امامت کے شرائط و احکام سے متعلق 5 صحیح احادیث

امامت کا بیان

امامت کے لیے ترجیحی معیار:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کے لیے درج ذیل اصول بیان فرمائے:

◈ سب سے پہلے وہ شخص امامت کا حقدار ہے جو لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن مجید درست اور خوبصورت طریقے سے پڑھنے والا ہو۔

◈ اگر سب کی قراءت برابر ہو، تو وہ شخص امام بنے جو سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو (یعنی وہ شخص جو احکام و مسائل کی احادیث سے سب سے زیادہ واقف ہو)۔

◈ اگر سنت کے علم میں بھی سب برابر ہوں، تو پھر وہ شخص امامت کرے جس نے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہو۔

◈ اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں، تو پھر وہ امام بنے جو سب سے پہلے اسلام لایا ہو۔

◈ نیز، کسی شخص کو دوسرے کی جگہ بغیر اجازت امامت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی کے گھر میں اُس کی اجازت کے بغیر اس کی مخصوص جگہ پر بیٹھنا چاہیے۔

حدیث:

’’لوگوں کا امام وہ ہونا چاہیے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن اچھی طرح (صحیح پڑھنا) جانتا ہو اور اگر قراءت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔ (یعنی سب سے زیادہ احکام اور مسائل کی حدیثیں جانتا ہو) پھر اگر سنت کے علم میں بھی سب برابر ہوں تو پھر امامت وہ کرائے جس نے سب سے پہلے (مدینہ کی طرف) ہجرت کی۔ اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سب سے پہلے مسلمان ہوا۔ اور (بلا اجازت) کوئی شخص کسی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ کسی کے گھر میں صاحب خانہ کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب من احق بالامامۃ؟ ۳۷۶.)

نابالغ بچے اور نابینا شخص کی امامت:

اگر کوئی نابالغ بچہ زیادہ قرآن یاد رکھتا ہو تو اُسے امام بنایا جا سکتا ہے۔

سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’اپنے قبیلے میں سب سے زیادہ قرآن مجھے یاد تھا، مجھے امام بنایا گیا حالانکہ میری عمر سات سال تھی۔‘‘
(بخاری، المغازی، باب: من شہد الفتح ۲۰۳۴.)

نابینا شخص کو امام بنانا جائز ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو امام مقرر فرمایا تھا، حالانکہ وہ نابینا تھے۔
(ابو داود، الصلاۃ، باب امامۃ الاعمی، ۵۹۵ – امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)

نماز میں تخفیف (ہلکی نماز پڑھانا):

سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی بہت ہلکی اور بہت کامل نماز میں نے کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی۔ جب آپ (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس ڈر سے نماز ہلکی کر دیتے کہ اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔‘‘
(بخاری، الاذان، باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی، ۸۰۷، مسلم: ۹۶۴.)

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’میں نماز لمبی کرنے کے ارادے سے نماز میں داخل ہوتا ہوں۔ پھر (عورتوں کی صف میں) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں کمی کر دیتا ہوں (ہلکی پڑھتا ہوں) کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔‘ ‘‘
(بخاری، ۷۰۷.)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1