محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی شرک میں مبتلا ہوسکتی ہے یا نہیں؟
افسوس صد افسوس ! کہ اب تو اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہو چلا ہے، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو یہ باور کرانے کے در پے ہیں کہ اُمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرد شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ شرک سے محفوظ و مامون ہے!!!
جبکہ دوسری طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ جس طرح گزشتہ انبیائے کرام کی امتوں میں شرک داخل ہو چکا تھا بالکل اسی طرح محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی شرک آسکتا ہے، اس اُمت کے بھی کچھ لوگ شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں بلکہ ہوئے بھی ہیں، محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی وجہ سے وہ شرک سے محفوظ نہیں ہو جائے گا۔ اب دو گروہ میں سے کس کی بات درست ہے اور کس کی غلط؟ کس کی بات حق ہے اور قرآن وسنت کے عین مطابق اور کس کی بات قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے؟
اختلاف کا حل
اس اختلاف کا بلکہ جملہ اختلافات کا حل کس طرح ممکن ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ﴾
”اور جس چیز میں بھی تم نے اختلاف کیا اُس کا حکم (فیصلہ ) اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ “ [الشورى:10]
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
پس اگر کسی چیز میں تمھارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی احسن ہے۔ [ النساء:59]
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دینے کا مطلب اب یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کی طرف رجوع کیا جائے ، معلوم ہوا کہ کسی بھی مسئلہ میں اگر اختلاف واقع ہو جائے تو ایک مومن کا اولین فریضہ یہ ہے کہ اس کے حل کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے ، وہاں سے جو حل ملے اُسی پر ایمان و عمل کی بنیاد رکھے یہ ایمان باللہ اور آخرت پر ایمان کی لازمی شرط ہے، اور تنازعات و اختلافات کو ختم کرنے کا بہترین اصول بھی ہے۔ اس میں کسی قسم کی ستی، کاہلی، کوتاہی گویا ایمان باللہ اور آخرت کے معاملے میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس قرآنی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے دیکھتے ہیں کہ ہر دو گروہ میں سے کس کی بات قرآن وسنت کے مطابق اور حق ہے اور کس کی بات قرآن وسنت کے خلاف اور باطل ہے؟ اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آیا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں بعض لوگوں سے شرک کا صدور ممکن ہے یا نہیں؟ اس امت کے بعض لوگ شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
قرآن مجید اور امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرک:
پہلے ہم قرآن مجید سے چند دلائل اس بات کے ثبوت میں پیش کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کا اقرار کرنے والا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے۔
پہلی دلیل:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾
”اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کھانا گناہ ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں کہ وہ تم سے جدال (بحث و جھگڑا) کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقینا تم مشرک ہو جاؤ گے۔ “ [الأنعام: 121]
فریق ثانی کے معروف مفسر مولوی نعیم الدین مراد آبادی صاحب نے اس آیت کے حاشیہ میں لکھا ہے: ”کیونکہ دین میں حکم الہی کو چھوڑنا اور دوسرے کے حکم کو ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔“ (خزائن العرفان ص 231)
اور فریق ثانی کے پیر محمد کرم شاہ الازہری صاحب نے لکھا ہے کہ
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتا ہے وہ ”مشرک“ ہو جاتا ہے، «فدلت الآية على ان من استحل شيئا مما حرم الله تعالى صار به مشركا (قرطبي)»
(ضیاء القرآن ج اص 597، حاشیہ نمبر 153)
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب فرمایا اور انھیں ایسا کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو یا اللہ کے ساتھ کسی اور کا بھی نام لیا گیا ہو اور یہ بھی فرمایا کہ شیطان کے ساتھی تم سے بحث ومباحثہ اور جھگڑا کریں گے، ان کی پوری کوشش ہوگی کہ تمھیں ایسا حرام کھانا کھلا دیں۔ تو فرمایا اگر تم نے ان کی بات مان لی ایسا کھانا کھا لیا تو تم بھی ”مشرک“ ہو جاؤ گے۔
یہاں صرف ان کی بات ماننے سے ہی قرآن مجید سے ”مشرک“ ہو جانا ثابت ہوتا ہے۔ نہ معبود و مسجود ماننے کی شرط ہے نہ ہی ازلی ابدی، قدیمی، ذاتی لامحدود وغیرہ کی۔ اب بھی غیر مسلم اور بہت سے علم نہ رکھنے والے مسلمان غیر اللہ کے نام کا کھانا کھاتے کھلاتے ہیں اور نہ کھانے والوں کے ساتھ اصرار و حجت بازی بھی کرتے ہیں تو جو ان کی بات مانے گا وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فرمان کے مطابق یقیناً ”مشرک“ ہے۔
اس آیت میں انھی لوگوں سے یہ خطاب ہے جو ایمان والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے آپ کے امتی ہیں۔ اگر امت کا شرک میں مبتلا ہونا ناممکن ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہ کیوں فرماتا کہ ﴿إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾ اس صورت میں تم مشرک ہو جاؤ گے، اسلوب بیان بھی تاکیدی ہے۔ اس آیت مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کا یہ خیال وزعم درست نہیں بلکہ سراسر باطل وغلط ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھنے کی توفیق دے اور شیطان کے اس جھانسے سے نکالے۔ (آمین)
دوسری دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ. حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ.﴾
”اور تمھارے لئے چوپائے جانور حلال کئے گئے سوائے ان کے (جن کی حرمت) تمھارے سامنے پڑھ دی گئی، اوثان کی نجاست سے بچتے رہو اور بچو جھوٹی بات سے، اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے یکسو ہوکر اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اور جس کسی نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پس اچک لیا اس کو کسی پرندے نے یا اسے ہوا نے کسی دور دراز مقام پر پھینک دیا ہو۔ “ [الحج: 30، 31]
ان آیات مبارکہ میں بھی اہل ایمان سے خطاب ہے، انھیں بتلایا گیا ہے کہ تم پر کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ پھر انھیں جھوٹ اور اوثان کی نجاست سے بچتے رہنے کا حکم دیا۔ اوثان وثن کی جمع ہے اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے خواہ وہ حجر وشجر ہو یا قبر ہو ۔ جھوٹی بات سے بھی بچتے رہنے کا حکم دیا نیز فرمایا: ہر طرف سے اپنے رخ کو پھیر کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی طرف مائل ہوں ۔
﴿غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ﴾ ”اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوئے ۔ “
ایمان والوں کو اس بات کا حکم دینا کہ شرک سے بچتے ہوئے اللہ کی طرف مائل ہوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بندہ ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اگر ایمان لانے کے بعد بندہ شرک کے خطرے سے یکسر محفوظ ہو جاتا تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ ”شریک نہ ٹھہراتے ہوئے“ زندگی گزاریں اور جو کوئی شرک کی نجاست میں مبتلا ہو جائے، اس کے لئے آسمان سے گرنے کی مثال دی ۔ اگر وہ آسمان سے گرے تو یا اُسے پرندے اچک لیں یا ہوا دور دراز مقام پر اسے پھینک دے گی اور اس کی ہڈیاں چکنا چور ہو جائیں گی اور وہ یقینی طور پر ہلاک ہو جائے گا۔ اسی طرح مشرک بھی آخرت میں ہلاکت و بربادی کے گڑھے میں جا گرے گا۔
تیسری دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾
”اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسی سے ڈرتے رہو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔“ [الروم: 31]
اس آیت میں بھی ایمان والوں سے خطاب ہے انھیں انابت الی اللہ ، تقویٰ اور اقامت صلاۃ کا حکم دیا گیا اور ”مشرک“ بننے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر ایمان قبول کر لینے کے بعد شرک کا صدور ناممکن ہوتا اور ایمان والا شرک کے خطرے سے محفوظ ہو جاتا تو یہ حکم کیا معنی رکھتا ہے کہ ”مشرک مت بنو“ ؟
چونکہ ایمان لانے کے بعد بھی بندہ شیطان کی چالوں میں پھنس کر شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ہوشیار کیا کہ ”مشرک مت بننا“ لہذا یہ سمجھنا کہ ایمان لانے کے بعد کوئی شخص مشرک نہیں ہو سکتا سراسر باطل ہے۔
چوتھی دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾
”اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ! جو مومنہ عورتیں آپ سے اس بات پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہ کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ اپنی طرف سے کوئی بہتان گھڑ لائیں گی اور نہ معروف میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں، یقینا اللہ بخشنے اور معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ “ [الممتحنة: 12]
اس آیت مبارکہ میں جہاں ان سے دیگر کبیرہ گناہوں سے دور رہنے کی بیعت لی گئی وہاں اس بات پر بھی بیعت لینے کا ذکر ہے کہ وہ ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کریں گی ۔“ قرآن مجید نے انھیں ”المؤمنات“ قرار دیا اور پھر شرک نہ کرنے پر بیعت لینے کا حکم یہی ثابت کرتا ہے کہ ایمان والوں سے جس طرح دیگر کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ممکن ہے، اسی طرح یہ بات بھی ممکن ہے کہ وہ ”شرک“ میں مبتلا ہو جائیں ۔ «أعاذنا الله منه»
پانچویں دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾
”بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اس کے علاوہ جس گناہ کو جس کے لئے چاہے بخش دے پس جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔“ [النساء: 116]
اس آیت مبارکہ میں اللہ نے اپنا قانون واضح فرمایا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ”شرک“ کئے جانے کو معاف نہیں فرماتا۔ قرآن وسنت کے دیگر دلائل سے یہ واضح ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب کوئی ”شرک“ کی حالت میں ہی توبہ کئے بغیر مر جائے تو اس کے لئے کوئی معافی نہیں ورنہ جو لوگ اپنی زندگی میں ہی توحید کا شعور حاصل کر لیں ، اس پر ایمان لے آئیں اور اس پر ثابت قدم رہیں اور شرک سے توبہ کر لیں تو اللہ رب العالمین ان پر اپنا فضل و کرم فرما کر انھیں معاف کر دے گا۔
اب غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ”شرک“ کے علاوہ دیگر تمام گناہوں کی بخشش و مغفرت اللہ کی مرضی و منشاء پر ممکن بتلائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی بھی شخص کے شرک کے علاوہ دیگر صغیرہ کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے۔ لیکن کیا بخشش و مغفرت کی یہ نوید ہر شخص کے لئے ہے اور عام ہے؟ وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق قبول نہ کر کے اُمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہیں ہوئے یا آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا تو کیا وہ بھی اس بخشش و مغفرت کے حقدار ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ اعلان ان کے لئے بھی ہے؟ کیا وہ بھی اس حکم میں شامل ہیں؟
تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ الحمد للہ اہلِ اسلام اس سلسلے میں دورائے کا شکار نہیں بلکہ قرآن وسنت پر ایمان رکھنے والے تمام اہلِ اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق کو قبول نہیں کیا آپ کی اُمت میں شامل نہیں ہوئے وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے ، بلکہ وہ جہنمی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا آپ کی رسالت کا دل سے اقرار دخول جنت کے لئے لازمی شرط ہے اور قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور اس کے اقرار کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی صراحتاً اس بات کا ذکر موجود ہے بطور مثال صرف ایک حدیث ہم پیش کئے دیتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والذي نفس محمد صلى الله عليه وسلم بيده ! إلا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا كان من أصحاب النار»
اس ذات کی قسم ! جس کے (مبارک) ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اس امت میں سے جو کوئی یہودی اور نصرانی میرے متعلق سن لے پھر وہ اس دین پر ایمان لائے بغیر مر جائے تو و شخص جہنمی ہو گا۔ (صحیح مسلم: 153، دار السلام: 386)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی تو ویسے ہی حق کے انکار کی وجہ سے جنت سے محروم اور جہنم کے حقدار ہو چکے ہیں۔ اب اگر وہ شرک سے بچ بھی جائیں تو انکار رسالت کا جرم کوئی معمولی یا قابل معافی جرم نہیں ہے۔
اس اعتبار سے غور کریں تو معلوم ہوگا کہ شرک کے علاوہ دیگر گناہوں کی بخشش کا مژدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے ہے۔ تو واضح ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی شرک کر سکتا ہے، اگر وہ شرک سے بچا رہے تو دیگر کبیرہ یا صغیرہ گناہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے۔
الغرض کہ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بھی شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال و زعم قطعا صحیح نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی مشرک نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید کی آیات ان کے اسی نظریئے کو باطل ثابت کرتی ہیں۔
چھٹی دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ﴾
”ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود مشرک ہی ہیں۔ “ [يوسف: 106]
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہیں جیسا کہ گزشتہ صفحات میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ بھی ہے ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس پر پوری ملکیت اختیار و اقتدار اللہ ہی کے لئے ہے حتی کہ ان کے معبودوں کے اختیارات بھی اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں۔
لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان کی عبادت کرتے ، ان سے دعائیں مانگتے ، فریاد کرتے ، ان کے نام پر قربانیاں دیتے ، نذرانے چڑھاتے ، انھیں اپنا مشکل کشا، حاجت روا سمجھتے اور آج بھی کتنے ہی لوگ ایمان لانے کے باوجود اس ظلم کا شکار ہیں اور ساتھ ہی بعض مولوی انھیں یہ یقین دلائے ہوئے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی مشرک نہیں ہوسکتا ، شرک سے بالکل محفوظ رہتا ہے۔ بس یہ سب کچھ کئے جاؤ لیکن اللہ تعالیٰ واضح فرما چکا ہے کہ اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہیں لہذا ایمان لانے کے بعد
بھی شرک کا صدور ممکن ہے۔
ساتویں دلیل:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ. الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ.﴾
”پس فریقین میں سے کون امن کا زیادہ حقدار ہے (موحد یا مشرک ) اگر تم جانتے ہو؟ جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ نہیں ملایا، ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ “ [الأنعام: 81، 82]
اس آیت مبارکہ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ فریق یا گروہ دنیا و آخرت میں امن کا زیادہ حقدار ہے جو اپنے ایمان میں ظلم کی آمیزش نہ کرے، اس آیت میں ”ظلم“ سے کیا مراد ہے؟ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ﴾ نازل ہوئی تو یہ بات اہلِ اسلام پر بڑی ہی گراں گزری وہ بہت ہی پریشان ہوئے (کہ کون ایسا ہو گا جس نے ایمان لانے کے بعد ظلم نہ کیا ہو تو کیا ہمارے لئے امن نہیں یا ہم ہدایت یافتہ نہیں؟ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کون ایسا ہو گا جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ
«ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه وهو يعظه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم»
اس سے مراد (عام) ظلم نہیں، اس سے مراد تو ”شرک“ ہے۔ کیا تم لوگوں نے یہ نہیں سنا کہ جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہے تھے تو فرمایا: ”اے میرے پیارے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ (صحیح بخاری: 3428)
معلم کتاب و حکمت اولین مفسر قرآن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت کے بعد اس آیت کا مفہوم کچھ اس طرح واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور ایمان لانے کے بعد اپنے ایمان میں شرک کی آمیزش نہیں کی تو وہ لوگ دنیا و آخرت میں امن ونجات کے حقدار ہوں گے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
آیت بالا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایمان لانے کے بعد بھی شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شرک کا خطرہ نہ ہوتا جیسا کہ بہت سے لوگوں کا باطل زعم ہے تو پھر یہ آیت کیا معنی رکھتی ہے؟ الغرض! قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ میں بھی شرک کا خطرہ موجود ہے ۔ وہ بھی شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں جیسا کہ گزشتہ امتیں شرک میں مبتلا ہوئی تھیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام اہل ایمان کو اپنی ذات وصفات میں شرک سے بچائے اور توحید پر ثابت قدم رکھے۔ (آمین)
اس سلسلے میں احادیث بھی بکثرت مروی ہیں لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فریق ثانی کے دلائل کا جائزہ لیا جائے کہ وہ کس بنیاد پر اس عقیدے کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہیں کہ ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی مشرک نہیں ہو سکتا ۔ “
ہماری ناقص معلومات کے مطابق یہ حضرات اس سلسلے میں قرآن مجید کی کوئی آیت پیش نہیں کرتے۔ البتہ احادیث میں سے ایک آدھ حدیث بیان کر کے غلط مفہوم پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ حدیث سے بھی ان کا یہ عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ان کا حدیث پیش کرنا بھی اپنے اصول کے خلاف ہے۔
⋆ عقائد کے متعلق فریق ثانی کا اصول:
ان کی دلیل سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ فریق ثانی کے نزدیک ”عقیدہ“ پر دلیل کس طرح قائم ہوتی ہے۔ ان کے ”مجد دالملت“ احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
”اور اصول میں مبرہن ہو چکا کہ آیات قطعیہ کے خلاف کوئی حدیث احاد بھی مسلم نہیں ہو سکتی اگرچہ سند صحیح ہو تو مخالف قرآن عظیم کے خلاف پر جو دلیل پیش کرے اس پر چار باتوں کا لحاظ لازم: اول وہ آیت قطعی الدلالۃ یا ایسی ہی حدیث متواتر ہو۔ ۔ ۔ “
(ازاحة العیب بسیف الغیب بحوالہ فتاوی رضویہ ج 29 ص 513)
خان صاحب نے ایک اور مقام پر اپنا اصول یوں بیان کیا ہے:
”اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گی ، بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں، ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے ، نہ احادیث احاد اگرچہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کی ہوں عموم قرآن کی تخصیص کر سکیں بلکہ اس کے حضور مضمحل ہو جائیں گی، بلکہ
تخصیص متراخی نسخ ہے ۔ “ (انباء المصطفے ص 26، فتاوی رضویہ 488/29)
مزید لکھتے ہیں: ”کہ عموم آیات قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض غلط ہے۔“ (انباءالمصطفے ص 27، فتاوی رضویہ 489/29)
”احاد“ احد کی جمع اور واحد کے معنی میں ہے۔ خبرِ واحد لغتاً اس حدیث کو کہتے ہیں جسے ایک ہی شخص نے بیان کیا ہو اور اصطلاحا وہ حدیث جو متواتر کی شرائط پوری نہ کرتی ہو۔
متواتر: وہ حدیث جس کے راوی ہر دور میں اس کثرت سے ہوں کہ ان کا جھوٹ یا غلطی پر اتفاق عادتاً محال ہو۔
اب فریق ثانی کے ”مجدد الملت“ کے فرمودات پر غور کریں تو ان کا لب لباب یہ ہوگا کہ قرآن کی آیات مبارکہ کے مقابلے میں خبر واحد پیش کرنا محض غلط ہے اور خبر واحد سے قرآن مجید کی آیات سے ثابت ہونے والی کسی عمومی بات کو خاص نہیں کر سکتے ۔ بلکہ یوں خاص کرنا ناجائز اور قرآن مجید کی آیت کو منسوخ کرنے کے مترادف ہے۔
اب دیکھیں فریق ثانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے شرک سے محفوظ ہونے کے سلسلے میں کیا دلیل پیش کرتے ہیں:
فریق ثانی کی پہلی دلیل:
فریق ثانی اپنے اس عقیدہ کے ثبوت میں قرآن مجید سے تو کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتا البتہ اس کے عوام و خواص اور واعظین و خطباء حضرات عموماً یہ بات کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”شیطان اب اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے گی“ پھر یوں استدلال ہوتا ہے کہ جب شیطان کی عبادت نہیں تو شرک کہاں سے ہوا؟ پس ثابت ہوا کہ اُمت مسلمہ کا کوئی فرد مشرک نہیں ہو سکتا۔ یہی حدیث مستدرک حاکم میں اس طرح سے ہے:
«عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس فى حجة الوداع فقال: قديئس الشيطان بأن يعبد بأرضكم ولكنه رضي أن يطاع فيما سوى ذلك مما تحاقرون من أعمالكم ، فاحذروايا أيها الناس!»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یقیناً شیطان اب اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ تمھاری اس سرزمین پر اس کی عبادت کی جائے، لیکن وہ اس پر مطمئن ہے کہ دیگر باتوں میں اس کی اطاعت کی جائے گی جنھیں تم اپنے اعمال میں معمولی جانتے ہو، پس اے لوگو! بچو ۔ ۔ ۔ الخ (المستدرک للحاکم 93/1 ح 318)
اس حدیث سے استدلال کئی وجہ سے درست نہیں ہے:
اولاً: اس کی سند میں ”اسماعیل بن ابی اویس“ غیر صحیحین میں متکلم فیہ راوی ہے۔
ثانياً: یہ خبر واحد ہے اور عقائد کے سلسلے میں احناف اور خود فریق ثانی (بریلویوں) کے ہاں خبرِ واحد سے استدلال نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ گزشتہ صفحات میں عرض کیا گیا ہے۔
ثالثاً: اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کر لیں تب بھی اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی مشرک نہیں ہوسکتا یا شرک کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ اگر استدلال اس سے ہے کہ ”شیطان اس سے مایوس ہو چکا کہ سرزمین حجاز پر اس کی عبادت ہو“ تو یہ استدلال بھی درست نہیں، کیونکہ شرک صرف یہی نہیں کہ ”شیطان کی عبادت ہو“ اس کے علاوہ بھی شرک کی بہت سی اقسام ہیں جو قرآن وسنت ہی سے واضح ہوتی ہیں تو اس طرح اس روایت سے صرف ایک ہی قسم کی نفی ہوتی ہے نہ کہ تمام اقسام کی۔
رابعاً: اس روایت میں صرف ”سرزمین حجاز“ پر ”شیطان کی عبادت کئے جانے کی نفی ہے“ نہ کہ پورے کرہ ارض پر لہذا پوری امت کا شرک سے محفوظ ہونے کا استدلال اس روایت سے قطعاً درست نہیں ہے۔
خامساً: قرآن مجید کی واضح آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان لانے کے بعد بھی لوگ شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اب اس روایت کے ذریعے سے انکار درست نہیں ہے۔ بقول خان صاحب بریلوی: ”عموم آیات قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض غلط ہے۔ “
فریق ثانی کی دوسری دلیل:
دوسری دلیل ان حضرات کے ہاں عموماً یہ پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ولكن أخاف عليكم أن تنا فسوا فيها» میں تمھارے متعلق اس بات سے خائف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم ایک دوسرے کے مقابلے میں دنیا میں رغبت کرو گے۔ (صحیح بخاری: 1344)
اس حدیث صحیح سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی امتی شرک نہیں کر سکتا، اس حدیث سے نہ تو یہ بات ثابت ہوتی ہے اور نہ فریق ثانی کا اس سے استدلال ہی درست ٹھہرتا ہے۔
اولاً: اس لئے کہ یہ حدیث بھی ”خبر واحد“ ہے اور ان کا یہ اصول ہے کہ ”آیات قطعیہ کے خلاف کوئی حدیث احاد بھی مسلم نہیں ہو سکتی اگرچہ سند صحیح ہو“ اور آیات قطعیہ سے بعض ایمان والوں کا شرک میں مبتلا ہو جانا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ ہم قرآنی دلائل میں قدرے تفصیل سے عرض کر چکے ہیں بالخصوص پہلی ، تیسری، پانچویں اور ساتویں دلیل تو صراحت سے اس بات پر دلالت کرتی ہیں لہذا ان کے اصول کے مطابق ان کا یہ حدیث پیش کرنا یقیناً غلط ہے۔
ثانیاً: اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خطاب ہے اور وہی اس کے مصداق ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«وأن أصحابه لا يشركون بعده فكان كذلك» یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے بعد شرک نہیں کریں گے پس اسی طرح ہوا۔ (فتح الباری 614/6)
یعنی اس حدیث کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے عام امت سے نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہی مخاطب فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس حدیث میں امت کا لفظ نہیں جبکہ دیگر صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ امت کے بہت سے لوگوں کا شرک میں مبتلا ہونا مذکور ہے اور ان احادیث میں ”امت“ کا لفظ بھی موجود ہے جیسا کہ ہم بیان کریں گے۔ (إن شاء الله )
ثالثاً: اگر اس حدیث کو عام امت کے لئے مان لیا جائے تب بھی اس سے مراد امت کا ہر فرد نہیں ہوگا جیسا کہ شارحین حدیث نے لکھا ہے۔
➊ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قوله (ما أخاف عليكم أن تشركوا) أى على مجموعكم لأن ذلك قد وقع من البعض أعاذنا الله تعالى»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان (کہ مجھے تمھارے متعلق شرک کا ڈر نہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ تم مجموعی طور پر شرک نہیں کرو گے، اس لئے کہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد کی جانب سے شرک کا وقوع ہوا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ (فتح الباری 211/3)
➋ علامہ بدرالدین عینی (حنفی) رقمطراز ہیں:
«معناه على مجموعكم لأن ذلك قد وقع من البعض والعياذ بالله تعالى»
اس کا معنی یہ ہے کہ پوری امت کا شرک میں مبتلا ہونے کا خوف نہیں اس لئے کہ بعض لوگوں سے شرک کا صدور ہوا ہے۔ اللہ کی پناہ (عمدۃ القاری 157/8)
➌ ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی لکھتے ہیں:
«أى ما أخاف على جميعكم الإشراك بل على مجموعكم لأن ذلك قد وقع من بعض» (ارشاد الساری 440/2)
تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث: 28 ص 8، 7
فریق ثانی کی تیسری دلیل:
فریق ثانی کی طرف سے اپنے اس عقیدے کے ثبوت میں تیسری دلیل عموماً یہ پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن ما أتخوف عليكم رجل قرأ القرآن حتي رئيت بهجته عليه وكان ردئا للإسلام ، غيره إلى ما شاء الله فانسلخ منه ، ونبذه ورآء ظهره ، و سعي على جاره بالسيف ورماه بالشرك قال قلت: يا نبي الله ! أيهما أولى بالشرك المرمي أو الرامي؟ قال: بل الرامي»
مجھے تم پر اس آدمی کا بڑا خوف ہے جو قرآن پڑھے گا، یہاں تک اس کی تازگی اس کے چہرے پر ظاہر ہوگی اور وہ (بظاہر ) اسلام کی مدد کرنے والا ہوگا۔ جس قدر اللہ چاہے گا اُسے متغیر کر دے گا، پھر وہ دین اسلام سے نکل جائے گا اور دین کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دے گا، اپنے (مسلم ) پڑوسی پر تلوار کے وار کرے گا اور اس پر شرک کی تہمت لگائے گا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) شرک کی تہمت لگانے والا شرک کے قریب ہوگا یا جس پر شرک کی تہمت لگائی جائے گی وہ شرک کے قریب ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ شرک کی تہمت لگانے والا خود شرک کے قریب ہوگا۔
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان: 81، حسنه البزار [البحر الزخار] 221/7 ح 2793 و قال ابن کثیر فی تفسیره [226/3، الاعراف: 175]: ھذ اسناد جيد وحسنہ الہیشمی فی مجمع الزوائدار 1 /187)
یہ روایت سند حسن ہے، اس حدیث سے بھی فریق ثانی اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی مشرک نہیں ہو سکتا۔
عرض ہے! کہ اس حدیث سے بھی ان کا یہ عقیدہ ثابت نہیں ہوتا نہ اس سے یہ استدلال ہی درست ہے:
اولاً: یہ خبر واحد ہے، جو فریق ثانی کے اصول کے مطابق اثبات عقیدہ کے لئے قطعاً نا کافی ہے۔ اپنے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں یہ حدیث پیش بھی نہیں کرنی چاہئے۔
ثانياً: اس حدیث میں مذکورہ آدمی کے بارے میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وہ شرک کی ”تہمت“ بہتان لگائے گا اور ”بہتان“ سے متعلق مسلمان عموماً اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ کسی مسلم پر ایسا عیب لگانا ہے جو اس میں نہ ہو اور یہ اسلام کا عام قانون ہے کہ اگر کوئی کسی مسلم کو کافر کہے گا یا اس پر لعنت کرے گا جب کہ وہ اس کا مستحق نہیں تو لعنت یا فتویٰ کفراسی قائل کی طرف لوٹے گا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا قال الرجل لأخيه: يا كافر فقد باء به أحدهما»
جو شخص اپنے (مسلم ) بھائی کو کہے: اے کافر ! تو یقیناً دونوں میں سے کسی ایک پر کفر کا فتویٰ ضرور لوٹے گا۔ (صحیح البخاری: 6103)
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أيما رجل مسلم أكفر رجلا مسلما ، فإن كان كافرا وإلا كان هو الكافر»
جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ واقعی کافر ہے تو ٹھیک ورنہ وہی (کافر کہنے والا) کافر ہے۔ (سنن ابی داود: 4687 ، وسندہ صحیح)
فریق ثانی کی پیش کردہ حدیث بالا میں بھی ایسے ہی شخص کا ذکر ہے جو اپنے مسلم پڑوسی پر شرک کا بہتان لگائے ، بہتان لگانے والی بات سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقت میں اس کا پڑوسی شرک سے محفوظ اور بری ہوگا ، شرک میں مبتلا نہیں ہوگا، اسی لئے وہ بہتان لگانے والا خود ہی مشرک ہو جائے گا، اس کا یہ غلط فتوی اسی پر لوٹے گا۔
رابعاً: غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ اس حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والا آپ کا امتی بھی شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے اور ”مشرک“ ہو سکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب وہ کسی شرک سے بری مسلم پر شرک کی تہمت لگائے گا ، شرک کا غلط فتویٰ لگائے گا تو اس کی یہ تہمت اور فتویٰ خود اس پر لوٹے گا اور وہ اپنی ہی تہمت اور فتویٰ کا شکار ہو کر ”مشرک“ ہو جائے گا۔
اس لحاظ سے خود فریق ثانی کی پیش کردہ حدیث سے ان کے اس دعویٰ وعقیدہ کا ابطال ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی شرک سے محفوظ ہے، وہ شرک نہیں کر سکتا۔
خامساً: فریقین بلکہ جملہ اہل اسلام کے ہاں یہ قاعدہ مسلمہ ہے: «إن الحديث يفسر بعضه بعضا» کہ حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل علم کسی بھی معاملہ میں کسی ایک ہی حدیث کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کر بیٹھتے بلکہ اس سلسلے کی دیگر احادیث کو بھی سامنے رکھتے ہوئے غور وفکر کے بعد کسی مسئلہ سے متعلق فیصلہ کرتے ہیں ، یہی طریقہ صحیح ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو بڑی عجیب عجیب باتیں سامنے آئیں گی۔
احادیث اور امت میں شرک:
قرآن مجید کے دلائل کے بعد اب ہم آپ کے سامنے احادیث مبارکہ سے اس مسئلہ پر کچھ روشنی ڈالنا چاہیں گے یقیناً ہدایت و نجات کے لئے قرآن مجید کے ساتھ احادیث مبارکہ بھی ایک اہم ذریعہ ہے اور قرآن وسنت پر اپنے ایمان و عمل کی بنیاد رکھنے والا شخص ہی گمراہیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
پہلی حدیث: سید الفقہاء والمحدثین سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا ۔ ۔ ۔ اور سوال کیا: اے اللہ کے رسول ! «ما الإسلام؟» اسلام کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا»
اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائے۔ (صحیح مسلم: 9)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ سوالات کے بعد وہ شخص لوٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس لے آؤ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم دوڑ پڑے کہ اسے لے آئیں لیکن انھوں نے اسے نہ پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«هذا جبريل جاء ليعلم الناس دينهم»
یہ جبریل علیہ السلام تھے لوگوں کو ان کا دین سکھلانے کے لئے تشریف لائے تھے۔ (ایضاً)
اب اس حدیث مبارکہ پر غور کیجئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعریف ہی یہ بیان فرمائی کہ ”تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ۔“ جب کوئی شخص شرک سے بچے گا تب ہی وہ اسلام میں داخل ہوگا۔
دوسری حدیث:
«عن أبى ذر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قال فى دبر صلاة الفجر وهو ثان رجليه قبل أن يتكلم: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد ، يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير، عشر مرات، كتبت له عشر حسنات ، ومحي عنه عشر سئيات ورفع له عشر درجات وكان يومه ذلك كله فى حرز من كل مكروه وحرس من الشيطان ، ولم ينبغ لذنب أن يدركه فى ذلك اليوم إلا الشرك بالله»
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے نماز فجر کے بعد، دو زانو بیٹھے ہوئے بات چیت کرنے سے پہلے دس (10) مرتبه «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيى ويميت وهو على كل شيء قدير» پڑھا تو اس کے لئے (اس کے نامہ اعمال میں ) دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے دس گناہ مٹا دیے جائیں گے اور اس کے دس درجات بلند کئے جائیں گے اور اس دن وہ ہر تکلیف سے محفوظ ہو گا۔ ملخصاً (سنن الترمذی: 3474، وقال: هذ احدیث حسن صحیح ، وھوحسن)
اس حدیث پر غور کیجئے ! رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ وہ دن کے آغاز میں (نماز فجر کے بعد ) دس بار اپنی زبان سے یہ کلمات ادا کرے تو شرک کے علاوہ اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے، حالانکہ وہ اپنی زبان سے یہ کہے گا کہ «لا إله إلا الله وحده لا شريك له» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ”لاشریک لہ“ کا اقرار کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”شرک“ کے علاوہ اسے کوئی گناہ اپنی لپیٹ میں نہیں لے سکتا۔ مطلب یہ کہ «وحده لا شريك له» کہنے کے بعد بھی وہ ”شرک“ کر سکتا ہے اور اگر ایسا ہو تو ”شرک“ کا وبال اس پر ضرور پڑے گا ، اگر توبہ نہ کی تو سزا بھی ملے گی، ہاں اگر اس دن وہ شرک سے بچا رہا تو باقی گناہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اگر چاہے تو اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے۔
اب بتائیے ! نماز فجر کون پڑھتا ہے؟ کیا ہندو، سکھ ، یہودی اور عیسائی بھی نماز فجر پڑھتے ہیں؟ کیا وہ بھی یہ کلمات ادا کرتے ہیں؟ نہیں یقینا نہیں۔
صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت حق قبول کرنے والے امت اجابت میں شامل لوگ ہی نماز فجر ادا کرتے ہیں اور جسے اللہ رب العالمین توفیق بخشے اور وہ یہ حدیث وسنت جانتا ہو وہی یہ کلمات کہتا ہے۔ کیا اب بھی یہ کہنے کی ذرا برابر گنجائش باقی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتا؟ وہ ”شرک“ کے خطرے سے بالکل محفوظ ہے!
تیسری حدیث:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تفتح أبواب الجنة يوم الإثنين ويوم الخميس، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر پیر اور جمعرات کے روز جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو بخش دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہیں ٹھہراتا۔ سوائے اس شخص کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان ناراضی ہو۔ پس یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں مہلت دو یہاں تک کہ یہ دونوں صلح کر لیں ، انھیں مہلت دو یہاں تک کہ یہ دونوں صلح کر لیں انھیں مہلت دو یہاں تک کہ یہ دونوں صلح کر لیں ۔ (صحیح مسلم: 2565، دار السلام: 6544)
اس حدیث مبارکہ میں ہر پیر اور جمعرات کے دن آسمان کے دروازے کھلنے کا جو ذکر ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ سلسلہ قیامت تک کے لئے ہے تو اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر شرک نہ کرنے والے کو بخش دیتا ہے۔
اس بات کو خاص طور پر ذکر کرنا کہ ”جو شرک نہ کرتا ہو“ اس کی بخشش ہوتی ہے۔ ظاہر کرتا ہے کہ اس امت میں بھی شرک ہو سکتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اجابت کے لئے ہی یہ خوشخبری ہے نہ کہ امت دعوت جیسے یہودی، عیسائی ، ہندو، سکھ، بدھ مت وغیرہم کے لئے اس کی قدرے وضاحت ہم پانچویں قرآنی دلیل کے تحت عرض کر چکے ہیں۔
اس حدیث پر وہ بھائی بھی ذرا غور کر لیں !جو اپنے صحیح العقیدہ دینی بھائیوں سے ناراضی مول لیتے ہیں اور پھر یہ ناراضی ، بغض، کینہ وحسد کی شکل اختیار کر لیتی ہے مگر وہ ”صلح“ کرنے سے متعلق سوچتے تک نہیں۔ ذرا سوچیں کہ وہ ہر سات دنوں میں سے دو دن کتنی بڑی رحمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح ماہ و سال کا شمار کر لیں کہ کتنے ہی عمدہ مواقع وہ گنوا بیٹھتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے اور ہر مسلم کے ساتھ اخلاص و محبت اور نصیحت و خیر خواہی کے جذبات عطا فرمائے۔ (آمین )
چوتھی حدیث:
«عن أنس رضى الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله تبارك وتعالى … يا ابن آدم ! إنك لو أتيتني بقراب الأرض خطايا ثم لقيتنى لا تشرك بي شيئا لأ تيتك بقرابها مغفرة»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ۔ ۔ ”اے ابن آدم ! اگر تو روئے زمین کے برابر بھی گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس طرح ملاقات کرے کہ تو میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں روئے زمین کے برابر ہی تجھے مغفرت عطا کر دوں گا۔ “
(سنن الترمذی 3540 وقال: حسن غریب وسنده حسن)
اگرچہ ”ابن آدم“ کے الفاظ عام ہیں اس میں ہر انسان شامل ہے لیکن قرآن وسنت کے دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آنے والے آپ کے امتی ہی اس حدیث قدسی کے مخاطب ہو سکتے ہیں، یہ خوشخبری انھی کے لئے مخصوص ہے۔
چونکہ اگر کوئی شخص صرف ”شرک“ سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے ، شرک سے بچتا رہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان نہ لائے اور ایمانیات کی دیگر شرائط کو وہ پورا نہ کرے تو وہ مغفرت و جنت کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ یہ بات قرآن وسنت سے ثابت ہوتی ہے اور تمام اہلِ اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔
دیگر مذاہب کے لوگ تو ویسے ہی جنت سے محروم ہیں اس صورت میں حدیث بالا کے مخاطبین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہی ہیں۔ اگر وہ شرک سے محفوظ رہیں تو اللہ کی رحمت سے ان کے گناہوں کی بخشش ممکن ہے۔
پانچویں حدیث:
«عن عبد الله (بن مسعود) رضى الله عنه قال: لما أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم انتهي به إلى سدرة المنتهى….. فأعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا ، أعطي الصلوات الخمس وأعطي خواتيم سورة البقرة وغفر لمن لم يشرك بالله من أمته شيئا- المقحمات»
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تین چیزیں عطاء کی گئی تھیں، آپ کو پانچ نمازیں عطاء کی گئیں اور سورۃ بقرہ کی آخری آیات اور امت میں سے ہر اس شخص کی بخشش عطاء کی گئی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔ (صحیح مسلم: 173، دارالسلام: 431)
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزہ معراج کا ذکر ہے اور یہ بیان کیا گیا کہ اس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے ان میں سے تیسری چیز جو بیان ہوئی ہے وہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر امتی کے لئے یہ عظیم خوشخبری کہ اگر وہ ”شرک“ سے اپنے ایمان کو بچائے رکھیں اور کبیرہ گناہوں سے بھی بچتے رہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے گا انھیں بخش دے گا۔
اب جس طرح ایک مومن کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے اسی طرح شرک سے بھی اپنے ایمان کو آلودہ کر سکتا ہے اگر امت کے اندر شرک کا خطرہ نہ ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا زعم ہے تو پھر بخشش و مغفرت کے لئے شرک سے محفوظ رہنے کی شرط کیوں رکھی گئی ہے؟
ظاہر سی بات ہے کہ امت میں اس کا خطرہ موجود ہے اسی لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کو خبر دار کرنے کے لئے جگہ جگہ اس بات کو بیان کیا، اس سے بچتے رہنے کا خاص طور پر ذکر کیا۔ علامہ نووی اس حدیث کی تیسری بات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: «ومعنى الكلام من مات من هذه الأمة غير مشرك بالله غفر له» اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں سے جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کر نے والا نہ ہو تو اس کی بخشش ہوگی۔ (شرح النوی ص 211 مطبوعہ بیت الافكار الدولیہ)
الغرض ! اس حدیث سے بھی روز روشن کی طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس امت میں شرک کا خطرہ موجود ہے اور یہ امت بھی شرک میں مبتلا ہوسکتی ہے اور بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہوئے بھی ہیں۔
چھٹی حدیث:
«عن أبى واقد الليثي: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما خرج إلى حنين مر بشجرة للمشركين يقال لها: ذات أنواط يعلقون عليها أسلحتهم فقالوا: يا رسول الله ! اجعل لنا ذات أنواط كما لهم ذات أنواط فقال النبى صلى الله عليه وسلم: سبحان الله هذا كما قال قوم موسى ﴿اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ ، والذي نفسي بيده لتركبن سنة من كان قبلكم»
سیدنا ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حنین کی طرف نکلے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جسے ذات انواط کہا جاتا تھا مشرکین (برکت یا حصول قوت کے لئے ) اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے۔ تو کچھ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جس طرح سے ان مشرکین کا ذاتِ انواط ہے اس طرح کا ایک ذاتِ انواط ہمارے لئے بھی بنا دیجئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا: سبحان اللہ ! یہ تو اسی طرح کی بات ہے جیسے موسی علیہ اسلام کی قوم نے کہا تھا کہ (اے موسیٰ علیہ السلام ) ہمارے لئے بھی ایک ایسا الہ بنا دیجئے جیسا کہ ان کے آلھہ ہیں۔ [الاعراف: 138] قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم لوگ ضرور بالضرور اپنے سے پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے۔
(سنن الترمذی: 2180، وقال: ھذا حدیث حسن صحیح و هو صحیح)
اور صحیحین میں حدیث ہے کہ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لتتبعن سنن من كان قبلكم شبرابشبر ، وذراعا بذراع ، حتى لو سلكوا جحر ضب لسلكتموه )) قلنا: يا رسول الله ! اليهود والنصارى؟ قال النبى صلى الله عليه وسلم: فمن»
تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلی امتوں کی پیروی کرو گے، جس طرح کہ ایک بالشت دوسرے بالشت اور ایک ذراع دوسرے ذراع (کے بالکل برابر ہوتی ہے ) اسی طرح تم ان کی پیروی کرو گے حتی کہ اگر اس میں سے کسی نے سانڈے کے بل میں داخل ہونے کی کوشش کی ہو گی تو تم بھی ایسی ہی کوشش کرو گے ۔ (صحابہ رضی اللہ عنہم نے) عرض کیا یہود و نصاری کی پیروی کریں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کس کی؟ (صحیح بخاری: 3456)
اب ان حدیثوں پر غور کیجئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر تاکیدی اسلوب میں حلفیہ بیان دیتے ہوئے یہ بات ارشاد فرمائی ہے آپ غور کریں گے تو واضح ہوگا کہ دیگر پیشین گوئیوں کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی ہو بہو پوری ہو رہی ہے۔
قرآن مجید بتلاتا ہے کہ یہود و نصاری نے اپنے علماء اور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ [توبه: 31]
اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو علماء و درویشوں کو رب بنائے بیٹھے ہیں۔ اسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارضِ حبشہ کے ایک کنیسہ کا تذکرہ فرمایا اور جو کچھ وہاں انھوں نے تصاویر دیکھیں، ان کا ذکر فرمایا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أولئك قوم إذا مات فيهم العبد الصالح – أو الرجل الصالح – بنوا على قبره مسجدا و صوروا فيه تلك الصور أولئك شرار الخلق عند الله»
یہ (یہود و نصاری) ایسی قوم ہے کہ جب ان میں سے کوئی نیک شخص فوت ہو جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد (عبادت گاہ) بنا لیتے اور اس میں اس قسم کی تصاویر بنا لیتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔ (صحیح بخاری: 434)
آج اس اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی حالت زار پر غور کریں تو کوئی کافر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشین گوئی کی صداقت وحقانیت سے انکار نہیں کر پائے گا !!
آج کتنے ہی لوگوں کی قبریں ہیں کہ جن پر مسجدیں بنی ہوئی ہیں اور کتنی ہی قبریں ہیں جو عبادت گاہوں کا درجہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ جن پر لوگ دست بستہ انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے، کوئی سجدہ ریز ہیں تو کوئی طواف میں مگن ہیں، کوئی نذرانے پیش کر رہے ہیں تو کوئی جانور ذبح کر رہیں، کوئی ہاتھ اُٹھائے فریاد ودعا میں مشغول ہیں تو کوئی جھولی پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں۔ الغرض! عبادت کے کتنے ہی مظاہر آپ کو ان قبروں پر نظر آئیں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو جاننے والا کوئی شخص یہ تسلیم کئے بغیر نہ رہے گا کہ اس امت کے بہت سے لوگ ہو بہو یہود و نصاریٰ کے طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جس طرح کہ وہ لوگ صالحین کی محبت میں غلو کا شکار ہو کر شرک جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اسی طرح اس امت کے بھی بہت سے لوگ شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ساتویں حدیث:
«عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى تعبد قبائل من أمتي الأوثان»
”سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ میری امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ مل نہ جائیں اور جب تک کہ میری امت کے قبائل اوثان کی عبادت نہ کرنے لگ جائیں۔“ (سنن ابی داود: 4252 وسندہ صحیح)
اوثان: وثن کی جمع ہے ، وثن سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے خواہ وہ مورتی ہو یا پتھر ، درخت و جھنڈا ہو یا قبر یا پھر کوئی اور چیز ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اللهم لا تجعل قبري وثنا ، لعن الله قوما اتخذوا (أوجعلوا) قبور أنبيائهم مساجد»
”اے اللہ ! میری قبر کو وثن نہ بنانا (کہ جس کی عبادت کی جائے) اللہ ایسی قوم پر لعنت فرمائے جس نے اپنے انبیاء (علیہم السلام) کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیا۔“ (مسند حمیدی: 1031 ونسخه اخری: 1025، وسنده حسن )
غور کیجئے ! آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کس طرح عوام میں معروف نیک لوگوں کی قبروں اور مزاروں پر منڈلاتی نظر آتی ہے اور کتنے ہی درخت ہیں آستانے ہیں چلہ گاہیں ہیں جنھیں مقدس سمجھ کر وہاں قربانیاں چڑھائی جاتی ہیں کتنی ہی قبروں کے سامنے سجدے ہو رہے ہیں، طواف ہو رہے ہیں اور کتنے ہی پتھر ہیں جنھیں نفع نقصان کے لئے کارآمد سمجھا جاتا ہے یہ سب کچھ اوثن کی عبادت کے مظاہر ہیں۔
غرض یہ کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی امت کے بہت سے قبیلے مشرکوں کے ساتھ مل جائیں گے اور ”اوثان“ کی عبادت کرنے لگیں گے اور اوثان کی عبادت کا ”شرک“ ہونا یقینی ہے۔
جب یہ چیز امت میں واقع ہوگی تو ”شرک“ میں مبتلا ہونا بھی یقینی ٹھہرا، اب جو لوگ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ”یہ امت شرک میں مبتلا نہیں ہو گی“ یا ”اس امت میں شرک کا خطرہ نہیں“ وہ گویا انجانے میں یا جانتے بوجھتے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ (معاذ اللہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی درست نہیں۔ (نعوذ باللہ )
کم از کم کوئی ایمان والا شخص تو اس طرح کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا تو یہ پختہ ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر فرمان من جانب اللہ اور حق و سچ ہے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین میں اپنی طرف سے کلام نہیں فرماتے تھے بلکہ اللہ کی ”وحی“ بیان فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿مَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ.﴾ [النجم: 3، 4]
آٹھویں حدیث:
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں باہر نکلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی کہیں تشریف لے جا رہے ہیں آپ کے ساتھ کوئی اور آدمی نہیں، میں سمجھا کہ شاید کسی کا ساتھ چلنا آپ کو پسند نہیں۔ تو میں چاندنی میں پیچھے پیچھے چلنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مڑے تو مجھے دیکھا تو فرمایا: یہ کون ہے؟ تو میں نے کہا: ابوذر ہوں اللہ مجھے آپ پر فدا کر دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! آؤ کچھ دیر تک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار لوگ قیامت کے دن مفلس ہوں گے مگر وہ شخص جسے اللہ نے مال عطا فرمایا اس نے اپنے دائیں بائیں آگے پیچھے اسے خرچ کیا اور نیک کاموں پر اسے لگایا“ (تو وہ شخص نیکی کے اعتبار سے مفلس نہیں ہوگا) ۔
پھر میں آپ کے ساتھ تھوڑی دیر چلا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: یہاں بیٹھ جاؤ مجھے ایک ایسے میدان میں بٹھا دیا جس کے چاروں اطراف پتھر تھے اور فرمایا کہ جب تک میں نہ لوٹوں یہیں بیٹھے رہنا پس آپ پتھریلی زمین کی طرف تشریف لے گئے حتی کہ آپ میری نظروں سے پوشیدہ ہو گئے آپ نے وہاں کافی دیر لگا دی ، پھر میں نے دیکھا کہ آپ واپس تشریف لا رہے ہیں اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اگرچہ چوری کی ہو، اگرچہ زنا کیا ہو“ ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں صبر نہ کر سکا اور عرض کی: اے اللہ کے نبی! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کر دے، اس پتھریلی زمین پر آپ کس سے کلام فرما رہے تھے؟ میں نے تو کسی کو آپ سے بات کرتے ہوئے نہیں سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ذلك جبريل عرض لي فى جانب الحرة قال: بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة إلخ»
”یہ جبریل علیہ السلام تھے میرے پاس اس پتھریلی زمین پر آئے تھے انھوں نے کہا کہ آپ اپنی امت کو یہ خوشخبری دے دیجئے کہ جو شخص مر گیا اور وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا تھا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (صحیح بخاری: 6443)
کتاب الجنائز کی ابتدا میں رئیس المحد ثین امام ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ یہ حدیث اس طرح لائے ہیں کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أتاني آت من ربي ، فأخبرني أو قال: بشرني- أنه من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة إلخ»
”میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، پس اس نے مجھے خبر دی یا فرمایا: خوشخبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی (اس حال میں ) مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (پہلی حدیث سے واضح ہے کہ یہ آنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے ۔ ) (صحیح بخاری: 1237)
اب اس حدیث پر بھی غور کریں! اس میں بھی اس بات کو بیان فرمایا گیا کہ نبی علیہ السلام کی امت میں سے بھی وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے جن کی موت اس حال میں واقع ہوئی ہو کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ہوں ، شرک سے بچنے والے ہوں۔ اگر بعض لوگوں کے زعم کے مطابق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ”شرک“ کے خطرے سے محفوظ ہوتی تو یہ خوشخبری دینا کیا معنی رکھتی کہ ”آپ کی امت میں سے وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے جو شرک نہ کرتے ہوں؟“
یہ خوشخبری اسی صورت میں کچھ معنی رکھتی ہے کہ جب اس امت میں شرک جیسے مہلک جرم کا خطرہ موجود ہو تو خوشخبری انھیں دی گئی کہ تم میں سے جو کوئی اس جرم سے محفوظ رہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
نویں حدیث:
«عن ابن عباس رضى الله عنه … فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا، لا يشركون بالله شيئا إلا شفعهم الله فيه»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی مسلم شخص فوت ہو جائے اور اس کی نماز جنازہ میں چالیس (40) ایسے لوگ شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس فوت شدہ کے حق میں ان لوگوں کی سفارش کو قبول فرماتا ہے۔
(صحیح مسلم: 948)
اس حدیث میں میت پر چالیس ایسے لوگوں کی جو شرک نہ کرتے ہوں نماز جنازہ پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی کہ اللہ سبحانہ و تعالی میت کے حق میں ان کی سفارش یعنی دعائے مغفرت کو قبول فرماتا ہے۔
یہ تو معلوم و معروف بات ہے کہ نماز جنازہ صرف مسلم ہی پڑھتے ہیں سکھ ، ہندو، مجوسی ، بدھ مت، یہودی، نصرانی وغیرہم کے ہاں اس کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اس کے باوجود یہ فرمانا کہ وہ جنازہ پڑھنے والے ”شرک نہ کرتے ہوں“ «لا يشركون بالله» سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز جنازہ ادا کرنے والے بھی شرک کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں یہ فضیلت حاصل نہیں ہوگی اور نماز جنازہ تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہی پڑھتے ہیں تو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ بھی شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ (اعاذنا اللہ منہ )
دسویں حدیث:
«عن أبى هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لكل نبي دعوة مستجابة فتعجل كل نبي دعوته وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي يوم القيامة فهي نائلة إن شاء الله من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر نبی (علیہ السلام) کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے ۔ پس تمام انبیاء علیہم السلام نے اس مخصوص دعا مانگنے میں عجلت فرمائی لیکن میں نے اپنی وہ (خاص ) دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے پس میری شفاعت میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔ ان شاء اللہ تعالی (صحیح مسلم: 199 دار السلام 491)
اس حدیث شریف میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے ساتھ بے پناہ شفقت و محبت کا ذکر ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے گناہگار مگر شرک سے بیزار اور پاک موحدین یعنی عقیدہ توحید کے حامل افراد کی شفاعت فرمائیں گے جیسا کہ علامہ نووی کے قائم کردہ باب سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے نیز اس کی شرح میں آپ نے لکھا:
«أما قوله صلى الله عليه وسلم ، فهي نائلة إن شاء الله تعالى من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا ففيه دلالة لمذهب أهل الحق أن كل من مات غير مشرك بالله تعالى لم يخلد فى النار»
باقی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان شاء اللہ یہ شفاعت میری امت میں سے ہر شخص کے لئے ہوگی جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ کچھ شرک نہ کرتا ہو پس اس میں اہل حق کے نظریے کی دلیل ہے کہ ہر وہ شخص جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کر نے والا نہیں تھا تو وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ (شرح النودی تحت رقم الحدیث: 199)
اس سے بھی یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شرک کرنے والے ہوں گے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت و خصوصی دعاء مغفرت سے بھی محروم ہو جائیں گے، یہ شفاعت تو ان خوش نصیب وسعادت مند لوگوں کے لئے ہوگی جنھوں نے اپنے دامن کو ہر قسم کے شرک کی نجاست سے محفوظ و پاکیزہ رکھا۔
گیارہویں حدیث:
سید المحدثین والفقہاء سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«حتى إذا فرغ الله من القضاء بين العباد ، وأراد أن يخرج برحمته من أراد من أهل النار ، أمر الملائكة أن يخرجوا من النار من كان لا يشرك بالله شيئا . ممن أراد الله تعالى أن يرحمه ـ ممن يقول: لا إله إلا الله ، فيعرفونهم فى النار، يعرفونهم بأثر السجود . تأكل النار من ابن آدم إلا أثر السجود – حرم الله على النار أن تأكل أثر السجود ، فيخرجون من النار [و] قد امتحشوا، فيصب عليهم ماء الحياة ، فينبتون منه كما تنبت الحبة من حميل السيل»
یہاں تک کہ (قیامت کے دن ) جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما چکے گا تو اپنی رحمت سے جس کسی کو جہنم سے نکالنا چاہے گا (ان کے متعلق ) فرشتوں کو حکم دے گا کہ ان لوگوں کو جہنم سے نکال دیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو (یہ وہ لوگ ہوں گے ) جن پر اللہ رحم فرمانا چاہے گا جو «لا إله إلا الله» کہنے والوں میں سے ہوں گے ، فرشتے تو جہنم میں انھیں پہچان لیں گے، ان کے سجدوں کے نشانات کی وجہ سے جہنم کی آگ ابن آدم کے جسم سے ہر چیز کو کھا جاتی ہے سوائے سجدوں کے نشانات کے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آگ پر سجدوں کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے تو وہ جہنم سے نکالیں جائیں گے جب کہ وہ جل چکے ہوں گے تو ان پر آب حیات ڈالا جائے گا ۔ ۔ ۔ الخ (صحیح مسلم: 182، دار السلام: 451)
بلاشبہ یہ بات درست ہے لیکن (قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ کی روشنی میں ) اس لازمی شرط کے ساتھ کہ وہ ”شرک“ سے بچنے والا ہو شرک نہ کرتا ہو، جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔
اگر کلمہ پڑھنے والے شرک سے محفوظ ہو جاتے شرک پروف بن جاتے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو اللہ رب العالمین کے اس فرمان کا کیا مقصد رہ جاتا ہے کہ جو لوگ شرک نہیں کرتے «لا إله إلا الله» کہنے والوں میں سے ہیں انھیں جہنم سے نکال دو، جیسے کہ حدیث بالا میں ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو اللہ عزوجل کی بات کا غیر ضروری ہونا لازم آتا ہے، جس کا ایمان والے تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اعاذنا اللہ منہ
قرآن مجید کی آیات اور یہ احادیث جو آپ کے سامنے ہیں، ان سے واضح ہوتا ہے کہ اس امت کے لوگ بھی شرک میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور بہت سے لوگ ہوئے بھی ہیں یہ کوئی ناممکن بات نہیں بلکہ عین ممکن ہے۔
ان آیات واحادیث کی روشنی میں ان لوگوں کی بات واضح طور پر باطل ثابت ہو جاتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ”امتی“ مشرک نہیں ہوسکتا شرک نہیں کر سکتا وہ شرک سے محفوظ ہے۔ یہ دعوئی ، سوچ ، فکر ، نظریہ، عقیدہ، خیال، مذہب اور مسلک یقیناً قرآن وحدیث کے خلاف اور متضاد سوچ کا حامل ہے اعاذنا اللہ منہ