سوالات اور جوابات کا تفصیلی شرعی جائزہ
سوال نمبر 1:
ایک ڈاکٹر/حکیم امیروں سے 20 روپے میں دوا بیچتا ہے، جبکہ غریبوں کو وہی دوا یا نسخہ 10 روپے میں دیتا ہے، کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
جی ہاں، یہ عمل بالکل درست ہے۔ کسی شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ مالداروں سے مکمل قیمت وصول کرے اور غریبوں کو وہی چیز کم قیمت پر یا حتیٰ کہ بالکل مفت میں دے۔ شریعت میں اس کی اجازت ہے بلکہ یہ عمل ہمدردی، احسان اور نیکی پر مبنی ہے۔
سوال نمبر 2:
نقد قیمت پر شہد 100 روپے ہے، لیکن ایک دوست وہی شہد ادھار پر 150 روپے میں بیچتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟ جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے تو وہ دلیل دیتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ادھار پر زیادہ اونٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
جواب:
یہ معاملہ دراصل سود کی ایک شکل ہے اور شرعاً ناجائز ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»
(سنن ابى داؤد، كتاب البيوع، باب فى من باع بيعتين فى بيعة واحدة)
’’جو شخص ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے تو اسے کم قیمت پر بیع حاصل ہو گی یا وہ سود میں مبتلا ہو گا۔‘‘
جو دلیل دی جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ادھار پر زیادہ اونٹ دینے کا وعدہ فرمایا تھا، وہ ثابت نہیں۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت جسے ابوداود میں نقل کیا گیا:
«فَکَانَ يَأْخُذُ الْبَعِيْرَ بِالْبَعِيْرَيْنِ إِلَی إِبِلِ الصَّدَقَةِ»
’’آپ دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے صدقہ کے اونٹوں تک‘‘
اس کے بارے میں محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحقیق مشکوٰۃ میں فرمایا:
«وَإِسْنَادُهُ ضَعِيْفٌ»
یعنی اس روایت کی سند ضعیف (کمزور) ہے۔
جبکہ ابن ماجہ میں صحیح روایت ہے:
«عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ : لاَ بَأْسَ بِالْحَيَوانِ وَاحِدًا بِاثْنَيْنِ يَدًا بِيَدٍ وَکَرِهَهُ نَسِيْئَةً»
’’ایک جانور کے بدلے دو جانور نقد لینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن نبی کریم ﷺ نے ادھار پر (ایسا لین دین) مکروہ قرار دیا۔‘‘
لہٰذا، ادھار کی صورت میں قیمت بڑھا دینا سود کی ایک شکل ہے اور ناجائز ہے۔
سوال نمبر 3:
ہمارے ہاں آڑھتی حضرات آڑھت (کمیشن) بھی لیتے ہیں اور زمین پر بکھری ہوئی جنس بھی رکھ لیتے ہیں، کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب:
اگر یہ عمل سود یا اکل مال بالباطل (یعنی ناجائز طریقے سے کسی کا مال ہڑپ کرنا) کی کسی شکل میں آتا ہے تو پھر یہ ناجائز ہے۔ اور اگر اس میں ایسی کوئی خرابی نہیں، تو جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب