استنجاء کے 3 احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 314

سوال:

کیا سنتِ مطہرہ میں استنجاء کی تین اقسام وارد ہوئی ہیں؟

الجواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

استنجاء سے متعلق اقسام اور ان کا شرعی حکم:

نجاست جو سبیلین (پیشاب یا پاخانے کے راستے) سے خارج ہو اور مخرج سے باہر نہ جائے:

◈ ایسی صورت میں استنجاء کرنا سنت ہے۔

نجاست مخرج سے باہر نکل جائے، لیکن اس کی مقدار "درہم” سے کم ہو:

◈ ایسی حالت میں استنجاء کرنا واجب ہے۔

نجاست کی مقدار "درہم” سے زیادہ ہو:

◈ اس صورت میں بھی استنجاء واجب ہے کیونکہ صحیح احادیث سے اس کا وجوب ثابت ہے، جیسے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث:

"أمر بثلاثة أحجار”

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث:

"ونهانا أن نستنجي بأقل من ثلاثة أحجار”

استنجاء کے سنت یا واجب ہونے کا مفہوم:

اگر کوئی شخص کہے کہ استنجاء سنت ہے، اور پھر اس سے یہ مراد لے کہ سنت وہ عمل ہے جسے نبی اکرم ﷺ نے کبھی ترک نہ کیا ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے:

◈ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء سے بغیر پتھر یا پانی کے استعمال کے نکلتے ہوں؟

یہ ایک اہم اصول ہے کہ:

"امر” (نبی کریم ﷺ کا حکم) وجوب پر دلالت کرتا ہے، جب تک کہ کوئی قرینہ صارفہ (وجوب کو سنت یا مباح پر محمول کرنے والی دلیل) موجود نہ ہو۔

نتیجہ:

اس بات کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی اصل نہیں کہ استنجاء کی تین الگ الگ اقسام بیان کی جائیں اور ان کے احکام کو اس طرح تقسیم کیا جائے۔

ایسی تقسیم غور و فکر سے فاسد اور غیر شرعی معلوم ہوتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1