ماخوذ: احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 229
سوال
اکیلا نماز پڑھنے کی صورت میں جہری نمازوں میں قراءت بلند آواز سے کرے یا آہستہ؟ اس پر دلائل دیں۔ نیز، اکیلے نماز پڑھنے کی صورت میں اقامت کہنی چاہیے یا نہیں؟ اور ترمذی کی روایت میں "فَاَقِمْ” کا کیا مطلب ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے دونوں طریقے درست ہیں، یعنی چاہے وہ جہری نمازوں میں قراءت بلند آواز سے کرے یا آہستہ آواز سے، دونوں جائز ہیں۔
- اس کی مثال ہمیں نبی کریم ﷺ کی تراویح اور تہجد کی نمازوں سے ملتی ہے، جو آپ ﷺ نے کبھی جماعت کے ساتھ جہراً (بلند آواز سے) اور کبھی اکیلے سرا (آہستہ آواز سے) ادا فرمائیں۔
- اصولی طور پر فرض اور نفل نمازوں کے احکام یکساں ہوتے ہیں، سوائے ان معاملات کے جن میں کتاب و سنت سے کوئی فرق ثابت ہو۔
- اور موجودہ سوال کی صورت میں، یعنی اکیلا نماز پڑھنے والا جہری نمازوں میں بلند آواز سے قراءت کرے یا نہیں، اس بارے میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق کتاب و سنت میں وارد نہیں ہوا، فِیْمَا اَعْلَمُ (میرے علم کے مطابق)۔
ترمذی کی روایت میں "فَاَقِمْ” کے متعلق
- برائے مہربانی ترمذی کی روایت کا مکمل حوالہ تحریر فرما دیں تاکہ اس پر تفصیل سے گفتگو کی جا سکے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب