امام اور مقتدی کے بلند آواز سے آمین کہنے کے متعلق 5 صحیح احادیث مع تخریج
یہ اقتباس محمد مُظفر الشیرازی (مدیر جامعہ امام بخاری، سیالکوٹ) کی کتاب نماز میں اُونچی آواز سے آمین کہنا سے ماخوذ ہے جس کے مترجم حافظ عبدالرزاق اظہر ہیں۔

پہلی حدیث

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے (1) عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا وہ کہتے ہیں مجھے (2) مالک نے خبر دی، وہ (3) امام ابن شہاب سے بیان کرتے ہیں اور وہ (4) سعید بن مسیب اور (5) ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بیان کرتے ہیں، ان دونوں نے ان کو (6) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ:
أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أمن الإمام فآمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
وقال ابن شهاب: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: آمين
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہا کرو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی اس کے پہلے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔
اور امام ابن شہاب رحمہ اللہ نے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہا کرتے تھے۔“

راویان حدیث کا مختصر تعارف:

(1) عبداللہ بن یوسف تنیسی ان کا نام اور ابو محمد الکلائی المصری ان کی کنیت اور نسبت ہے۔ اصل میں یہ دمشق کے رہنے والے تھے اور تیسویں طبقے میں دین حنیف کی خدمت سر انجام دیتے رہے۔ ثقہ ہیں، متقن ہیں اور مؤطا کے تمام راویوں میں سے اثبت ہیں اور دسویں طبقے کے کبار لوگوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 230 ترجمہ نمبر: 3721
(2) مالک بن انس بن ابی عامر بن عمر الاصبحی ان کا نام ہے اور ابو عبد اللہ ان کی کنیت ہے۔ المدنی، الفقیہ، امام دار الحجرت، رأس الحقین اور کبیر المثبتین کے عظیم اوصاف سے متصف تھے اور ساتویں طبقے کے راوی ہیں، صاحب مذہب ہیں اور 179 ہجری میں فوت ہوئے ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 216، ترجمہ نمبر: 6425
(3) محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب ان کا نام، القرشی، الزہری ان کی نسبت اور ابو بکر ان کی کنیت ہے۔ اپنے زمانے کے بہت بڑے فقیہ اور حافظ حدیث تھے اور ان کی جلالت واتقان کا بہت چرچا تھا اور چوتھے طبقے کے مؤسس راویوں میں سے ان کا شمار ہوتا ہے۔
ان کی وفات کے بارے میں دو قول ہیں:
① 125 ہجری میں فوت ہوئے۔
② اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے ایک سال یا دو سال پہلے فوت ہوئے۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 506، ترجمہ نمبر: 6296
(4) سعید بن مسیب بن حزن بن ابی وہب بن عمرو ان کا نام و نسب ہے، القرشی، المخزومی ان کی نسبت ہے۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے فقہا اور ثبات علما میں سے ایک تھے۔ دوسرے طبقے کے کبار راویوں میں ان کا شمار ہے اور ان کے بارے میں امام علی بن مدینی نے فرمایا: لا أعلم فى التابعين أوسع علما منه کہ تابعین میں سے کوئی شخص سعید بن مسیب سے بڑھ کر وسیع علم والا میں نہیں جانتا۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 241، ترجمہ نمبر: 2396
سن 90 ہجری کے بعد فوت ہوئے ہیں۔
(5) ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، الزہری، المدنی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کا نام عبد اللہ تھا، بعض کا کہنا ہے کہ ان کا نام اسماعیل تھا۔ ثقہ راوی ہیں، تیسرے طبقے کے مکرم راوی ہیں۔ 94 ہجری میں فوت ہوئے ہیں یا 104 ہجری میں اور 20 ہجری سے اوپر ہی ان کی ولادت کی تاریخ ہے۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 645 ترجمہ نمبر: 8142
(6) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ الدوسی، جلیل القدر صحابی رسول ہیں، 5374 احادیث نبویہ کے حافظ تھے۔ ان کے اور ان کے والد گرامی کے نام میں اختلاف کیا گیا ہے، اس میں مؤرخین کے مختلف اقوال ہیں:
① عبد الرحمن بن صخر ② ابن غنم ③ عبد اللہ بن عائد ④ ابن عمرو⑤ ابن عامر ⑥ عمرو بن عامر۔
کثیر تعداد میں لوگوں نے پہلے نام کو راجح قرار دیا ہے اور علم الانساب کے ماہر علما کی ایک جماعت کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عمرو بن عامر تھا۔
ان کی وفات کے متعلق دو قول ہیں:
① 58 ہجری ② 59 ہجری اور وفات کے وقت ان کی کل عمر 78 برس تھی۔

پہلی حدیث کی تخریج:

صحیح بخاری، کتاب الاذان باب جہر الامام بالتأمین (جلد 2/626) حدیث نمبر (780) ، صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب التسمیع والتحمید والتأمین (جلد 4/128-129) ، سنن ابی داود، کتاب الصلاة، باب التأمین وراء الامام (جلد 1/576) حدیث نمبر (936) ، سنن الترمذی، ابواب الصلاة، باب ما جاء فی فضل التأمین (جلد 2/30) حدیث نمبر (250) ، سنن النسائی، کتاب الافتتاح باب جہر الامام بأمین (جلد 2/110-111) ، سنن ابن ماجہ، کتاب اقامة الصلاة والسنة فیہا، باب الجہر بآمین (جلد 1/277) حدیث نمبر (859) ، سنن الدارمی، کتاب الصلاة، باب فی فضل التأمین (جلد 1/314) ، رقم الحدیث (1246)، مسند احمد (جلد 2/233)، سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاة، باب التأمین (جلد 2/55)، شرح السنہ للبغوی، کتاب الصلاة، باب فی فضل التأمین (جلد 3/60)
مندرجہ بالا حدیث کے راویوں میں سے ہر شخص اپنی سند کے ساتھ امام ابن شہاب سے بیان کرتا ہے اور وہ سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بیان کرتے ہیں ان دونوں نے اس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی:
أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا أمن الإمام فآمنوا فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
”بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہا کرو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو گئی اس کے پہلے سارے گناہوں کو معاف کر دیا گیا۔“
اس حدیث کی تخریج بھی درج ذیل ہے:
صحیح بخاری، کتاب التفسیر باب غير المغضوب عليهم ولا الضالين، صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب التسمیع والتحمید والتأمین (جلد 4/129) ، سنن ابی داود، کتاب الصلاة، باب التأمین وراء الامام (جلد 1/575) حدیث نمبر (935) ، سنن النسائی، کتاب الصلاة، باب الامر بالتأمین خلف الامام (جلد 2/111) ، مسند احمد (جلد 2/440) ، سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاة، باب التأمین (جلد 2/55) ، مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلاة، باب ما ذکر وافی آمین ومن کان یقولہا (جلد 2/425)
یہ سارے راوی اپنی سندوں کے ساتھ ابو صالح سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قال الإمام غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقولوا آمين
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو۔“
صحیح بخاری، کتاب الدعوات باب التأمین (جلد 11/200) حدیث نمبر (6402) ، سنن النسائی، کتاب الصلاة، باب جہر الامام بأمین (جلد 2/110-111) ، سنن ابن ماجہ، کتاب اقامة الصلاة والسنة فیہا، باب الجہر بآمین (جلد 1/277) حدیث نمبر (851) ، مسند احمد (جلد 2/270-276) ، ابن حبان، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة وذکر البیان بأن قول المرء فی صلاتہ آمین غفر لہ ما تقدم من ذنبہ إذا وافق ذلک تأمین الملائکة ، سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاة، باب التأمین (جلد 2/55) ، مصنف عبد الرزاق، ابواب القراءة، باب آمین (جلد 2/97-98) حدیث نمبر (2645-2646) ، شرح السنہ للبغوی، کتاب الصلاة، باب فضل التأمین (جلد 3/60-62) ، ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوٰة، باب ما ذکر وافی آمین ومن کان یقولہا (جلد 2/425)
مندرجہ بالا سارے راوی اپنی اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں:
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہے تو تم آمین کہو۔“

پہلی حدیث کا حکم:

پہلی حدیث جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے مروی ہے اس کی صحت پر اتفاق ہے جیسا کہ یہ بات امام بخاری و مسلم کے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کرنے سے واضح ہو رہی ہے۔

دوسری حدیث

امام ترمذی فرماتے ہیں: ہمیں (1) بندار محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم کو (2) یحییٰ بن سعید اور (3) عبد الرحمن بن مہدی نے بیان کیا، وہ دونوں کہتے ہیں ہم کو (4) سفیان نے بیان کیا، وہ (5) سلمہ بن کہیل سے بیان کرتے ہیں، وہ (6) حجر بن عنبس سے، وہ (7) حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
سمعت النبى صلى الله عليه وسلم قرأ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال: آمين ومد بها صوته
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا۔“

مندرجہ بالا حدیث کے راویوں کا مختصر تعارف:

(1) محمد بن بشار بن عثمان ان کا نام، عبدی، بصری ان کی نسبت اور ابو بکر بندار ان کی کنیت و لقب ہے۔ ثقہ راوی ہیں، دسویں طبقے سے ان کا تعلق اور 80 سال سے زائد عمر پائی ہے۔ بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 469، ترجمہ نمبر: 5754
(2) یحییٰ بن سعید بن فروخ ان کا نام، استیمی ان کی نسبت اور ابو سعید القطان ان کی کنیت و لقب ہے۔ ثقہ، متقن، حافظ، امام، قدوۃ کے القاب سے ملقب ہیں، نویں طبقے سے ان کا تعلق ہے، 89 سال عمر پائی، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 591، ترجمہ نمبر: 7557
(3) عبد الرحمن بن مہدی ان کا نام، العنبری البصری ان کی نسبت اور ابو سعید ان کی کنیت ہے۔ ثقہ، ثبت، حافظ، عارف بالرجال والحدیث کے اوصاف حمیدہ سے متصف، نویں طبقے کے راوی ہیں، انہوں نے کل عمر 73 سال پائی ہے، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 351، ترجمہ نمبر: 4018
(4) سفیان بن سعید بن مسروق ان کا اسم گرامی، الثوری، الکوفی ان کی نسبت اور ابو عبد اللہ ان کی کنیت ہے۔ ثقہ، حافظ، فقیہ، عابد، امام، حجۃ کے عظیم القاب سے نوازے گئے ہیں اور ساتویں طبقے کے بڑے بڑے رواۃ میں ان کا شمار ہے اور کبھی کبھی یہ تدلیس بھی کرتے ہیں، ان کی کل عمر 64 سال تھی، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 244، ترجمہ نمبر: 2445
(5) سلمہ بن کہیل ان کا نام، الحضرمی، کوفی ان کی نسبت اور ابو یحییٰ کنیت ہے، ثقہ ہیں اور چوتھے طبقے کے راویوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 248، ترجمہ نمبر: 2508
(6) حجر بن عنبس ان کا نام، الحضرمی، الکوفی ان کی نسبت، بعض نے کہا کہ ان کی کنیت ابو العنبس ہے، بعض نے کہا ابو اسکن ہے۔ مخضرم دوسرے طبقے میں ان کا شمار ہے۔ ان کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے مختلف اقوال درج ذیل ہیں:
1- متشدد آئمہ میں سے امام ابن معین فرماتے ہیں: شیخ کوفی، ثقہ مشہور۔
2- مقابلوں میں سے امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔
3- بعض دوسرے ائمہ کی آراء:
خطیب بغدادی کہتے ہیں: ثقہ ہیں اور انہوں نے جہراً آمین کے بارے میں ان سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے اور امام دار قطنی اور ان کے علاوہ کچھ اور لوگوں نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور متأخرین ائمہ میں سے حافظ ابن حجر نے فرمایا: صدوق ہیں اور مخضرم ہیں۔ اور حافظ ذہبی نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب ائمہ محدثین کے اقوال سے جو بات ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ حجر بن عنبس ثقہ راوی ہیں، کیونکہ امام ابن معین نے ان کی توثیق بیان کی ہے حالانکہ وہ متشددین میں شمار کیے جاتے ہیں اور امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے اگرچہ وہ توثیق کے معاملے میں مساہل ہیں، لیکن انہوں نے حجر بن عنبس کی توثیق کرنے میں کسی شخص کی مخالفت نہیں کی اور اسی طرح خطیب بغدادی نے بھی ان کی توثیق بیان کی ہے جو کہ توثیق میں ابن معین کے موافق ہیں اور امام ذہبی نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا ہے اور ان کے بارے میں حافظ ابن حجر کا "صدوق” کہنا ان مذکورہ ائمہ کے اقوال کےمخالف اعتبار کیا جائے گا۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: جلد 154، ترجمہ نمبر: 1144 ، تاریخ بغداد، جلد 8/274، ترجمہ نمبر: 4374
(7) حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ بن وائل بن یعمر ان کا اسم گرامی ہے اور حضرمی ان کی نسبت ہے، بڑے جلیل القدر صحابی رسول ہیں، یمن کے بادشاہوں سے تھے، کوفہ میں سکونت پذیر رہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور اقتدار میں فوت ہوئے۔
الإصابة فی تمییز الصحابہ لابن حجر، جلد 3/628، ترجمہ نمبر: 9100

حدیث کی تخریج :

سنن ابی داود، کتاب الصلاة، باب التأمین وراء الامام (جلد 1/574) حدیث نمبر: 932 ، سنن الترمذی، ابواب الصلاة، باب ما جاء فی التأمین (جلد 2/27) حدیث نمبر: 248 ، سنن الدارمی، کتاب الصلاة، باب الجہر بالتأمین (جلد 1/315) حدیث نمبر: 1247 ، سنن الدار قطنی، کتاب الصلاة، باب التأمین فی الصلاة بعد فاتحة الکتاب والجہر بہا (جلد 1/333) ، مسند احمد (جلد 4/316) ، سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاة، باب جہر الإمام بالتأمین (جلد 2/57) ، شرح السنہ للبغوی، کتاب الصلاة، باب الجہر بالتأمین فی صلاة الجہر (جلد 3/58) ، ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوٰة، باب ما ذکر وافی آمین ومن کان یقولہا (جلد 2/425) ، المعجم الکبیر للطبرانی (جلد 22/44)
مندرجہ بالا سارے لوگ اپنی اپنی سندوں کے ساتھ سفیان سے بیان کرتے ہیں، وہ سلمہ بن کہیل سے، وہ حجر بن عنبس سے اور وہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں کہ:
سمعت النبى صلى الله عليه وسلم قرأ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال: آمين ومد بها صوته
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور اپنی آواز کو بلند کیا۔“
اور بعض روایات کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آواز کو بلند کیا کرتے تھے۔
مگر امام ابو داود جو روایت اپنے استاد محمد بن کثیر سے لائے ہیں اس میں الفاظ یہ ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ ولا الضالين قال: آمين ورفع بها صوته
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وَلَا الضَّالِّينَ پڑھتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کرتے تھے۔“
اور ایک روایت میں جس کو وہ اپنے شیخ مخلد بن خالد الشعری سے بیان کرتے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں:
أنه صلى خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجهر بآمين
”بے شک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی تو انہوں نے آمین بلند آواز سے کہی۔“
اور امام دارمی کی روایت میں جس کو وہ اپنے شیخ محمد بن کثیر سے بیان کرتے ہیں اس کے الفاظ یوں ہیں:
إذا قرأ ولا الضالين قال: آمين ويرفع بها صوته
”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا تو آمین کہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آواز کو آمین کہتے ہوئے بلند کیا کرتے تھے۔“
امام دار قطنی کی روایت میں جس کو وہ اپنے استاد عقیل بن محمد بن صاعد سے بیان کرتے ہیں اور اسی طرح امام بیہقی کی روایت میں جس کو وہ اپنے استاد ابو طاہر الفقیہ سے بیان کرتے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا اور اپنی آواز کو بلند کیا۔
اور امام سلمہ بن شبیب کی روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ فرمایا:
سمعت النبى صلى الله عليه وسلم إذا قال: ولا الضالين قال: آمين ورفع بها صوته فى الصلاة
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جب آپ وَلَا الضَّالِّينَ کہتے تو ساتھ آمین کہتے اور نماز میں اپنی آواز کو بلند کرتے تھے۔“
اور عبد اللہ الحافظ نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زائد کیے ہیں:
وطول بها
”یعنی آمین کو لمبا کیا۔“
یہ حدیث بھی مندرجہ ذیل کتابوں میں آئی ہے:
سنن ابی داود، کتاب الصلاة، باب التأمین وراء الإمام (جلد 1/574) حدیث نمبر: 933 ، سنن الترمذی، ابواب الصلاة، باب ما جاء فی التأمین (جلد 2/28) حدیث نمبر: 249 ، ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوٰة، باب من کان یسلم فی الصلوٰة تسلیمتین (جلد 1/299) ، المعجم الکبیر للطبرانی (جلد 22/45)
مندرجہ بالا سارے روایان حدیث علاء بن صالح الاسدی سے، وہ سلمہ بن کہیل سے، وہ حجر بن عنبس سے، وہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
أنه صلى خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فجهر بآمين وسلم عن يمينه وعن شماله حتى رأيت بياض خده
”کہ انہوں نے یعنی (حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہی اور اپنے دائیں پھر بائیں طرف سلام پھیرا حتیٰ کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار کی سفیدی کو دیکھا۔“
اس روایت کو مندرجہ ذیل ائمہ نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے:
سنن النسائی، کتاب الافتتاح، باب قول المأموم إذا عطس خلف الإمام (جلد 2/112) ، سنن ابن ماجہ، کتاب اقامة الصلاة والسنة فیہا (جلد 1/278) حدیث نمبر: 855 ، سنن الدار قطنی، کتاب الصلاة، باب التأمین فی الصلاة بعد فاتحة الکتاب والجہر بہا (جلد 1/334) ، مسند احمد (جلد 4/318) ، مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلاة، باب من کان یسلم فی الصلوٰة تسلیمتین (جلد 2/425)
مندرجہ بالا تمام رواۃ اسحاق سے، وہ عبد الجبار بن وائل سے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قرأ غير المغضوب عليهم ولا الضالين قال: آمين فسمعته وأنا خلفه
کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غير المغضوب عليهم ولا الضالين پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اس حال میں کہ میں آپ کے پیچھے تھا۔
اور ابن ماجہ کے لفظ ہیں فَسَمِعْنَاهَا پس ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمین کہتے ہوئے سنا۔
اور امام احمد کی روایت میں جس کو وہ اپنے استاد یحییٰ بن ابی بکر سے بیان کرتے ہیں اس کے الفاظ ہیں:
فقال: آمين يجهر
”پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہی۔“
اور اس حدیث کو بھی امام احمد نے مسند میں اپنی سند کے ساتھ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے:
أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول فى الصلاة: آمين
”کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں آمین کہہ رہے تھے۔“
یہ الفاظ یحییٰ بن آدم کے ہیں اور اسود بن عامر کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
يجهر بآمين
”کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے ہوئے آواز کو بلند کرتے تھے۔“
(جلد 4/318)

دوسری حدیث کا حکم:

❀ مذکورہ دوسری حدیث کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں:
”وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت حسن ہے۔ “
امام ترمذی، الجامع (2712)
اور شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” اس حدیث کی سند جید ہے اور حجر بن عنبس کے علاوہ باقی سارے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں اور حجر بن عنبس صدوق راوی ہیں جیسا کہ تقریب میں موجود ہے۔ “
الشيخ الألباني، سلسلة الأحاديث الصحيحة: (جلد 1/755)
فضیلۃ الشیخ استاذ المکرم محمد مظفر الشیرازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
”میں اپنے اللہ کی عطا کی ہوئی توفیق سے کہتا ہوں کہ امام ترمذی کے نزدیک اس حدیث کی سند صحیح ہے، کیونکہ اس کی سند کے تمام راوی حفاظ، اثبات اور ائمہ ہیں سوائے حجر بن عنبس کے اور علماء جرح و تعدیل کے اقوال کو پیش کرنے کے بعد جو بات میرے سامنے کھل کر واضح ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ حجر بن عنبس ثقہ ہیں کیونکہ ان کے بارے میں امام ابن معین فرماتے ہیں: شیخ، کوفی، ثقہ، مشہور، باوجود اس کے کہ امام ابن معین متشدد ہیں، لیکن ان کی توثیق کر رہے ہیں۔ “
اور امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں ذکر کیا ہے۔
اور خطیب بغدادی فرماتے ہیں: ثقہ ہیں اور آمین بالجہر کے باب میں انہوں نے ان سے ایک حدیث بھی تخریج کی ہے۔
امام دار قطنی اور ان کے علاوہ دیگر ائمہ نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
امام ذہبی نے بھی توثیق بیان کی ہے، پس یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حجر بن عنبس ثقہ ہیں، لیکن حافظ ابن حجر کا ان کو صدوق کہنا اس کا پتہ نہیں چل سکا کہ انہوں نے ان پر صدوق کا حکم کیوں لگایا ہے، باوجود اس چیز کے کہ یہاں پر کوئی عالم ایسا نہیں ہے جس نے ان کو ثقاۃ کے درجے سے صدوق کی طرف گرا دیا ہو، اگر معاملہ اسی طرح ہے تو پھر یہ ثقہ ہیں اور حدیث ان شاء اللہ صحیح ہے۔
بفرض محال تسلیم کر بھی لیا جائے کہ وہ صدوق ہیں تو پھر بھی ان کی متابعت عبد الجبار بن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اور وہ ثقہ ہیں۔
اور اسی طرح کلیب نے کی ہے جو کہ صدوق ہیں۔
پھر بھی حدیث حسن درجے سے صحت کے درجے تک پہنچ جاتی ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

تیسری حدیث

امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: ہم کو (1) محمد بن یحییٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم کو (2) سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں (3) لیث نے خبر دی، وہ کہتے ہیں مجھے (4) خالد بن یزید نے بیان کیا، وہ (5) سعید بن ابی ہلال سے بیان کرتے ہیں، وہ (6) نعیم المجمر سے بیان کرتے ہیں۔
عن نعيم المجمر قال: صليت وراء أبى هريرة رضى الله عنه فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتى إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال: آمين فقال الناس: آمين ويقول كلما سجد: الله أكبر وإذا قام من الجلوس فى الاثنتين قال: الله أكبر وإذا سلم قال: والذي نفسي بيده إني لأشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم
”نعیم المجمر فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز ادا کی، انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی، پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت کی، جب وہ غير المغضوب عليهم ولا الضالين پر پہنچے تو انہوں نے آمین کہی اور لوگوں نے بھی آمین کہی اور جب سجدے میں جاتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب دو رکعتیں مکمل کر کے کھڑے ہوتے تو پھر بھی اللہ اکبر کہتے اور جب سلام پھیرا تو فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ تمہاری نماز سے زیادہ مشابہ اور ملتی جلتی ہے۔ “

راویان حدیث کا مختصر تعارف:

(1) محمد بن یحییٰ بن عبد اللہ بن خالد بن فارس بن ذویب الذہلی، النیسابوری ان کا نام و نسب ہے۔ ثقہ اور حافظ ہیں، گیارہویں طبقے کے راوی ہیں، ان کی کل عمر 86 سال ہے اور یہ صحیح بخاری کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 512، ترجمہ نمبر: 6387
(2) سعید بن حکم بن محمد بن سالم بن ابی مریم ان کا نام، الجمحی ان کی نسبت اور ابو محمد المصری کنیت ہے۔ ثقہ، ثبت اور فقیہ ہیں، دسویں طبقے کے کبار راویوں میں سے ہیں اور کل عمر انہوں نے 80 سال گزاری ہے۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 234، ترجمہ نمبر: 2286
(3) لیث بن سعد بن عبد الرحمن ان کا نام، النبی المصری نسبت اور ابو الحارث ان کی کنیت ہے۔ ثقہ، ثبت، فقیہ اور مشہور امام ہیں، ساتویں طبقے کے راوی ہیں، شعبان میں فوت ہوئے۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 464، ترجمہ نمبر: 5684
(4) خالد بن یزید ان کا نام ہے، ایک قول کے مطابق تیمی دوسرے قول کے مطابق سکسکی ان کی نسبت اور ابو عبد الرحیم ان کی کنیت ہے، ثقہ اور فقیہ آدمی ہیں، چھٹے طبقے سے متعلق ہیں۔
ابن حجر، تہذیب التہذیب، صفحہ نمبر: 191، ترجمہ نمبر: 1691
(5) سعید بن ابی ہلال ان کا نام، اللیثی المصری ان کی نسبت اور ابو العلاء ان کی کنیت ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ مدنی الاصل تھے، چھٹے طبقے کے راوی ہیں، ایک قول کے مطابق 30 ہجری کے بعد فوت ہوئے، ایک قول یہ ہے کہ 30 ہجری سے پہلے فوت ہوئے ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ 50 ہجری سے پہلے فوت ہوئے۔ ان کے بارے میں جرح و تعدیل کے علماء کے اقوال درج ذیل ہیں:
1- متشدد ائمہ:
امام ابو حاتم فرماتے ہیں: لا بأس به، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2- معتدل ائمہ:
امام احمد فرماتے ہیں: میں نہیں جانتا کہ کون سی چیز احادیث میں سے اس پر مختلط ہوئی ہے۔
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ثقہ ہیں۔
3- متساہل ائمہ:
امام علی فرماتے ہیں: ثقہ ہیں۔
امام ابن حبان نے ان کو ثقات میں نقل کیا ہے۔
4- دیگر ائمہ:
امام ابن سعد، ابن خزیمہ، خطیب بغدادی، ابن عبد البر، بیہقی نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔
امام نسائی فرماتے ہیں: صدوق ہیں اور ابن حزم فرماتے ہیں: قوی نہیں ہے۔
5- متأخرین ائمہ:
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ثقہ ہیں، امام ذہبی فرماتے ہیں: ثقہ ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب وہ بات جو مذکورہ اقوال سے ظاہر ہو رہی ہے وہ یہی ہے کہ ابو حاتم کے قول کو تشدد پر محمول کیا جائے گا اور سعید بن ابی ہلال ثقہ راوی ہیں جیسا کہ امام دار قطنی اور دیگر ائمہ نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 488، ترجمہ نمبر: 6028 ، تہذیب التہذیب: (جلد 4/94) ترجمہ نمبر: 159 ، العجلی، الثقات، صفحہ: 89 (566) ، ابن حبان، الثقات (جلد 6/374) ، الذہبی، میزان الاعتدال (جلد 2/162) (3290)
اور ابن حزم کا ان کو ضعیف قرار دینا اس کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابن حزم کی تضعیف کے ساتھ سلف میں سے کوئی موافقت کرتا مجھے نظر نہیں آیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ سوائے نسائی کے انہوں نے امام احمد سے حکایت کیا ہے کہ سعید بن ابی ہلال مختلط ہو گئے تھے، اسی وجہ سے ابن القیس نے اپنی کتاب الكواكب النيرات کے ملحق اول میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔
الکواکب النیرات، صفحہ: 468
(6) نعیم بن عبد اللہ ان کا نام، مولیٰ آل عمر، مدنی ان کی نسبت ہے اور مجمر کے لقب کے ساتھ زیادہ معروف ہوئے، تیسرے طبقے کے ثقہ راوی ہیں۔

حدیث کی تخریج:

سنن النسائی، کتاب الصلاة، باب قراءة بسم اللہ الرحمن الرحیم (جلد 2/103) ، ابن خزیمہ، کتاب الصلاة، باب ذکر الدلیل علیٰ أن الجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم والمخافتہ بہ جميعاً مباح (جلد 1/251) حدیث نمبر: 499 ، صحیح ابن حبان، کتاب الصلاة، باب ذکر ما یستحب للإمام أن یجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم عند ابتداء قراءة فاتحة الکتاب وفی ذکر ما یستحب للمرء الجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم فی الموضع الذی وصفناہ وإن کان الجہر والمخافتہ بہما جميعاً طلقاً مباحاً (جلد 5/100-104) حدیث نمبر: 1798 و 1801 ، سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاة، باب جہر الإمام بالتأمین (جلد 2/58) ، مستدرک الحاکم، کتاب الصلاة، باب إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرأ فی الصلاة بسم اللہ الرحمن الرحیم (جلد 1/232) ، سنن الدار قطنی، کتاب الصلاة، باب وجوب قراءة بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلاة (جلد 1/305-306)
مندرجہ بالا سارے رواۃ اپنی اپنی سند کے ساتھ خالد سے بیان کرتے ہیں، وہ سعید بن ابی ہلال سے، وہ نعیم المجمر سے، وہ کہتے ہیں:
صليت وراء أبى هريرة رضى الله عنه ……. إليٰ آخر الحديث

تیسری حدیث کا حکم:

امام دار قطنی اس حدیث کو اپنی سنن میں تخریج کے بعد فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
سنن الدار قطنی: (جلد 1/306)
امام الحاکم مستدرک میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: یہ روایت شیخین کی شرط پر پوری اترتی ہے، لیکن انہوں نے اس کو تخریج نہیں کیا۔
مستدرک الحاکم: (جلد 1/232)
امام بیہقی خلافیات میں فرماتے ہیں: اس حدیث کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، ان کی عدالت پر اجماع ہے اور صحیح میں ان کی حدیث کو بطور حجت اور دلیل لیا گیا ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی سنن میں فرماتے ہیں: ہمیں ابو بکر بن الحارث نے خبر دی، وہ کہتے ہیں علی بن عمر الحافظ نے فرمایا: یہ سند حسن ہے، مراد ان کی اسی حدیث کی سند تھی۔
سنن الکبری للبیہقی: (جلد 2/58)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام الحاکم کی موافقت کرتے ہوئے فرمایا: یہ روایت شیخین کی شرط کے مطابق ہے۔
مستدرک الحاکم: (جلد 1/232)
شیخ شعیب الارنؤوط فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔
الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان: (جلد 5/105)
اور مزید شیخ شعیب الارنؤوط فرماتے ہیں: اس حدیث کی ابن حبان والی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان: (جلد 5/100)
اور شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف سنن النسائی میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
ضعیف سنن النسائی للألباني، صفحہ: 29، رقم الحدیث: 36
فضیلۃ الشیخ محمد مظفر الشیرازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں، جس طرح کہ میں نے اس حدیث کی سندوں کے شجرہ اور جدول میں اس چیز کو بیان کر دیا ہے، ہاں دار قطنی کی روایت میں ایک راوی صدوق ہے اور وہ عبد اللہ بن عبد الحکم ہے جو کہ محمد بن عبد اللہ بن حکم کے والد محترم ہیں۔
اور امام بیہقی کی سند میں عبدان راوی ہے، حافظ اور صدوق ہے باقی سارے کے سارے رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔
اور شیخ حماد الانصاری شیخ البانی کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شیخ البانی نے سعید بن ابی ہلال کے ضعف کے بارے میں حافظ ابن حزم کی پیروی کی ہے جب کہ وہ اس موقف میں درست نہیں ہیں۔
الكواكب النيرات فى معرفة من اختلط من الرواة الثقات، صفحه: 468، الملحق الأول
اور سعید بن ابی ہلال کا الكواكب النيرات میں ملحق اول میں تذکرہ کیا گیا ہے، لیکن یہ بات میرے لیے واضح نہیں ہو سکی کہ خالد بن یزید نے ان سے روایت اختلاط سے پہلے لی ہے یا بعد میں۔
المصدر السابق

چوتھی حدیث

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہم کو (1) اسحاق بن منصور نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم کو (2) عبد الصمد بن عبد الوارث نے خبر دی، وہ کہتے ہیں ہم کو (3) حماد بن سلمہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم کو (4) سہیل بن ابی صالح نے بیان کیا، وہ اپنے (5) باپ سے بیان کرتے ہیں، وہ (6) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حسدتكم اليهود ما حسدتكم على السلام والتأمين
”بے شک یہودی تمہاری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ تمہارے سلام کہنے (ایک دوسرے کو) اور آمین کہنے پر حسد کرتے ہیں۔ “

راویان حدیث کا مختصر تعارف:

(1) اسحاق بن منصور بن بہرام ان کا نام، ابو یعقوب کنیت اور استیمی، امروزی ان کی نسبت ہے۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں، ثقہ اور ثبت ہیں، گیارہویں طبقے کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 103، ترجمہ نمبر: 384
(2) عبد الصمد بن عبد الوارث بن سعید بن ذکوان ان کا نسب اور استیمی، العنبری، التخثوری ان کی نسبت اور ابو سہل البصری ان کی کنیت ہے۔ صدوق اور ثبت ہیں، اصحاب صحاح ستہ نے بھی ان سے حدیث کی ہے، نویں طبقے کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 365، ترجمہ نمبر: 4080
(3) حماد بن سلمہ بن دینار البصری ان کا نام اور ابو سلمہ ان کی کنیت ہے۔ ثقہ، عابد اور أثبت الناس ہیں، آخری عمر میں ان کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا، بخاری معلق، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور آٹھویں طبقے کے کبار لوگوں میں سے ہیں۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 178، ترجمہ نمبر: 1499
(4) سہیل بن ابی صالح ذکوان السمان ان کا نام، ابو یزید المدنی ان کی کنیت ہے۔ صدوق ہیں، آخری عمر میں حافظہ متغیر ہو گیا تھا اور صحاح ستہ کے راوی ہیں، چھٹے طبقے سے ہیں اور خلیفہ منصور کی خلافت میں فوت ہوئے۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 259، ترجمہ نمبر: 2675
(5) ذکوان ان کا نام، ابو صالح السمان الزیات ان کی کنیت اور المدنی ان کی نسبت ہے۔ ثقہ اور ثبت راوی ہیں اور کوفہ کی طرف تیل وغیرہ کی تجارت کرتے تھے، تیسرے طبقے میں سے ہیں اور صحاح ستہ کے راوی ہیں، 101 ہجری میں فوت ہوئے۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 203، ترجمہ نمبر: 1841
(6) عائشہ بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہا ان کا نام ہے، ام المؤمنین ہیں۔ فقیہ امت کے لقب کے ساتھ معروف ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد تمام ازواج مطہرات سے برتر مقام والی حاملہ تھیں، 57 ہجری میں فوت ہوئی ہیں۔
الإصابة فی تمییز الصحابہ (جلد 4/359) ترجمہ نمبر: 704

حدیث کی تخریج:

سنن ابن ماجہ، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیہا، باب الجہر بآمین (جلد 1/278) حدیث نمبر: 856 ، صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصلاة، باب ذکر حسد الیہود المؤمنین علیٰ التأمین (جلد 1/287) حدیث نمبر: 574
امام ابن ماجہ اور امام ابن خزیمہ دونوں اپنی اپنی سند کے ساتھ سہیل بن ابی صالح سے بیان کرتے ہیں، وہ اپنے باپ سے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حسدتكم اليهود ما حسدتكم على السلام والتأمين
”بے شک یہودی تمہاری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ تمہارے سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔ “
یہ الفاظ سنن ابن ماجہ کے ہیں۔
اور ابن خزیمہ کے الفاظ درج ذیل ہیں:
عن عائشة رضي الله عنها قالت دخل يهودي على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: السام عليك يا محمد! فقال النبى صلى الله عليه وسلم وعليك ـ فى حديث طويل وفيه: إن اليهود قوم حسد وهم لا يحسدوننا على شيء كما يحسدوننا على السلام وعلى آمين
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اے محمد! تجھے موت آ جائے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں کہا: تجھ پر۔ اور ایک لمبی حدیث ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود حاسد قوم ہیں اور وہ ہماری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد وہ ہمارے سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔ “
اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد (جلد 6/134-135) اور امام بیہقی نے سنن الکبری میں کتاب الصلاة، باب التأمین (جلد 2/56) پر رقم کیا ہے۔
مندرجہ بالا دونوں راوی اپنی اپنی سند کے ساتھ محمد بن الاشعث سے بیان کرتے ہیں، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
بينا أنا عند النبى صلى الله عليه وسلم إذا استأذن رجل من اليهود فأذن له فقال: السام عليك، فقال النبى صلى الله عليه وسلم وعليك وفيه إنهم لا يحسدوننا على شيء كما يحسدوننا على يوم الجمعة التى هدانا الله لها وضلوا عنها وعلى قولنا خلف الإمام: آمين
”ایک دفعہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی کہ یہودیوں میں سے ایک آدمی نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اجازت دے دی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر داخل ہو کر) پس اس نے کہا: آپ پر موت آ جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں کہا:عليك یعنی تجھ پر آئے۔ “
اور اسی حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” یہودی تمہاری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد وہ تمہارے جمعہ کے دن پر کرتے ہیں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہماری راہنمائی فرمائی اور یہودیوں کو اس دن سے پھسلا دیا اور محروم کر دیا اور ہمارے قبلہ پر جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہماری راہنمائی فرمائی اور جس سے یہودی گمراہ ہو گئے اور ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنے پر کرتے ہیں۔ “
اور مسند احمد کے یہاں یہ الفاظ اور امام بیہقی کی وہ روایت جس کو وہ اپنے شیخ ابی الحسن علی بن محمد بن علی المقری سے روایت کرتے ہیں، کے الفاظ ایک جیسے ہیں۔
اور ابی زکریا بن ابی اسحاق المزکی کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
لم يحسدونا اليهود بشيء ما حسدونا بثلاث، التسليم، والتأمين واللهم ربنا لك الحمد
یہودی ہماری کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد وہ تین چیزوں سلام کہنے، آمین کہنے اور اللهُم رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کہنے کی وجہ سے کرتے ہیں۔

چوتھی حدیث کا حکم:

شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح سنن ابن ماجہ میں ذکر کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
صحیح سنن ابن ماجہ للألباني (جلد 1/142) حدیث نمبر: 697
اور اسی طرح اس حدیث کو سلسلہ صحیحہ میں بھی ذکر کیا ہے۔
سلسلة الصحيحة للألباني (جلد 2/312) حدیث نمبر: 691
اور دکتور محمد مصطفیٰ الاعظمی فرماتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
صحیح ابن خزیمہ، بتحقیق محمد مصطفیٰ الاعظمی (جلد 1/287)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے جب اس حدیث کی ابن خزیمہ والی سند کے بارہ میں گفتگو کی تو فرمایا:
میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں اور صحیح کے راوی ہیں ۔
سلسلة الصحيحة للألباني (جلد 2/312) حدیث نمبر: 691
اور ابو بشر الواسطی ان کا نام اسحاق بن شاہین ہے اور وہ امام بخاری کے مشائخ میں سے ہیں۔
اور امام بوصیری” زوائد“ میں فرماتے ہیں: یہ سند صحیح ہے اور اس کے تمام راویوں کے ساتھ امام مسلم نے دلیل اور حجت پکڑی ہے۔
سنن ابن ماجہ (جلد 1/278) حدیث نمبر: 856
اور شیخ البانی فرماتے ہیں: اس حدیث کی اور بھی مختلف سندیں ہیں۔
حصین بن عبد الرحمن عمر بن قیس سے بیان کرتے ہیں وہ محمد بن الاشعث سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوع بیان کرتے ہیں اور فرمایا کہ یہ سند جید ہے اس کے سارے راوی ثقہ ہیں، محمد بن الاشعث کے علاوہ باقی سارے راوی مسلم کے ہیں اور ان کو امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے، ان سے ایک بہت بڑی جماعت روایت کرتی ہے اور کہار تابعین میں سے ہیں اور فرمایا کہ اس کے ترجمہ کے لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث شاہد ہے ان الفاظ کے ساتھ:
إن اليهود ليحسدونكم على السلام والتأمين وھو الصحیح
بے شک یہودی تمہارے سلام کہنے اور آمین کہنے پر تمہارے ساتھ حسد کرتے ہیں۔
سلسلة الصحيحة للألباني، (جلد 2/313)، حدیث نمبر: 314
اور وہ حدیث صحیح ہے۔
فضیلۃ الشیخ استاذ محمد مظفر الشیرازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ حدیث اپنے تمام طرق اور تمام سندوں کے ساتھ صحیح ہے جیسا کہ آپ نے اس حدیث کی سندوں کے شجرہ اور جدول سے ملاحظہ کر لیا ہے۔ “

پانچویں حدیث

امام طبرانی فرماتے ہیں ہم کو (1) معاذ بن المثنیٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم کو (2) ابو العالیہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہم کو (3) شعبہ نے بیان کیا، وہ (4) سلمہ بن کہیل سے بیان کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں میں نے (5) حجر بن عنبس سے سنا وہ (6) حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں:
أنه صلى خلف النبى صلى الله عليه وسلم فلما قال: ولا الضالين قال: آمين فأخفى بها صوته، ووضع يده اليمنى على اليسرى ويسلم عن يمينه وعن يساره
”انہوں (یعنی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَلَا الضَّالِّينَ کہا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا، پس اپنی آواز کو آمین کہتے ہوئے پست رکھا اور اپنا دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف اور بائیں طرف سلام پھیرتے۔ “

راویان حدیث کا مختصر تعارف:

(1) معاذ بن المثنیٰ بن معاذ بن معاذ بن نصر بن حسان ان کا نام، ابو المثنیٰ کنیت اور العنبری نسبت ہے۔ بغداد کے رہنے والے تھے، محمد بن کثیر العبدی وغیرہ سے روایت لی ہے اور ثقہ ہیں۔ 208 ہجری میں پیدا ہوئے، 286 ہجری کو سوموار والے دن ربیع الاول کے دو دن ابھی باقی تھے تو فوت ہو گئے، باب الکوفہ کے مقبرہ میں کریمی کے پہلو میں دفن ہوئے، طبرانی اور خطیب بغدادی نے ان سے روایت لی ہے۔
خطیب بغدادی (جلد 13/136) ترجمہ نمبر: 7121
(2) ہشام بن عبد الملک ان کا نام، ابو الولید کنیت اور الطیالسی البصری ان کی نسبت ہے۔ نویں درجے کے ثقہ اور ثبت راوی ہیں، 227 ہجری کو فوت ہوئے، ان کی کل عمر 94 برس تھی، صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 573 ترجمہ نمبر: 7301
(3) شعبہ بن الحجاج بن ورد العتکی ان کا نام، ابو بسطام کنیت اور الواسطی البصری نسبت ہے۔ ثقہ حافظ اور متقن ہیں۔ سفیان ثوری فرماتے تھے: شعبہ امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں اور یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عراق میں رجال کے بارے میں جانچ پڑتال کی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا اور ساتویں طبقے کے عابد آدمی تھے، 160 ہجری میں فوت ہوئے اور صحاح ستہ کے راوی ہیں۔
ابن حجر، تقریب التہذیب، صفحہ نمبر: 266 ترجمہ نمبر: 2790
(4) سلمہ بن کہیل، ان کا ترجمہ پہلے گزر چکا ہے۔
(5) حجر بن عنبس، ان کا ترجمہ بھی گزر چکا ہے۔
(6) وائل بن حجر رضی اللہ عنہ الحضرمی، ان کا ترجمہ بھی گزر چکا ہے۔

حدیث کی تخریج:

مسند احمد (جلد 4/316) ، مسند الطیالسی (صفحہ: 138) حدیث نمبر: 1024 ، سنن الدار قطنی، کتاب الصلاة، باب التأمین بعد فاتحة الکتاب والجہر بہا (جلد 1/334) ، معجم الکبیر للطبرانی (جلد 22/45) ، سنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلاة، باب جہر الإمام بالتأمین (جلد 2/57)
مندرجہ بالا پانچوں ائمہ اپنی اپنی سند کے ساتھ شعبہ سے بیان کرتے ہیں، وہ سلمہ بن کہیل سے، وہ حجر بن ابی العنبس سے، وہ فرماتے ہیں: میں نے علقمہ کو حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے یا حجر نے اس کو حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہی اور آمین کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آواز کو پست رکھا اور اپنا دائیں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا۔
مگر امام بیہقی نے ان الفاظ کی زیادتی کو ذکر نہیں کیا:
وضع يده اليمنى على يده اليسرى وسلم عن يمينه وعن يساره
”اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور اپنے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا۔ “
اور حجر ابو العنبس ان مذکورہ ائمہ کی سندوں میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے علقمہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں اور طبرانی کی روایت میں جس کو وہ اپنے شیخ معاذ بن المثنیٰ اور ابی مسلم الحجمی سے بیان کرتے ہیں، وہ علقمہ کے واسطے کے بغیر ہے جیسا کہ آپ جدول سے ملاحظہ کر چکے ہیں۔
اور امام طبرانی نے بھی اپنی معجم الکبیر (جلد 22/43-44) میں معاذ بن المثنیٰ سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں ہم کو ابو الولید نے بیان کیا ہے اور ابی مسلم الحجمی کہتے ہیں ہم کو حجاج بن نصیر نے بیان کیا، یہ دونوں شعبہ سے وہ سلمہ بن کہیل سے وہ کہتے ہیں میں نے حجر ابو العنبس سے سنا وہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ:
أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال ولا الضالين قال: آمين، وأخفى بها صوته ووضع يده اليمنى على اليسرى وجعلهما على بطنه وكان إذا قال سمع الله لمن حمده قال اللهم ربنا لك الحمد ويسلم عن يمينه وعن يساره تسليمتين
”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وَلَا الضَّالِّينَ کہا تو آمین کہا اور اپنی آواز کو آمین کہتے ہوئے پست رکھا اور اپنا دائیں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھوں کو اپنے پیٹ پر رکھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تو ساتھ کہتے: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ اور اپنے دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرتے۔ اور یہ الفاظ ابی مسلم الکحبی کے ہیں۔“

پانچویں حدیث کا حکم:

امام ترمذی رحمہ اللہ جامع ترمذی میں فرماتے ہیں:
ابن وائل رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو شعبہ نے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے، انہوں نے حجر بن عنبس سے، انہوں نے علقمہ سے، وہ اپنے باپ وائل رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں:
أن النبى صلى الله عليه وسلم قرأ غير المغضوب عليهم ولا الضالين فقال: آمين وخفض بها صوته
بے شک نبی صلى الله عليه وسلم نے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے آمین کہا اور آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو پست رکھا۔
امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: آمین کے بارے میں شعبہ کی حدیث سے سفیان کی حدیث زیادہ صحیح اور درست ہے۔
اس حدیث کو بیان کرنے میں شعبہ متعدد جگہوں پر غلطی کر گئے ہیں:
1. شعبہ نے کہا: عن حجر ابی العنیس، یہ درست نہیں ہے، کیونکہ ان کا صحیح نام حجر بن عنبس ہے اور ان کی کنیت ابو سکن ہے۔
2. شعبہ نے اس حدیث میں زیادتی کی ہے۔ عن علقمہ بن وائل، حالانکہ اس میں علقمہ سے روایت نہیں ہے بلکہ حجر بن عنبس سے روایت ہے اور وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔
3. شعبہ نے کہا: خفض بها صوته کہ آمین کہتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی آواز کو پست رکھا۔
یہ الفاظ نہیں بلکہ درست الفاظ یہ ہیں: مد بها صوته کہ آمین کہتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ اور امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں ابو زرعہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: آمین کے بارے میں سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
اور فرمایا: اس حدیث کو علاء بن صالح الاسدی نے سلمہ بن کہیل سے سفیان کی روایت کی طرح ہی بیان کیا ہے۔
جامع ترمذی (28/2 ، 29)
اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے وہی بات کہی جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بارے میں کہی، پھر حدیث کو اپنی سند کے ساتھ شعبہ سے بیان کیا، انہوں نے سلمہ بن کہیل سے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں میں نے حجر بن عنبس سے سنا، وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پیچھے نماز ادا کی جب آپ صلى الله عليه وسلم نے وَلَا الضَّالِّينَ کہا تو اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے آمین کہا۔
اس حدیث کو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ثوری کی روایت کی طرح دو اور مختلف سندوں سے بیان کیا گیا ہے۔
اور مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کہا جائے کہ امام عینی رحمہ اللہ نے بھی اس چیز کا جواب دیا ہے جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے شعبہ کی طرف ان کی دوسری غلطی سے منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ: امام شعبہ کا یہ کہنا: زاد فيه علقمة (اس میں علقمہ نے کچھ الفاظ کی زیادتی کی ہے) یہ کہنا مضر نہیں ہے، کیونکہ ثقہ کی زیادتی قبول ہوتی ہے اور خصوصی طور پر جب کوئی شعبہ جیسا آدمی ہو تو وہ تو بالاولیٰ قبول ہے۔
اور فضیلۃ الشیخ مظفر الشیرازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم کہتے ہیں کہ ابھی آپ نے پڑھ لیا کہ شعبہ رحمہ اللہ راویوں کے بارے میں بہت سی زیادہ غلطیاں کر جاتے ہیں اور پھر یہ بات بھی عیاں ہے کہ یہاں پر اس زیادتی کو بیان کرنے میں شعبہ متفرد ہیں، کسی بھی ثقہ اور ضعیف راوی نے اس زیادتی میں ان کی متابعت اور موافقت نہیں کی، بلکہ اس زیادتی کا ذکر کرنے میں سفیان، علاء بن صالح اور محمد بن سلمہ نے شعبہ کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اپنی روایت میں اس زیادتی کا ذکر نہیں کیا۔
اور اس بات کو خصوصیت سے یاد رکھیں کہ سفیان شعبہ سے زیادہ حافظ ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ جب سفیان مخالفت کرنے والے ہوں تو اس وقت سفیان کی بات مقدم ہو گی اور ان ساری چیزوں کے باوجود سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات پر نص قائم کی ہے کہ شعبہ اس زیادتی میں غلطی کر گئے ہیں۔
ان سارے دلائل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس زیادتی کو بیان کرنے میں شعبہ غلطی کر گئے ہیں، واللہ تعالیٰ اعلم۔
وقال خفض بها صوته وإنما هو مد بها صوته
” شعبہ نے کہا کہ آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو پست رکھا، جب کہ صحیح الفاظ ہیں کہ آمین کو کہتے ہوئے اپنی آواز کو لمبا کیا۔ “
یہ وہ تیسری جگہ ہے ان جگہوں میں سے جہاں پر شعبہ سے خطا اور غلطی ہوگئی ہے۔ پس شعبہ کا قول خفض بها صوته یہ غلطی اور خطا ہے جب کہ درست یہ ہے مد بها صوته جس طرح کہ سفیان رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
اور اگر یہ بات کہی جائے کہ سفیان رحمہ اللہ اور شعبہ رحمہ اللہ یہ دونوں ہی ثقہ، ثبت اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں اور ان دونوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو دوسرے سے زیادہ غلطی کرنے والا ہو۔
اور اگر کہنے والا یہ کہے کہ سفیان رحمہ اللہ کو اپنے اس قول میں غلطی لگی مد بها صوته تو پھر کون سی دلیل ہے جو اس چیز کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہاں پر غلطی کرنے والے شعبہ رحمہ اللہ ہیں۔
تو فضیلۃ الشیخ محمد مظفر الشیرازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم نے کہا کہ یہاں پر متعدد ایسی ادلہ ہیں جو شعبہ رحمہ اللہ کے مخفی ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان دلائل میں سے چند درج ذیل ہیں:
1. سفیان ثوری رحمہ اللہ اور شعبہ رحمہ اللہ دونوں ثقہ، حافظ ہیں، لیکن حفظ میں دونوں مساوی اور ایک پائے کے نہیں ہیں، بلکہ سفیان زیادہ حافظ ہیں اور اس بات کو شعبہ رحمہ اللہ نے بذات خود تسلیم کیا ہے اور اس پر نص قائم کی ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ تذکرۃ الحفاظ میں رقمطراز ہیں: كان شعبه يقول: سفيان أحفظ مني کہ شعبہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ سفیان رحمہ اللہ حفظ و اِتقان میں مجھ سے آگے ہیں۔
اور امام ذہبی رحمہ اللہ تذکرۃ الحفاظ میں دوسری جگہ فرماتے ہیں: صالح بن جزہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سفیان رحمہ اللہ شعبہ رحمہ اللہ سے احفظ ہیں۔
تذكرة الحافظ للذهبي (203/1)
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں سفیان رحمہ اللہ کا ترجمہ باندھتے ہوئے فرماتے ہیں: قال أبو حاتم وأبو زرعة وابن معين هو أحفظ من شعبة امام ابو حاتم، امام ابو زرعہ رضی اللہ عنہ اور ابن معین نے فرمایا کہ سفیان شعبہ سے زیادہ حافظ ہیں۔
ابن حجر، تهذيب التهذيب (111/4) ترجمہ نمبر: 199
2. یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب شعبہ سفیان کی مخالفت کریں گے تو اس وقت سفیان رحمہ اللہ کی بات کو اہمیت و فوقیت حاصل ہو گی۔
3. تیسری دلیل یہ ہے کہ شعبہ رحمہ اللہ کا یہ قول خفض بها صوته اس میں کسی ثقہ اور نہ ہی کسی ضعیف آدمی نے ان کی متابعت و موافقت کی ہے۔ جب کہ سفیان رحمہ اللہ کا یہ کہنا: مد بها صوته اس میں دو آدمیوں نے ان کی متابعت کی ہے: ایک علاء بن صالح ہیں، انہوں نے اس حدیث کو سلمہ بن کہیل سے سفیان کی حدیث کی طرح ہی روایت کیا ہے اور علاء بن صالح ثقہ راوی ہیں۔
اور دوسرے راوی محمد بن مسلمہ ہیں، شعبہ کی روایت کو بیان کرنے کے بعد امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ اس طرح نہیں ہیں جس طرح شعبہ نے کہا ہے وأخفى بها صوته اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ شعبہ کو وہم ہوا ہے، کیونکہ سفیان ثوری، محمد بن مسلمہ اور ان کے علاوہ دیگر راویان حدیث نے اس حدیث کو سلمہ بن کہیل سے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ رفع بها صوته کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے آمین کہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا تھا۔ اور محمد بن مسلمہ ضعیف ہیں اور اس سے یہ بات نکھر کر سامنے آگئی کہ سفیان کی ثقہ اور ضعیف دونوں نے متابعت کی ہے، جب کہ شعبہ رحمہ اللہ کی نہ کسی ثقہ نے اور نہ ہی کسی ضعیف راوی نے متابعت کی ہے۔
فضیلۃ الشیخ محمد مظفر الشیرازی حفظہ اللہ فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ سفیان والی حدیث کے الفاظ مد بها صوته یہ ہی درست الفاظ ہیں اور شعبہ والی روایت کے الفاظ وخفض بها صوته یہ غلطی ہے، درست الفاظ نہیں ہیں تو پھر آپ کے سامنے یہ بات اظہر من الشمس اور روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ آمین بآواز بلند کہنا اور جہراً کہنا ہی راجح اور قومی عمل ہے۔
المبارك فوري، تحفة الأحوذي شرح جامع ترمذی (210/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1