اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے مٹی سے پیدا کیا اور انسانی شکل دے کر اس میں روح پھونکی، تو تمام فرشتوں کو انھیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ سب نے بات مان لی اور اطاعت کی لیکن ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
(7-الأعراف: 11)
”اور ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی ، پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ تمام نے سجدہ کیا، وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہو سکا۔ “
تخلیق انسانیت کا مقصد:
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(2-البقرة: 30)
”اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ (اے اللہ ! ) کیا تو اس میں ایسے آدمی کو نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزی کرے گا، اور ہم تو تیری تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرہتے رہتے ہیں۔ (اللہ نے) کہا: جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔“
اس آیت کریمہ میں بنی آدم پر ایک طرح کے احسان کا ذکر ہے کہ اللہ نے انہیں پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کیا اور ان کی فضیلت بیان کی، یعنی فرمایا کہ میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا چاہتا ہوں جس کی ایک نسل دوسری نسل کے بعد آتی رہے گی ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم خاص سے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا۔ یہ بات یا درکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض تھی، نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی کہ پروردگار ! ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کون سی حکمت ہے؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے، پھر بھی جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر پیدا کر رہا ہوں، انہیں میں ہی جانتا ہوں، تمہار اعلم ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے۔ ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء، ابرار، نیکوکار ، قرب بارگاه، علماء، صلحا، متقی، پرہیز گار، خوف الہی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔
[تفسير ابن كثير: 1 /126۔ 127 ملحضا]
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
(51-الذاريات: 56)
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔“
دوسرے مقام پر فرمایا کہ وہ ذات اس سے بہت ہی بلند و بالا ہے کہ وہ کسی چیز کو بے کار پیدا کرے۔ اس نے تو تمھیں محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
(23-المؤمنون: 115)
”کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے، اور تم ہماری طرف دوبارہ لوٹائے نہیں جاؤ گے۔ “
شیطان نے آدم علیہ السلام کو لغزش میں مبتلا کر دیا:
جب اللہ کے حکم پر تمام فرشوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا، اس سجدہ سے مقصود آدم علیہ السلام کی تعظیم تھی یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت دے دی، پھر ان کی بیوی کو ان کی پسلی سے پیدا کیا، تا کہ آدم ان کے ذریعے سکون حاصل کریں، اور اللہ نے اپنی نعمت ان پر تمام کر دی کہ دونوں کو حکم دیا کہ جنت میں رہیں اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
(2-البقرة: 35)
”اور ہم نے کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور اس میں جتنا چاہواور جہاں سے چاہو کھاؤ اور اس درخت کے قریب مت جاؤ، ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ “
ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ (118) وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ (119)
(20-طه: 118، 119)
”اللہ نے آدم سے کہا کہ جنت میں نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ تم ننگے ہو گے، نہ تمہیں پیاس لگے گی اور نہ گرمی ۔ “
اللہ تعالیٰ نے سید نا آدم علیہ السلام کے لیے جنت کی ہر نعمت مباح کر دی ، سوائے اس درخت کے جس کا کھانا اللہ نے ان کے لیے ممنوع قرار دے دیا، تا کہ ان کے لیے اس ممنوع درخت کو کھانے کا کوئی عذر باقی رہ جائے۔ اور یہ ممانعت اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا۔
چنانچہ ابلیس نے جب انہیں اس حال میں دیکھا تو اس کے حسد کی آگ بھڑک اُٹھی اور ان کے ساتھ مکر و فریب کی سوچ لی، تا کہ وہ وہ جن نعمتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں، اور جو خوبصورت لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں ان سے چھن جائے، چنانچہ اس نے اللہ کے خلاف افترا پردازی کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے منع کیا ہے کہ اگر اسے کھا لو گے تو تم فرشتے بن جاؤ گے، پھر کھانے پینے کی محتاجی نہیں رہے گی یا تمہیں موت لاحق نہیں ہوگی اور جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہو گے۔ اور ابلیس نے انہیں اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے ذات باری تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ میں تم دونوں کا انتہائی خیر خواہ ہوں جبھی یہ راز تمہیں بتادیا ہے۔
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (20) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ (21)
(7-الأعراف: 20، 21)
”شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ پیدا کیا، تاکہ ان کے بدن کا جو حصہ ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا اسے دونوں کے سامنے ظاہر کر دے، اور کہا کہ تمھارے رب نے تمھیں اس درخت سے اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جاؤ، یا جنت میں ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ بن جاؤ۔ اور ان دونوں کے سامنے خوب قسمیں کھائیں کہ میں تم دونوں کا بے حد خیر خواہ ہوں۔“
شیطان نے دونوں کو دھوکہ دے کر بلندی سے پستی میں پہنچا دیا۔ یعنی کہ اس نے ان دونوں کو ارتکاب معصیت کی ہمیت دلائی، چنانچہ جب انھوں نے اس شجرہ ممنوعہ کو شیطان کے دھوکے میں آکر کھا لیا، تو اس نافرمانی کا انجام فورا ہی ان کے سامنے آگیا کہ ان کے لباس ان کے جسموں سے الگ ہوئے تو جنت کے درختوں کے پتے لے لے کر اپنے جسموں پر چپکانے لگے تاکہ اپنی پردہ پوشی کریں ۔ تب اللہ نے ان سے کہا، کیا میں نے تمھیں اس درخت کے کھانے سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
(7-الأعراف: 22)
”پس اُس نے دونوں کو دھوکہ دے کر اپنے جال میں پھانس لیا ، پس جب دونوں نے اس درخت کو چکھا تو ان کی شرمگاہیں دکھائی دینے لگیں اور دونوں اپنے جسم پر جنت کے پتے چسپاں کرنے لگے، اور ان دونوں کے رب نے انھیں پکارا کہ کیا میں نے تمھیں اس درخت سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ بے شک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے۔ “
آدم علیہ السلام کی تو بہ، اور اللہ کا عطا کردہ معافی نامہ:
اس وقت انھوں نے اپنے رب سے کلمات سیکھے اور ان کے ذریعے توبہ کی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
(2-البقرة: 37)
”آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے، تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔“
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ آدم علیہ سلام نے کہا: یا رب! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے نہیں بنایا؟ اللہ نے کہا: ہاں، آدم نے کہا: اگرمیں توبہ کروں اور اپنی حالت درست کرلوں، تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں لوٹا دے گا؟ اللہ نے کہا: ہاں ۔
[تفسير طبري: 543/1]
معافی نامہ کا متن:
وہ کلمات جو اللہ نے آدم علیہ السلام کو سکھائے تا کہ ان کے ذریعہ اپنی توبہ کا اعلان کریں، یہ دعا تھی:
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
(7-الأعراف: 23)
”اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہمارے حال پر رحم نہ کیا تو ہم بے شک خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے ۔ “
سفر ارضی اور ہدایت اور ضلالت کے رستے:
اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا علیہ السلام سے خطاب فرمایا کہ اب تم زمین پر رہو گے، اور ہم تمھاری طرف ہدایت اُتاریں گے، تو جو میری بھیجی گئی ہدایت کی اتباع کرے گا، اسے نہ دنیا میں کسی کھوئی ہوئی چیز کا غم ہوگا، اور نہ آخرت میں اپنے انجام کے بارے میں کوئی خوف لاحق ہوگا۔ ارشاد فرمایا:
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
(2-البقرة: 38)
”ہم نے کہا: تم سب اس سے نیچے جاؤ، پھر اگر تمھیں میری طرف سے ہدایت آئے ، تو جو لوگ میری ہدایت کی پابندی کریں گے، انھیں نہ تو کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ ہی وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے ۔“
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
(20-طه: 123)
”جو میری ہدایت کو مانے گا وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں اسے بدنصیبی لاحق ہوگی۔ “
اور جولوگ کفر کی راہ اختیار کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے، اُن کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جہاں وہ لوگ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(2-البقرة: 39)
”اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری نشانیوں کو جھٹلائیں گے وہی لوگ جہنم والے ہوں گے، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “
اولاد آدم بڑھی، دنیا میں پھیلی اور پوری دنیا کی قابل سکونت زمین میں بس گئی اور مختلف قبیلوں ، قوموں اور خاندانوں میں بٹ گئی:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
(49-الحجرات: 13)
”اے لوگو! ہم نے تمھیں مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کیا ہے، اور ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے بانٹ دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہیں جو سب سے زیادہ پر ہیز گار ہیں، بے شک اللہ بڑا جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔“
سلسلہ بعثت انبیاء ورسل علیہم السلام:
آدم علیہ السلام اور تمام انسانیت کو اللہ رب العزت نے فطرت اسلام پر تخلیق کیا۔ آدم علیہ السلام کے بعد مدتوں لوگ اسی شریعت حقہ پر قائم اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے رہے۔ پھر شیطان مردود نے انہیں گمراہ کیا اور غیر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
(2-البقرة: 213)
”پہلے سبھی لوگ ایک دین پر قائم تھے (پھر مرور زمانہ کے ساتھ ان میں اختلاف ہو گیا ) تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مبعوث کیا، جن کا کام لوگوں کو جنت کی خوشخبری دینا، اور عذاب نار سے ڈرانا تھا، اور ان کے ساتھ برحق کتابیں نازل کیں، تا کہ اللہ لوگوں کے درمیان اُس بات میں فیصلہ کر دے جس میں انہوں نے آپس میں اختلاف کیا، اور اُس میں اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی ، اور کھلی نشانیاں آجانے کے باوجود صرف باہم دشمنی اور عناد کی وجہ سے اختلاف کیا، تو اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اہل ایمان کی اس مختلف فیہ بات میں حق کی طرف رہنمائی کی ، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت دیتا ہے۔“
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے کہ:
كان بين نوح و آدم عشرة قرون، كلهم على شريعة من الحق، فاختلفوا، فبع الله النبيين مبشرين ومنذرين.
[مستدرك حاكم: 564/2، 574۔ تفسير طبري: 194/2 ۔ سلسلة الصحيحة: 854/7۔ حاكم ، ذهبي اور محدث الباني نے اسے صحيح قرار ديا هے۔]
” آدم اور نوح کے درمیان دس صدیوں کی مدت تھی۔ اس پوری مدت میں لوگ ایک ہی شریعت حقہ پر قائم رہے، پھر ان کے درمیان مرورِ زمانہ کے ساتھ اختلاف واقع ہو گیا تواللہ تعالی نے انبیاء کو بشیر ونذیر بنا کر بھیجا۔ “
سب سے پہلے انسان سب سے پہلے نبی:
آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے نبی بھی تھے۔ چنانچہ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا: کہ اے اللہ کے رسول! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كان آدم نبيا مكلما كان بينه وبين نوح عشرة قرون وكانت الرسل ثلاثمائة وخمسة عشر.
سلسلة الصحيحة، رقم: 2668.
”ہاں! نبی تھے جو اللہ سے ہم کلام ہوئے۔ آدم اور نوح ( علیہ السلام ) کے درمیان دس صدیوں کی مدت تھی ۔ اور تین سو پندرہ رسول تھے ۔“
اس کے بعد اللہ تعالیٰ پے در پے انبیاء ورسل کو ان کی اقوام کی طرف بھیجتا رہا۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَّسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُم بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ
(23-المؤمنون:44)
” پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے، جب بھی کسی جماعت کے پاس اس کا رسول آیا، انہوں نے اسے جھٹلایا، تو ہم بھی انہیں یکے بعد دیگرے ہلاک کرتے گئے اور انہیں کہانیاں بناتے گئے ، پس ایمان نہ لانے والوں سے دنیا پاک ہوتی گئی ۔ “
اولاد آدم میں سے پہلے رسول سیدنا نوح علیہ السلام:
اولاد آدم علیہ السلام میں سے پہلے رسول سیدنا نوح علیہ السلام ہیں۔ صحیح بخاری کی حدیث شفاعت میں ہے۔ کہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آ کر کہیں گے کہ اے نوح! بیشک آپ زمین والوں کی طرف اللہ کے سب سے پہلے رسول ہیں ۔
[صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، رقم: 3340]
علامہ سندھی رقمطراز ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ نوح علیہ السلام سب سے پہلے رسول ہیں جو کفار کو ایمان کی دعوت دینے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ان سے پہلے آدم و شیث و ادریس علیہ السلام کی طرف نہیں بلکہ مومنوں کو شریعت سکھانے کے لیے بھیجے گئے تھے کیونکہ نوح علیہ السلام سے پہلے کفر کا وجود نہ تھا۔
[شرح سنن ابن ماجه: 525/4]
اور علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے ایک اور اشکال کا ذکر کیا ہے۔ کہتے ہیں: کہ سیدنا نوح علیہ السلام زمین والوں کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں، تو یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت والی حدیث سے متعارض ہے جس میں آیا ہے کہ مجھ سے پہلے انبیاء صرف اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے۔ اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ پھر از الہ تعارض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام تو اپنی قوم ہی کی طرف مبعوث تھے۔ آپ کی اصل بعثت میں عموم نہیں تھا۔ البتہ یہ ہوا کہ طوفان نوح میں ہلاک ہونے کے بعد پوری دنیا میں جولوگ باقی رہ گئے تھے ان کی قوم ہی کے باقی ماندہ لوگ تھے۔
(تحفۃ الاحوذی: 297/3)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
(11-هود:25)
”اور بے شک ہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا (انہوں نے ان سے کہا کہ) میں تو تمہیں اللہ کے عذاب سے کھل کر ڈرانے والا ہوں۔ “
اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہدایت کے لیے سیدنا ہود علیہ السلام کو مبعوث کیا تھا، جو انہی میں سے تھے۔ یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ سیدنا ہود علیہ السلام نے ان سے کہا: اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو جس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور تم جو اسے چھوڑ کر بتوں کی پرستش کرتے ہو تو یہ بہت بڑی افترا پردازی ہے، اس لیے کہ اللہ نے تمہیں کبھی نہیں کہا کہ اس کے بجائے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرو۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُونَ
(11-هود:50)
”اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا، اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تم لوگ اللہ پر صرف افترا پردازی کرتے ہو۔“
مدائن حجر جو تبوک اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع تھا۔ صالح علیہ السلام ہود علیہ السلام کے سوسال کے بعد وہاں مبعوث ہوئے۔ انہوں نے بھی اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ صرف اللہ کی عبادت کرو جس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور تمہیں زمین میں آباد کیا، اور اسے آبا د ر کھنے کی تمہارے اندر صلاحیت ودیعت کی اس لیے تم لوگ شرک سے توبہ کرو اور اللہ کی طرف رجوع کرو، اللہ بڑا ہی قریب ہے اور اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
(11-هود:61)
”اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم ! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، اور اس میں تمہیں آباد کیا، تو تم اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو، بے شک میر ارب قریب ہے اور دُعا قبول کرتا ہے۔ “
اہل مدین کی طرف شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ۚ إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ (84) وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (85) بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ (86)
(11-هود:84، 85، 86)
” اہل مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ تول میں کمی نہ کرو، میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں، اور بے شک میں تمہارے بارے میں ایسے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو ہر چیز کو اپنے احاطے میں لے لے گا۔ اور اے میری قوم! تم عدل و انصاف کے ساتھ ناپ تول پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد پھیلانے والے بن کر نہ رہو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ کا دیا جو حلال مال بچ جائے ، وہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور میں تم لوگوں کا نگہبان نہیں ہوں ۔“
اسی طرح انبیاء ورسل علیہ السلام اللہ تعالیٰ یکے بعد دیگرے خاص اقوام کی طرف بھیجتا رہا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا(163) وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا (164)
(4-النساء:163، 164)
”بے شک ہم نے آپ پر وحی اتاری ہے، جیسے نوح اور ان کے بعد کے دوسرے انبیاء پر اُتاری تھی ، اور جیسے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد اور عیسی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر وحی اتاری تھی ، اور ہم نے داود کو زبور دیا تھا۔ اور ہم نے ایسے رسول بھیجے جن کے حالات ہم نے اس کے قبل آپ کو (بذریعہ وحی ) بتادیئے ہیں، اور ایسے بھی رسول بھیجے جن کے حالات ہم نے آپ کو نہیں بتائے ہیں، اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان پچیسں انبیاء کے نام ذکر کیے ہیں، جن کے نام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیے ہیں، اکثر و بیشتر انبیاء کے نام معلوم نہیں ہیں ۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کا نام لے کر ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہیں:
آدم، ادریسں، نوح، ہود، صالح، ابراہیم ، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، ایوب، شعیب، موسی، ہارون، یونس، داود، سلیمان، الیاس، الیسع ، زکریا، یحیی اورعیسی علیہ السلام ۔
اسی طرح بہت سے مفسرین کے نزدیک ذوالکفل بھی نبی ہیں۔ سلسلہ نبوت ورسالت ہمارے آخری پیغمبر سید الانبیاء والمرسلین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
(33-الأحزاب:40)
” محمد تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، وہ تو اللہ کے رسول اور انبیاء کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔“
(تفسیر ابن کثیر: 29/2 تعدیل)
یہ آیت کریمہ نص صریح ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور جب کوئی نبی نہیں تو پھر بدرجہ اولی کوئی رسول بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ رسالت کا مقام نبوت سے اعلیٰ ہے کیونکہ ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔
بعثت انبیاء کا مقصد:
اللہ تعالیٰ نے انبیاء اس لیے مبعوث کیے تا کہ وہ ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری دیں اور کافر کو عذاب نار سے ڈرائیں، تا کہ قیامت کے دن انسانوں کے پاس اللہ کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے کوئی بہانا باقی نہ رہے، کہ اے اللہ ! تو نے ہماری ہدایت کے لیے رسول کیوں نہیں بھیجے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (165) لَّٰكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا (166)
(4-النساء:166، 165)
” ہم نے ایسے انبیاء بھیجے جو جنت کی خوشخبری دینے والے اور جہنم سے ڈرانے والے تھے، تاکہ رسولوں کی بعثت کے بعد، لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف کوئی حجت نہ باقی رہے، اور اللہ بڑا زبردست اور بڑی حکمتوں والا ہے۔ یہ کفار نہیں مانتے تو نہ مانیں لیکن اللہ اس وحی کی شہادت دیتا ہے جو اس نے آپ پر اُتاری ہے، اس نے اسے اپنے علم کے مطابق اُتارا ہے، اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں، اور اللہ بحیثیت گواہ کافی ہے۔“
صحیحین میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا:
”اللہ عز وجل سے زیادہ کسی کو (بندوں کا ) معافی مانگنا پسند نہیں ۔“
[صحيح مسلم، كتاب التوبة، رقم: 6991 و 6994۔ صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم: 4634.]
اس لیے اس نے جنت کی خوشخبری دینے اور جہنم سے ڈرانے کے لیے انبیاء مبعوث کیے، تاکہ لوگ انبیاء کی تعلیمات کو اپنا کر، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ کی رضا کے حقدار بن جائیں۔