اخلاص کی حقیقت اور عبادت میں نیت کی اہمیت: دنیوی و اخروی اثرات
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

عبادت کا مقصود اللہ کا قرب اور جنت کا حصول ہونا چاہیے۔

اخلاص کا کیا مفہوم ہے؟

سوال

اور اگر عبادت کا مقصد کوئی اور چیز ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ بندے کی عبادت کا مقصد صرف اللہ کا قرب حاصل کرنا اور جنت کی کامیابی پانا ہو۔ اگر عبادت کا ارادہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے کیا جائے تو اس کی مختلف صورتیں ہیں، جن کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے:

➊ عبادت کا مقصد غیر اللہ کا تقرب یا لوگوں کی تعریف حاصل کرنا

  • اگر کوئی شخص عبادت اس نیت سے کرے کہ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرے یا لوگوں سے تعریف و تحسین پائے تو ایسا عمل ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ یہ شرک میں شامل ہے۔
  • حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:

«اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِيْهِ مَعِیَ غَيْرِی تَرَکْتُهُ وَشِرْکَهُ» (صحیح مسلم، الزهد والرقائق، باب تحریم الریاء، ح: ۲۹۸۵)

یعنی: ’’میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے ساتھ کسی اور کو بھی شریک کر لے تو میں اس عمل اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘

➋ عبادت کا مقصد دنیاوی مفادات جیسے اقتدار، منصب یا مال کا حصول

  • اگر کوئی عبادت اس نیت سے کرے کہ دنیاوی مال یا اقتدار حاصل ہو اور اللہ کا قرب مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں ہو جاتا ہے۔
  • اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿مَن كانَ يُريدُ الحَيوةَ الدُّنيا وَزينَتَها نُوَفِّ إِلَيهِم أَعمـلَهُم فيها وَهُم فيها لا يُبخَسونَ﴾ ﴿أُولـئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبـطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ﴾ (سورة هود: ۱۵-۱۶)

یعنی: ’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتے ہیں، ہم ان کے اعمال انہیں دنیا میں ہی مکمل دیتے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں، اور جو کچھ انہوں نے دنیا میں کیا وہ برباد ہو جائے گا اور ان کے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔‘‘

فرق

  • پہلی قسم میں انسان لوگوں سے تعریف چاہتا ہے کہ وہ اسے اللہ کی عبادت کرنے والا کہہ کر سراہیں۔
  • دوسری قسم میں انسان کو لوگوں کی تعریف کی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ محض دنیاوی فائدے کا مقصد رکھتا ہے۔

➌ عبادت کے ساتھ کسی دنیوی غرض کا ارادہ

  • اگر کوئی شخص عبادت کرتے ہوئے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی دنیوی فائدہ بھی مدنظر رکھے، مثلاً:
    • طہارت کے ساتھ جسمانی صفائی اور تازگی کا ارادہ کرنا۔
    • نماز کے ساتھ جسمانی ورزش کا خیال رکھنا۔
    • روزہ کے ساتھ وزن کم کرنے یا جسمانی صفائی کا مقصد رکھنا۔
    • حج کے ساتھ مشاعر مقدسہ یا حاجیوں کی زیارت کا ارادہ کرنا۔
  • تو ایسی صورت میں خالص اجر میں کمی واقع ہوتی ہے، اگرچہ اصل نیت عبادت ہی کی ہو۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم﴾ (سورة البقرة: ۱۹۸)

یعنی: ’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم (حج کے دوران) اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔‘‘

اگر عبادت کی نیت غالب نہ ہو

  • اگر عبادت کی نیت غالب نہ ہو اور دنیوی غرض زیادہ غالب ہو تو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملے گا۔
  • ایسے شخص کے لیے یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ گناہگار ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمِنهُم مَن يَلمِزُكَ فِى الصَّدَقـتِ فَإِن أُعطوا مِنها رَضوا وَإِن لَم يُعطَوا مِنها إِذا هُم يَسخَطونَ﴾ (سورة التوبة: ۵۸)

مزید وضاحت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

"یا رسول اللہ! ایک آدمی جہاد کا ارادہ رکھتا ہے مگر دنیاوی مال کا بھی خواہشمند ہے۔”

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَا اَجْرَ لَهُ» (سنن ابی داؤد، الجهاد، باب فیمن یغزو ویلتمس الدنیا، ح: ۲۵۱۶ وسنن النسائی، الجهاد، باب من غزا یلتمس الاجر والذکر، ح: ۳۱۴۲)

یعنی: ’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘

اس نے تین بار سوال دہرایا اور ہر بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا۔

صحیحین میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا، اَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ اِلٰی مَا هَاجَرَ اِلَيْهِ» (صحیح البخاري، بدء الوحی، باب کیف کان بداءالوحی الی رسول اللہﷺ، ح:۱ وصحیح مسلم، الامارة، باب قولهﷺ انما الاعمال بالنیة… ح:۱۹۰۷، واللفظ لمسلم)

➍ اگر عبادت اور غیر عبادت کی نیت مساوی ہو

  • اگر کسی کے دل میں عبادت اور دنیاوی غرض دونوں یکساں ہوں تو یہ محل نظر ہے۔
  • زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ایسی صورت میں اسے آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا۔

فرق

  • پہلی قسم میں دنیوی فائدہ خودبخود اور قدرتی طور پر حاصل ہوتا ہے۔
  • جبکہ اس قسم میں دنیوی فائدہ ارادے اور نیت کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔

➎ نیت کا معیار

  • اگر کسی عمل میں اللہ کی عبادت کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو تو عبادت کی نیت غالب ہے۔
  • اگر عبادت کے علاوہ بھی کوئی اور مقصد ہو تو غیر عبادت کی نیت غالب سمجھی جائے گی۔

➏ نیت کی اہمیت

  • نیت دل کے ارادے کا نام ہے اور اس کی اہمیت بہت بڑی ہے۔
  • نیت ہی انسان کو صدیقین کے مرتبے تک پہنچا سکتی ہے اور نیت ہی انسان کو پستی میں گرا سکتی ہے۔
  • بعض سلف کا قول ہے: ’’اخلاص کی وجہ سے مجھے اپنے نفس کے ساتھ جس قدر جہاد کرنا پڑا، کسی اور چیز کی وجہ سے اتنا جہاد نہیں کرنا پڑا۔‘‘

➐ دعا

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو خالص نیت اور صالح اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1