنا خلاف حقیقت ہے کہ ائمہ اہل سنت کی کتابوں میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ذکر نہیں، جبکہ اہل سنت کی کتابیں ذکر اہل بیت سے لبریز ہیں۔
⑪ امام شعبی رحمہ اللہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عالم اہل بیت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سمیت کئی علمائے اہل بیت کے شاگرد ہیں، آپ رحمہ اللہ کی یہ نصیحت علمائے اہل بیت کی تعلیمات پر مبنی ہے۔
⑫رافضیت ائمہ اہل سنت کے نزدیک معتبر دین نہیں ہے۔ ورنہ رافضیت سے منع نہ کرتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1