اللہ تعالیٰ کا علوِ ذات – قرآن و سنت، سلف صالحین، عقل و فطرت کی روشنی میں مکمل عقیدہ اور باطل نظریات کا رد
ماخوذ : فتاوی ارکان اسلام

علوِ ذات، نبی کریم ﷺ کا سوال اور عورت کا جواب – سلف کا عقیدہ اور منحرف نظریے کی تردید

اللہ تعالیٰ کے علو کے بارے میں سلف صالحین کا موقف

سلف صالحین رحمہم اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پاک ذات کے ساتھ اپنی تمام مخلوق سے بالا و برتر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں واضح حکم ہے:

﴿فَإِن تَنـزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾ … سورة النساء
’’اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو، تو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اس میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:

﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ﴾ … سورة الشورى: ١٠
’’اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو، اس کا فیصلہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔‘‘

﴿ إِنَّما كانَ قَولَ المُؤمِنينَ إِذا دُعوا إِلَى اللَّهِ وَرَسولِهِ لِيَحكُمَ بَينَهُم أَن يَقولوا سَمِعنا وَأَطَعنا وَأُولـئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٥١﴾ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَخشَ اللَّهَ وَيَتَّقهِ فَأُولـئِكَ هُمُ الفائِزونَ ﴿٥٢﴾ … سورة النور
’’مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا۔ اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔‘‘

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾ … سورة الأحزاب: ٣٦
’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو وہ اس میں اپنا بھی کچھ حق اختیار محفوظ رکھیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ راہ راست سے بھٹک کر صریح گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔‘‘

﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّى يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَجًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾ … سورة النساء: ٦٥
’’تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں، تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘

علوِ ذات پر قرآن و سنت کے دلائل

1. اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے

… سورة الملك: ١٧
’’کیا تم اس سے، جو آسمان میں ہے، نڈر ہو کہ وہ تم پر مٹی اور کنکریاں اڑاتی آندھی بھیج دے، سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے؟‘‘

نبی ﷺ کی دعا:
«رَبُّنَا اللّٰهُ الَّذِیْ فِی السَّمَاَءِ»
’’ہمارا رب وہ اللہ ہے جو آسمان میں ہے۔‘‘
(سنن ابی داود، الطب، ح: ۳۸۹۲)

نبی ﷺ نے فرمایا:
«وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَّدْعُو امْرَأَتَهُ اِلَی فِرَاشِهَا فَتَأْبٰی عَلَيْهِ اِلاَّ کَانَ الَّذِیْ فِی السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّی يَرْضٰی عَنْهَا»
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو شخص اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کر دے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے، اس وقت تک اس سے ناراض رہتی ہے، جب تک کہ شوہر اپنی بیوی سے خوش نہ ہو جائے۔‘‘
(صحیح البخاری، بدء الخلق، باب اذا قال احدکم آمین والملائکة فی السماء آمین، ح:۳۲۳۷ ومسلم، النکاح، باب تحریم امتناعها عن فراش زوجها، ح: ۱۴۳۶ واللفظ له)

2. اللہ تعالیٰ کی فوقیت

﴿وَهُوَ القاهِرُ فَوقَ عِبادِهِ﴾ … سورة الأنعام: ١٨
’’اور وہ اپنے بندوں کے اوپر ہے۔‘‘

﴿يَخافونَ رَبَّهُم مِن فَوقِهِم﴾ … سورة النحل: ٥٠
’’وہ اپنے پروردگار سے، جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں۔‘‘

نبی ﷺ نے فرمایا:
« ان الله لَمَّا قَضیُ الْخَلْقَ کَتَبََ عِنْدَهُ فَوْقَ عرشهِ اِنَّ رَحْمَتِی سبقتْ غَضَبِی» ﴿وهو الذی یبدؤا الخلق ثم یعده﴾ (صحیح البخاري، بدء الخلق، باب ماجاء فی : ۳۱۹۴ وصحیح مسلم، التوبة، باب سعة رحمة اللہ تعالٰی وانها تغلب غضبه، ح: ۲۷۵۱)
’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا دیاجو اس کے پاس عرش پر ہے کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘

3. چیزوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھنا

﴿إِلَيهِ يَصعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصّـلِحُ يَرفَعُهُ…﴿١٠﴾ … سورة الفاطر: ١٠
’’اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتے ہیں۔‘‘

﴿تَعرُجُ المَلـئِكَةُ وَالرّوحُ إِلَيهِ…﴿٤﴾ … سورة المعارج: ٤
’’اس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے چڑھتے ہیں۔‘‘

﴿يُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّماءِ إِلَى الأَرضِ ثُمَّ يَعرُجُ إِلَيهِ…﴿٥﴾ … سورة السجدة: ٥
’’وہی آسمان سے زمین تک (کے) ہر کام کا انتظام کرتا ہے، پھر وہ (معاملہ) اس کی طرف چڑھ جاتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی طرف قرآن کے نزول کا ذکر:
﴿لا يَأتيهِ البـطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ﴿٤٢﴾ … سورة فصلت: ٤٢
’’اس پر جھوٹ کا دخل آگے سے ہوتا ہے نہ پیچھے سے (اور یہ کتاب) دانا (اور) خوبیوں والے (اللہ) کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘

﴿وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِكينَ استَجارَكَ فَأَجِرهُ حَتّى يَسمَعَ كَلـمَ اللَّهِ…﴿٦﴾ … سورة التوبة: ٦
’’اور اگر کوئی مشرک پناہ کا طلب گار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے۔‘‘

4. اللہ تعالیٰ کا علو و عظمت

﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الأَعلَى﴾ … سورة الأعلى: ١
’’آپ اپنے سب سے بلند رب کے نام کی تسبیح کریں۔‘‘

﴿وَلا يَـٔودُهُ حِفظُهُما وَهُوَ العَلِىُّ العَظيمُ ﴿٢٥٥﴾ … سورة البقرة: ٢٥٥
’’اور اس کے لیے ان دونوں (آسمان و زمین) کی حفاظت کچھ دشوار نہیں اور وہ بڑا بلند، نہایت عظمت والا ہے۔‘‘

نبی ﷺ کی دعا:
«سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی»
’’پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند و بالا ہے۔‘‘
(سنن ابي داؤد، الصلاة، باب ما یقول الرجل فی رکوعه وسجودہ، ح: ۸۷۱ وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، ح:۲۶۲ وسنن النسائی، الافتتاح باب تعوذ القاریئ… ح:۱۰۰۹)

5. نبی ﷺ کا آسمان کی طرف اشارہ

عرفہ کے دن آپ ﷺ نے فرمایا:
«أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ»
’’کیا میں نے تم تک پہنچا دیا ہے؟‘‘ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے اللہ! تو بھی گواہ ہو جا۔‘‘
(صحیح البخاری، الحج، باب الخطبة ایام منی، ح:۱۷۴۱ وصحیح مسلم، الحج، باب حجة النبیﷺ، ح:۱۲۱۸)

دلائلِ سمعیہ، اجماع، عقل و فطرت سے علو کا ثبوت

اجماع سلف:

سلف صالحین کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ تمام مخلوق سے بلند ہے۔

﴿فَلا تَجعَلوا لِلَّهِ أَندادًا﴾ … سورة البقرة: ٢٢

عقلی دلیل:

علو ایک صفتِ کمال ہے۔ اس کا انکار دراصل اللہ تعالیٰ کو صفتِ نقص سے متصف کرنے کے مترادف ہے، جو کہ باطل ہے۔

فطری دلیل:

فطرت انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ انسان دعا کرتے ہوئے آسمان کی طرف متوجہ ہوتا ہے، ہاتھ اٹھاتا ہے، دل بھی اسی طرف جھکتا ہے۔

«سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی»
(نماز کے سجدے میں مومن یہی کہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا رب بلند ہے۔)

منحرف عقیدہ: ’’اللہ مومن کے دل میں ہے‘‘ – باطل کی وضاحت

ایسا کہنا کہ ’’اللہ مومن کے دل میں ہے‘‘، دو معانی رکھتا ہے:

1. حلول کا عقیدہ (باطل):

اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی ذات دل میں حلول کیے ہوئے ہے، تو یہ باطل عقیدہ ہے۔ اللہ کی شان اس سے بہت بلند ہے۔

2. ذکرِ الٰہی دل میں ہونا (درست):

اگر اس سے مراد ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے، تو یہ درست بات ہے۔ مگر اسے اس انداز میں بیان کرنا چاہیے:

’’اللہ کا ذکر مومن کے دل میں ہوتا ہے۔‘‘

سلف کے راستے کی پیروی ضروری

مومن کو کتاب و سنت، سلف کے اجماع، اور عقل و فطرت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے علو کو ثابت ماننا چاہیے۔ مبہم و گمراہ کن کلمات سے پرہیز لازم ہے۔

﴿وَالسّـبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهـرُ خـلِدينَ فيها أَبَدًا ذلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٠٠﴾ … سورة التوبة: ١٠٠
’’جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں (اور) وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

نتیجہ اور دعا

اللہ تعالیٰ ہمیں سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے، اور اپنے فضل و رحمت سے ہماری ہدایت و مغفرت فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1