اسباب اختیار کرنا مگر حقیقی اعتماد مسبب الاسباب پر رکھنا
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

اسباب اختیار کرنا لیکن اصل اعتماد مسبب الاسباب پر ہونا چاہیے

سوال

اسباب اختیار کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسباب کو اختیار کرنے کی مختلف اقسام ہیں:

پہلی قسم:

ایسا سبب اختیار کرنا جو توحید کے منافی ہو

◈ یہ وہ صورت ہے جب انسان کسی ایسی چیز سے وابستہ ہو جائے جس میں فی الحقیقت کوئی تاثیر ممکن ہی نہ ہو۔
◈ ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ کر اس چیز پر مکمل اعتماد کرنے لگے۔
◈ اس کی مثال قبروں کے پجاریوں کی ہے، جو مصیبت کے وقت قبروں میں مدفون افراد سے مدد طلب کرتے ہیں۔
◈ یہ عمل شرک اکبر کہلاتا ہے، جو انسان کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔
◈ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىهُ النّارُ وَما لِلظّـلمينَ مِن أَنصارٍ ﴿٧٢﴾ … سورة المائدة
"جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔”

دوسری قسم:

صحیح شرعی سبب پر اعتماد کرنا لیکن مسبب کو بھول جانا

◈ انسان کسی درست شرعی سبب کو اپناتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی ذات سے غافل ہو جاتا ہے۔
◈ یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔
◈ تاہم ایسا انسان ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا، کیونکہ اس نے سبب پر بھروسا کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھا ہے۔

تیسری قسم:

سبب کو محض ذریعہ سمجھنا اور اصل اعتماد اللہ پر رکھنا

◈ انسان سبب کو صرف ایک وسیلہ سمجھ کر اختیار کرے اور کامل بھروسا اللہ تعالیٰ پر رکھے۔
◈ اعتقاد یہ ہو کہ یہ سبب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے؛ وہ چاہے تو سبب کو جاری رکھے یا ختم کر دے۔
◈ اس عقیدے کے مطابق سبب کا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی اثر نہیں۔
◈ اس طریقے سے اسباب اختیار کرنا نہ تو توحید کے منافی ہے اور نہ ہی توحید کی کمال حالت کے خلاف ہے۔

اسباب پر انحصار نہیں بلکہ اللہ پر بھروسا

◈ اگرچہ شرعی اور صحیح اسباب موجود ہوں، تب بھی انسان کا اصل بھروسا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا چاہیے۔
◈ مثال کے طور پر، کوئی ملازم اگر مکمل اعتماد اپنی تنخواہ پر کرے اور اللہ تعالیٰ کو نظر انداز کر دے تو یہ بھی شرک کی ایک صورت ہے۔
◈ لیکن اگر اس کا عقیدہ یہ ہو کہ تنخواہ محض ایک سبب ہے اور اصل رزق دینے والا اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے، تو یہ توکل کے خلاف نہیں۔
◈ رسول اللہ ﷺ بھی اسباب کو اپناتے تھے، مگر ان کا اصل بھروسا مسبب الاسباب یعنی اللہ عزوجل کی بابرکت ذات پر ہی ہوتا تھا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1