سوال
۲۸ مارچ ۱۹۹۲ء بروز ہفتہ روزنامہ جنگ کراچی کی خبر ہے کہ انشورنس کا کاروبار اور پریمیم حرام نہیں، مسلم اسکالروں کے بورڈ کا فتویٰ۔ بورڈ سعودی عرب، مصر، سوڈان اور دیگر ممالک کے اسکالروں پر مشتمل ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا، جس میں روزنامہ جنگ کے ایک تراشے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس تراشے میں ایک نمایاں سرخی ہے:
"انشورنس کا کاروبار اور پریمیم حرام نہیں، مسلم اسکالروں کے بورڈ کا فتویٰ”
لیکن اس خبر میں نیچے بورڈ کے فتویٰ کا اصل متن نقل نہیں کیا گیا۔ چنانچہ جب تک اس بورڈ کے فتویٰ کا اصل متن اپنی اصلی حالت میں سامنے نہ آ جائے، اس وقت تک اس کے درست یا نادرست ہونے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔
اخبارات کی سرخیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ عموماً اخباری ادارے سرخیوں میں اصل بات کو بگاڑ دیتے ہیں اور اس میں تحریف یا مبالغہ شامل کر دیتے ہیں۔ اس لیے صرف سرخی پر اعتماد کرنا علمی اور شرعی طور پر درست نہیں ہے۔
انشورنس کا کاروبار اور پریمیم کی شرعی حیثیت:
رہا سوال کہ انشورنس کا کاروبار اور پریمیم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ تو اس بارے میں واضح طور پر عرض ہے کہ:
✿ انشورنس کا کاروبار اور پریمیم حرام ہیں۔
✿ اس کے حرام ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انشورنس میں:
✿ سود (ربا) پایا جاتا ہے۔
✿ جوا (قمار) بھی پایا جاتا ہے۔
جبکہ:
سود اور جوا دونوں شریعتِ مطہرہ میں قطعی طور پر حرام ہیں۔
لہٰذا انشورنس کا کاروبار اور اس کا پریمیم لینا دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب