سوال:
کیا ان الفاظ کے ساتھ استغفار کسی حدیث میں آتا ہے “استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ”؟ اگر نہیں، تو کیا ان الفاظ سے استغفار کرنا صحیح ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ اسد اللہ بھمبوی حفظہ اللہ، فضیلۃ الشیخ حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ان الفاظ “استغفر اللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ” کا پورا مجموعہ کسی ایک حدیث میں مکمل شکل میں نہیں ملتا، تاہم ان کے اجزاء مختلف احادیث میں موجود ہیں، جن سے اس دعاء کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
حدیث کے مختلف الفاظ میں تائید
➊ رسول اللہ ﷺ کا کثرت سے استغفار فرمانا
امام نسائیؒ نے السنن الکبریٰ میں روایت کیا:
أخبرنا محمد بن المثنى، حدثنا الوليد، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن إسماعيل بن عبيد الله، عن خالد بن عبد الله بن الحسين قال: سمعت أبا هريرة، يقول: ”مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ“
(السنن الکبریٰ، حدیث نمبر 10215، مسند ابو یعلی 247، صحیح ابن حبان 928، عمل اليوم والليلة لابن السنی 363)
محقق سليم بن عيد الهلالي کہتے ہیں: "اسنادہ حسن”
(عجالۃ الراغب: 1/418)
➋ رسول اللہ ﷺ کی تسبیح و استغفار
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
حدثني محمد بن المثنى، حدثني عبد الأعلى، حدثنا داود، عن عامر، عن مسروق، عن عائشة قالت: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكثر من قول: «سبحان الله وبحمده أستغفر الله وأتوب إليه»…”
[صحيح مسلم 1/351]
➌ مکمل الفاظ کی تائید حدیث میں
سنن ابی داود میں حدیث ہے:
”سمعت بلال بن يسار بن زيد، مولى النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت أبي، يحدثنيه عن جدي، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من قال: أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم، وأتوب إليه، غفر له، وإن كان قد فر من الزحف.”
[سنن أبي داود: 2/85]
➍ حضرت عثمانؓ کا قول
تاریخ المدینہ لابن شبة میں ہے:
”عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَدِمَ الْمِصْرِيُّونَ فَلَقَوْا عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ:۔۔۔ "وَأَنَا أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ…”
[تاريخ المدينة لابن شبة: 3/1136]
➎ اللہ تعالیٰ کا بندے کو معاف فرمانا
ابو ہریرہؓ کی روایت:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن عبداً أذنب ذنباً فقال: رب إني أذنبت ذنباً فاغفره لي…” "قد غفرت لعبدي، فليعمل ما شاء.”
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد: 1/135]
استغفار کا مفہوم
استغفار کا مطلب ہے:
- اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا۔
- اپنے قصوروں کا اعتراف کر کے توبہ کرنا۔
- آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔
یہ توبہ و استغفار مختلف الفاظ سے کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ مفہوم درست ہو۔
سوال میں مذکور الفاظ کا جواز
”أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّيْ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّأَتُوْبُ إِلَيْهِ“
یہ الفاظ مفہوم کے لحاظ سے درست اور جامع ہیں۔
علماء کرام نے ایسے الفاظ تجویز کیے ہیں جو عربی نہ جاننے والوں کے لیے آسان ہوں، اور جن کا مفہوم احادیث سے ثابت ہو۔
علماء کے اقوال
- فضیلۃ الشیخ اسد اللہ بھمبوی حفظہ اللہ: ان الفاظ کا مفہوم صحیح ہے اور یہ الفاظ عوام میں استغفار کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے مشہور ہوگئے ہیں۔ ان سے استغفار کیا جا سکتا ہے۔
- فضیلۃ الشیخ حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ: اولیٰ یہ ہے کہ مسنون الفاظ پڑھے جائیں، لیکن معنیٰ درست ہو تو دیگر الفاظ بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ اس عمل میں توسع ہے۔
- فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ: ان الفاظ کو میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سند تک جاتے دیکھا ہے، باقی علماء بھی اس کی مزید تحقیق کریں۔
نتیجہ
سوال میں ذکر کردہ الفاظ حدیث کے الفاظ بعینہ نہیں ہیں، لیکن ان کا مفہوم متعدد احادیث سے ثابت ہے۔
اس لیے یہ کہنا کہ ان الفاظ سے استغفار کرنا جائز نہیں، درست رویہ نہیں ہے۔
بہتر یہی ہے کہ مسنون دعائیں پڑھی جائیں، لیکن اس کے علاوہ بھی درست معنیٰ رکھنے والے الفاظ سے استغفار کرنا بالکل درست ہے۔
فقط واللہ اعلم بالصواب