احکام و فضائل صیام رمضان المبارک

احکام و فضائل صیام رمضان المبارک
——————

154۔ صوم کی فرضیت :
صوم اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [2-البقرة:183]
’’ اے ایمان والو ! تم پر صوم فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ “
صوم کی فرضیت ہجرت کے دوسرے سال ہوئی، رمضان کے پورے مہینہ کا صوم ہر مسلمان عاقل، بالغ، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ 155۔ فضائل رمضان :
رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کا نزول ہوا جو قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
إذا دخل رمضان فتحت أبواب السماء . و فى رواية . فتحت أبواب الجنة و غلقت أبواب جهنم و سلسلت الشياطين . و فى رواية . فتحت أبواب الرحمة [صحيح البخاري : كتاب الصوم باب 5، صحيح مسلم : كتاب الصيام باب بيان فضل رمضان ]
’’ رمضان کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ۔ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

156۔ صوم کی فضیلت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صام رمضان إيمانا و احتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه [صحيح البخاري : كتاب الصوم باب 6، صحيح مسلم كتاب الصيام باب فضل القيام ]
’’ جس نے رمضان کے صوم ایمان و یقین کے ساتھ اجر و ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ “
ایک روایت میں ہے :
كل عمل ابن آدم يضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع ماءة ضعف قال الله تعالىٰ إلا الصوم فإنه لي و أنا أجزي به يدع شهوته و طعامه من أجلي، للصائم فرحتان : فرحة عند فطره و فرحة عند لقاء ربه و لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك و الصيام جنة [صحيح مسلم : كتاب الصيام باب فضل القيام ]
’’ انسان کے ہر نیک عمل پر ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، لیکن صوم کا معاملہ دوسرے اعمال سے مختلف ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بندہ صرف میرے لیے ہی صوم رکھتا ہے اس لیے اس کا بدلہ میں ہی دوں گا، وہ محض میری خاطر اپنی خواہشاتِ نفسانی اور کھانے پینے کی چیزوں کو ترک کر دیتا ہے، صائم کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری جب اس کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا۔ اس کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے بھی بڑھ کر ہے۔ صوم برے کاموں اور عذاب الٰہی سے بچاؤ اور ڈھال ہے۔

157۔ رمضان کے چاند کی رویت :
رمضان کے صوم کے لیے 29 شعبان کو چاند دیکھنے کی کوشش کی جائے، اگر چاند نظر آ جائے تو صوم شروع کر دیا جائے ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کرنے ضروری ہیں۔ شک کے دن کے صوم کی سخت ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من صام اليوم الذى يشك فيه الناس فقد عصيٰ أبا القاسم [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب3 ]
’’ جس نے شک والے دن صوم رکھا اس نے ابوالقاسم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی۔ “
رمضان کے چاند کے ثبوت کے لیے ایک معتبر موحد مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ کافر، مشرک اور غیر مسلم کی گواہی قابلِ قبول نہ ہو گی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال إني رأيت الهلال يعني هلال رمضان قال : أتشهد أن لا إله إلا الله قال : نعم، قال أتشهد أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال : نعم، قال يابلال أذن فى الناس أن يصومواغدا [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب7 ]
’’ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سوال کیا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے کہا: ہاں، آپ نے دریافت فرمایا کیا تو محمد کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہے، اس نے کہا: ہاں، اس پر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ کل صوم ہے۔ “

158۔ عید الفطر کے چاند کی رویت :
عیدالفطر اور عیدالاضحی کے چاند کے لیے دو معتبر مسلمان مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔ سنن ابوداؤد کی روایت ہے :
عن رجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قال : اختلف الناس فى آخر يوم من رمضان فقدم أعرابيان فشهداعند النبى صلى الله عليه وسلم بالله لأهلا الهلال أمس عشية فأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس أن يفطروا . و زاد فى رواية . و أن يغدوا إلى مصلاهم [سنن أبوداؤد : كتاب الصوم باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال ]
’’ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے رمضان کے آخری دن کی تعیین میں اختلاف کیا، اسی اثنا میں دیہات کے دو باشندوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ کے نام سے یہ شہادت دی کہ انہوں نے کل شام کو چاند دیکھا ہے۔ اس شہادت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کا حکم دے دیا۔ اور ایک روایت میں یہ اضافہ ہے۔ کہ لوگ صبح عیدگاہ جائیں۔ “
سنن ابوداؤد میں ایک اور روایت ابومالک اشجعی سے ملتی ہے کہ ان سے حسین بن حرث جدلی نے روایت کیا ہے :
أن أمير مكة خطب ثم قال : عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ننسك للرؤية فإن لم نره و شهد شاهداعدل نسكنا بشهادتهما . [سنن أبوداؤد : كتاب الصوم، باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال ]
’’ امیر مکہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم چاند دیکھ کر ہی قربانی کریں گے اور اگر ہم چاند نہ دیکھ پائیں اور دو ثقہ گواہ رویت کی شہادت دیں تو ہم ان کی شہادت مان کر قربانی کریں۔ “

159۔ دور کی رویت :
مسافتِ بعیدہ کی رویت معتبر ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر مشرق میں رویت ثابت ہو گی تو مغرب میں ہر جگہ رویت معتبر ہو گی، لیکن اگر مغرب میں رویت ثابت ہوئی تو مشرق میں تقریباً پانچ سو میل (833 کلومیٹر) تک اس کا اعتبار ہو گا، کیو ں کہ علماء فلکیات کے نزدیک 500 میل سے زیادہ کی مسافت میں مطلع مختلف ہو جاتا ہے۔

160۔ اسلام کی سادگی کا تقاضا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
إنا أمة أمية لانكتب و لانحسب [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب 13، صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب وجوب صيام برؤية الهلال ]
’’ یعنی ہم ایک فطری ملت ہیں، ہم مہینوں وغیرہ کا اعتبار کرنے میں حساب و کتاب کے مکلف نہیں ہیں۔ “
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں کریب سے روایت کیا ہے کہ انہیں ام الفضل بنت الحارث نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا۔ کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور میں نے ام الفضل کی ضرورت پوری کی اور میں شام میں موجود تھا کہ رمضان کے چاند کی رویت ہو گئی، چنانچہ جمعہ کی رات میں میں نے چاند دیکھا، پھر رمضان کے آخر میں مدینہ آیا تو مجھ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سوال کیا، پھر چاند کا ذکر کیا اور کہا کہ تم نے چاند کب دیکھا تھامیں نے کہا کہ جمعہ کی رات کو، تو انہوں نے کہا کہ کیا تم نے خود چاند دیکھا ؟ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے دیکھا اور لوگوں نے دیکھا اور سب نے صوم رکھا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے (جو اولی الأمر تھے ) بھی صوم رکھا۔ اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا، لہٰذا ہم تو تیس دن پورے کریں گے، یا ہم چاند دیکھ لیں، میں نے عرض کیا کہ کیا معاویہ رضی اللہ عنہ کی رویت اور صوم پر آپ اکتفا نہیں کریں گے تو عبداللہ بن عباس نے جواب دیا کہ نہیں، ہمیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم : أبوداؤد كتاب الصيام باب إذا رئي الهلال قبل الأخرين ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے :
صوموالرؤيته و أفطروالرؤيته [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب وجوب صيام رمضان برؤية الهلال ]
’’ یعنی چاند دیکھ کر صوم رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ “
مندرجہ بالانصوص نیز اسلام کی سادگی اور اس کا يسر اس بات کا متقاضی ہے کہ رویت ہلال میں اعتبار صرف قرب و جوار کا کیا جائے۔

161۔ نیت :
عبادت کی صحت کے لیے نیت شرعی شرط ہے اس لیے فریضۂ صیام کے لیے صبح صادق سے پہلے نیت کر لینا ضروری ہے، البتہ نفلی صوم کی نیت آفتاب ڈھلنے سے پہلے کر لی جائے تو بھی کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلاصيام له [سنن ترمذي : كتاب الصيام، باب33 ]
’’ جس نے فجر سے پہلے صوم کی نیت نہیں کی اس کا صوم نہیں ہو گا۔ “
عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :
دخل على النبى صلى الله عليه وسلم ذات يوم فقال هل عندكم شيئ فقلنالاقال فإني اذا صائم [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب جواز فطر الصائم نفلا ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ ہم نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تب میں صائم ہوں۔ “
نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں۔ زبان سے نیت کے مروجہ الفاظ کہنے کا صحیح حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔

162۔ سحری :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تسحروافإن فى السحور بركة [صحيح البخاري و صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب فضل السحور ]
’’ سحری کھایا کرو سحری کھانے میں برکت ہے۔ “
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فصل مابين صيامناو صيام أهل الكتاب أكلة السحر [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب فضل السحور ]
’’ ہمارے اور اہل کتاب کے صوم میں فرق یہ ہے کہ وہ سحری کھائے بغیر صوم رکھتے ہیں اور ہم سحری کھا کر رکھتے ہیں۔ “
سحری کا مسنون وقت اور طریقہ یہ ہے کہ صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے ہلکا کھاناکھا لیاجائے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
تسحرنامع النبى صلى الله عليه وسلم ثم قام إلى الصلوٰة قلت : كم كان بين الأذان و السحور قال قدر خمسين آية [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب9 ]
’’ اللہ کے رسول کی سحری اور صلاۃ فجر کے درمیان فاصلہ پچاس آیات کے بقدر ہوا کرتا تھا۔ “

163۔ افطار :
سورج غروب ہو جانے کے بعد بلا کسی تاخیر کے افطار کر لینا چاہئے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لايزال الناس بخير ماعجلوا الفطر [صحيح البخاري : كتاب الصوم، باب45، صحيح مسلم كتاب الصيام باب تعجيل الفطر ]
’’ جب تک لوگ افطار میں جلدی کریں گے، بھلائی میں رہیں گے۔ “
حدیث قدسی میں ہے :
أحب عبادي إلى أعجلهم فطرا . [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب 13 ]
’’ میرے بندوں میں میرا سب سے محبوب وہ ہے جو صوم افطار کرنے میں جلدی کرتا ہے “۔
یعنی آفتاب غروب ہوتے ہی افطار کر لیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈوبتے ہی صلاۃ مغرب سے پہلے تازہ کھجور سے افطار کرتے، اگر تازہ کھجور نہ ملتی تو خشک سے افطار کرتے اور خشک نہ پاتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔ سلمان بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطار کے متعلق ارشاد فرمایا :
إذا أفطر أحدكم فليفطر على تمر فإنه بركة فإن لم يجد فليفطر على ماء فإنه طهور [سنن الترمذي : كتاب الصيام، باب 10 ]
’’ جب کوئی افطار کرنا چاہے تو کھجور سے افطار کرے کیوں کہ وہ باعثِ خیر و برکت ہے، اگر کھجور نہ پائے تو پانی سے کرے کیوں کہ وہ طاہر و مطہر ہے۔ “

164۔ افطار کی دعا :
افطار کے وقت یہ دعا پڑھنا چاہئے :
ذهب الظمأ و ابتلت العروق و ثبت الأجر إن شاء الله [أبوداؤد : كتاب الصوم، باب القول عند الإفطار ]
’’ پیاس جاتی رہی، رگیں تر ہو گئیں اور ثواب لازم و ثابت ہو گیا اگر اللہ نے چاہا۔ “

165۔ افطار کرانے کا ثواب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من فطر صائماكان له مثل أجره غير أنه لاينقص من اجر الصائم شيئا [سنن ترمذي : كتاب الصيام باب 82 ]
’’ جو شخص کسی صائم کو افطار کرائے گا اسے اس کے برابر اجر ملے گا بغیر اس کے کہ صائم کے اجر میں کچھ کمی واقع ہو۔ “

166۔ وہ امور جن سے صوم ٹوٹ جاتا ہے :
➊ دانستہ قصداً کھانا، پینا، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔
➋ دانستہ جماع کرنا۔
➌ قصداً قے کرنا تھوڑی ہو یا زیادہ۔
➍ حقہ، بیڑی، سگریٹ پینا۔
➎ پان کھانا۔
➏ مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی یا دوا چڑھانا، یہاں تک کہ حلق کے نیچے اتر جائے۔
➐ کھانا پینا یا جماع کرنا یہ خیال کر کے کہ آفتاب غروب ہو گیا ہے حالانکہ آفتاب غروب نہیں ہوا تھا۔
➑ کھانا، پینا یا جماع کرنا یہ سمجھ کر کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے حالانکہ صبح ہو چکی تھی۔
➒ منہ کے علاوہ کسی زخم کے راستہ سے نلکی کے ذریعہ غذا یا دوا پہنچانی۔
➓ حقنہ کرنا (ENAEMA) (پیٹ صاف کرنے کے لیے پاخانہ کے سوراخ (مقعد) سے پیٹ میں دوا چڑھانا۔ )
ان سب صورتوں میں ٹوٹے ہوئے صوم کی قضا ضروری ہے اور بیوی سے دانستہ صحبت (جماع) کر لینے کی صورت میں قضا کے ساتھ کفارہ دینا بھی ضروری ہے، کفارہ ایک مسلمان لونڈی یا غلام کا آزاد کرنا ہے، اگر اس کی قدرت نہ ہو یا اس کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو پے در پے ساٹھ صوم رکھے اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔

167۔ وہ امور جن سے صوم نہیں ٹوٹتا :
1۔ تر یا خشک مسواک دن کے کسی حصہ میں بھی کرنا۔
2۔ سرمہ لگانا اور آنکھ میں دوا ڈالنی۔
3۔ سر یا بدن میں تیل ملنا۔
4۔ خوشبو لگانا۔
5۔ سر پر کپڑا تر کر کے رکھنا۔
6۔ فصد کرانا۔ رگ کھول کر اس سے طبی ضرورت کے تحت خون نکلوانا۔
7۔ پچھنا لگوانا، بشرطیکہ کمزوری کا خوف نہ ہو۔
8۔ انجکشن لگوانا، جو قوت اور غذا کا کام نہ دے۔
9۔ ضرورت کے وقت ہنڈیا کا نمک چکھ کر فوراً تھوک دینا اور کلی کرنا۔
10۔ صبح صادق کے بعد جنابت کا غسل کرنا۔
11۔ مرد کا بیوی سے صرف بوس و کنار کرنا بشرطیکہ اپنے کو قابو میں رکھ سکتا ہو اور جماع واقع ہو جانے کا خوف نہ ہو۔
12۔ دن میں احتلام ہو جانا۔
13۔ عورت کو دیکھ کر منی کا انزال ہو جانا۔
14۔ خود بخود قے ہو جانا خواہ تھوڑی ہو یازیادہ۔
15۔ تالاب وغیرہ میں غسل کرنا بشرطیکہ غوطہ لگانے کی صورت میں ناک یامنہ کے ذریعہ حلق کے اندر پانی نہ جائے۔
16۔ ناک میں پانی ڈالنا بغیر مبالغہ کے، ناک کے رینٹھ کا اندر ہی اندر حلق کے راستہ اندر چلا جانا۔
17۔ کلی کرنا بشرطیکہ مبالغہ نہ کرے۔
18۔ کلی کرنے کے بعد منہ میں پانی کی تری کا تھوک کے ساتھ اندر چلا جانا۔
19۔ مکھی کا حلق میں چلا جانا۔
20۔ بلامبالغہ استنشاق (ناک صاف کرنے کے لیے ناک میں پانی ڈال کر اسے اندر پہنچانا) کی صورت میں بغیر قصد و ارادہ پانی کا ناک سے حلق کے اندر اتر جانا۔
21۔ منہ میں جمع شدہ تھوک کو پی جانا مگر ایسا نہ کرنا بہتر ہے۔
22۔ مسوڑھے کے خون کا تھوک کے ساتھ اندر چلا جانا۔
23۔ کلی کرتے وقت بلا قصد و ارادہ پانی کا حلق میں اتر جانا۔
24۔ ذَکر (پیشاب کے راستہ) میں پچکاری کے ذریعہ دوا وغیرہ داخل کرنا۔
25۔ بھول کر کھا پی لینا اور بیوی سے صحبت کر لینا۔
(الف) من نسي وهوصائم فأكل أو شرب فليتم صومه فإنما أطعمه الله و سقاه [صحيحين ]
’’ جو صائم بھول کر کھا پی لے وہ اپنا صوم پورا کرے۔ اللہ نے اس کو کھلایا پلایا ہے۔ “
یعنی بھول کر کھاپی لینے سے صوم نہیں ٹوٹے گا اور نہ اس کی قضا کرنی ہو گی۔
(ب) من أفطر فى شهر رمضان ناسيافلاقضاء عليه و لاكفارة [ابن خزيمه، حاكم، ابن حبان ]
’’ جس نے رمضان کے مہینہ میں بھول کر افطار کر لیا اس کے اوپر نہ قضا ہے نہ کفارہ۔ “
مگر بھول کر جماع یا کھانے کی صورت میں جب یاد آ جائے فوراً چھوڑ دینا چاہئے۔
26۔ غبار، دھوئیں یا آٹے کا اڑ کر حلق کے اندر چلا جانا۔
27۔ موچھوں پر تیل لگانا۔
28۔ کان میں تیل یا پانی ڈالنا اور سلائی داخل کرنا۔
29۔ دانت میں اٹکے ہوئے گوشت یا کھانے کا ٹکڑا جو محسوس نہ ہو اور منتشر ہو کر رہ جائے حلق کے اندر چلا جانا۔

168۔ شرعی رخصت :

اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا بیمار ہو تو اس کے لیے شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ رمضان میں صوم نہ رکھے بلکہ بعد میں قضا کر لے۔ ارشاد باری ہے :
فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ [البقرة : 184 ]
’’ تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو، تو وہ اپنے صوم رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں پورے کرے۔ “
نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إن الله عزوجل وضع عن المسافر شطر الصلوٰة و الصوم [ النسائي : كتاب الصيام، باب وضع الصيام للمسافر ]
’’ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے آدھی صلاۃ معاف کر دی ہے اور رمضان میں صوم ترک کر کے دوسرے دنوں میں قضا کی اجازت دے دی ہے۔ “
بڑھاپے کی وجہ سے جو لوگ انتہائی کمزور ہو گئے ہیں اور کمزوری کے باعث صوم رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے یا صوم کی صورت میں اتنی کمزوری ہو جاتی ہو کہ ان کے لیے اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے تو شریعت کی طرف سے اجازت ہے کہ وہ صوم نہ رکھیں اور ہر صوم کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں، قرآن کریم میں ہے :
وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ
اس آیت کی بابت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
هي للشيخ الكبير و المرأة الكبيرة لايستطيعان أن يصومافليطعمامكان كل يوم مسكينا [صحيح البخاري : كتاب التفسير سوره 2 باب 25 ]
یعنی ’’ یہ آیت بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے جو صوم کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو انہیں ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاناچاہئے۔ “

169۔ میت کے صوم کی قضا :

ماہ رمضان کا مسافر یا بیمار اگر رمضان کے بعد اس قابل ہو گیا کہ چھوٹے ہوئے صیام کی قضا کر سکے لیکن اس نے قضا نہیں کی، پھر بیمار ہو کر مر گیا تو اس میت کے چھوٹے ہوئے صیام کی قضا اس کے ولی کے ذمہ ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من مات و عليه صيام صام عنه وليه [صحيح بخاري : كتاب الصيام 43، صحيح مسلم : كتاب الصيام باب فضائل الصوم عن الميت ]
لیکن وہ مسافر یا بیمار جو رمضان کے بعد قضا کا موقع نہ پا سکا اور اس کی وفات ہو گئی تو اس کے ولی پر قضا واجب نہیں ہے۔

احکام و فضائل صیام رمضان المبارک ، تراویح ، لیلۃ القدر ، اعتکاف ، صدقۂ فطر
————–

170۔ تراویح :
تراویح، تہجد، قیام رمضان، قیام اللیل، صلاۃ الوتر پانچوں ایک ہی عبادت ہیں اور عشاء کے بعد سے لے کر سحری کے وقت تک پڑھی جا سکتی ہیں۔ ان کا جماعت کے ساتھ پڑھنا، تنہا مسجد یا گھر میں آخر رات میں پڑھنے سے افضل ہے۔ تراویح کی رکعات کی بابت عائشہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت نص صریح ہے :
عن أبى سلمة أنه سأل عائشة كيف كان صلوٰة رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رمضان فقالت : ماكان يزيد فى رمضان ولافي غيره على إحدي عشرة ركعة [صحيح البخاري : كتاب صلوٰة التراويح باب 1، صحيح مسلم : كتاب صلوٰة المسافرين و قصرهاباب صلوٰة الليل ]
’’ ابوسلمہ سے مروی ہے کہ انہو ں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ کیسی تھی تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ “
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :
صلي بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فى شهر رمضان ثمان ركعات و الوتر [ابن خزيمة : كتاب الصلوٰة باب ذكر الدليل بأن الوتر ليس بفرض ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو رمضان کے مہینہ میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائی۔ “
بیس رکعات کی کوئی روایت یا اثر صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے دور میں جب تراویح باجماعت کا حکم ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو دیا تو گیارہ رکعت ہی کا حکم دیا تھا۔ [مؤطا امام مالك كتاب الصلوة باب ماجاء فى قيام رمضان]
صلاۃ التراویح میں بھی دوسری صلاۃ کی طرح قرآن نہایت سکون اور ٹھہراؤ کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔ ختم قرآن کی فکر میں قرآن کی قرأت میں جلد بازی صحیح نہیں ہے۔

171۔ لیلۃ القدر :
لیلۃ القدر بڑی عزت و حرمت کی رات ہے۔ اسی رات میں اللہ کا آخری کلام قرآن مجید لوح محفوظ سے سماء دنیا کی طرف اترا۔ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ ارشاد باری ہے :
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ٭ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ٭ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ٭ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ ٭ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [القدر : 1۔ 5 ]
’’ یقیناًً ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل فرمایا، آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (میں ہر کام )کے سرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک (رہتی ہے )۔ “
اس لیے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس رات میں تسبیح و تہلیل، ذکر و عبادت، تلاوتِ قرآن اور صلاۃ تراویح کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کرے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں کثرت سے :
اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني [مسند أحمد، مسند عائشه باب 17 ]
’’ اے اللہ تو بڑا معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے، پس میرے گناہوں کو معاف فرما دے۔ “
پڑھنے کی تعلیم دی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر میں شبِ قدر پاؤں تو کیا پڑھوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا سکھائی۔
لیلۃ القدر جو اتنی فضیلت والی رات ہے اس کو پانے کے لیے آدمی کی تلاش کب ہو اس بارے میں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا جائے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے درج ذیل حدیث مروی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یوں ہیں :
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تحرواليلة القدر فى العشر الأواخر من رمضان [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر و الحث على طلبها ]
’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ “
جب کہ صحیح بخاری میں طاق راتوں کی صراحت ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : تحرواليلة القدر فى الوتر من العشر الأواخر من رمضان [صحيح البخاري : كتاب فضل ليلة القدر باب تحري ليلة القدر فى الوتر من العشر الأواخر ]
’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ “
نیز ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی ایک روایت یوں مروی ہے :
. . . قال (النبي صلى الله عليه وسلم) إني أريت ليلةالقدر ثم أنسيتهافالتمسوهافي العشر الأواخر فى الوتر . . . الحديث [صحيح البخاري : كتاب فضل ليلة القدر، باب التماس ليلة القدر فى السبع الأواخر، صحيح مسلم : كتاب الصيام باب فضل ليلة القدر و الحث على طلبها ]
’’ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر (رات کی تعیین کے ساتھ) دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی (بھلائے جانے کاسبب دو آدمیو ں کا جھگڑا تھا جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے ) لہٰذا تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ “
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر رات کی تعیین کے بغیر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے لہٰذا اسے تمام طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہئے۔ بعض لوگوں نے اس کو ستائیسویں رات کے ساتھ خاص کر رکھا ہے جو کسی طور بھی صحیح نہیں، بعض احادیث میں ستائیسویں رات کا تذکرہ آتا ضرور ہے لیکن یہ ویسے ہی ہے جیسے دیگر روایات میں دوسری راتوں کا تذکرہ ہے۔ نیز ممکن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کسی سال لیلۃ القدر ستائیسویں رات کو ہوئی ہو۔ لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات کو ہی ہوتی ہے درست نہیں۔ اور مذکورہ فرامین رسول کی روشنی میں آخری عشرہ کی تمام طاق راتوں میں اس کی تلاش ہونی چاہئے۔
آخری عشرہ میں شب بیداری کی مروجہ صورتیں یعنی وعظ و تقریر کا اہتمام، شبینے، صلوۃ التسبیح باجماعت، دعاء ختم قرآن کا اہتمام، چراغاں اور زیادہ لائٹیں جلانا، اس موقع پر شیرینی کی تقسیم وغیرہ کا ثبوت خیر القرون میں نہیں بلکہ ائمہ سلف سے ان چیزوں کی ممانعت منقول ہے۔ امام ابوبکر محمد بن ولید طرطوشی (متوفی 520ھ) لکھتے ہیں :
لم يرووافي شئ من ذلك ما أحدثه الناس من هذه البدع نصب المنابر عند ختم القرآن و القصص وغيره ابل قد حفظ النهي عن ذلك [كتاب الحوادث و البدع 52 ]
’’ یعنی محدثین نے کتب ستہ وغیرہ میں ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی کہ رمضان میں ختم قرآن کے موقع پر وعظ کیے جائیں اور اس کے بعد بلند آواز سے لمبی لمبی دعائیں کی جائیں بلکہ ائمۂ سلف سے تو ان چیزوں کی ممانعت منقول ہے۔ “

172۔ اعتکاف :
عبادت کی نیت سے مسجد میں گوشہ نشین ہونا اعتکاف کہلاتا ہے، رمضان کے پورے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتي توفاه الله عزوجل ثم اعتكف أزواجه من بعده [ صحيح البخاري أبواب الاعتكاف باب 1، صحيح مسلم كتاب الاعتكاف ]
یعنی ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے آخری دہے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے تاآنکہ آپ وفات پا گئے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف فرماتی تھیں۔ “
جو شخص رمضان کے آخری دہے میں اعتکاف کرنا چاہتا ہو اسے بیسویں رمضان کو دن کے آخری حصے میں آفتاب غروب ہونے سے پہلے مسجد میں پہنچ جانا چاہئے اور اکیسویں تاریخ کی رات مسجد میں گزارنی چاہئے، مرد، عورتیں، نابالغ بچے بھی اعتکاف کر سکتے ہیں، لیکن عورتوں کو شوہر کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ اعتکاف مسجد میں کرنا چاہئے، عورت بھی مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے مگر اس کے لیے شوہر یا ذی محرم کا ہونا ضروری ہے۔

173۔ اعتکاف کے ممنوعات :

بیوی سے بوس و کنار اور صحبت کرنا، جنازہ اٹھانے یا صلاۃ جنازہ پڑھنے یا بیمار کی تیمارداری یاعیادت کرنے کے لیے نکلنا، لیکن اگر معتکف قضاء حاجت کے لیے باہر جائے اور راستہ میں کوئی بیمار مل جائے تو اس سے حال چال پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
السنة على المعتكف أن لايعود مريضاو لايشهد جنازة و لايمس امرأة و لايباشرهاو لايخرج لحاجة إلالمالابد منه [أبوداؤد، كتاب الصيام باب المعتكف ]
یعنی ’’ معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ کسی بیمار کی عیادت نہ کرے اور نہ کسی جنازہ میں حاضر ہو اور نہ عورت کو چھوئے اور نہ مباشرت کرے، نہ ناگزیر ضرورتوں (مثلاً پیشاب پاخانہ وغیرہ ) کے سوا کسی اور کام سے باہر نکلے۔ “

174۔ صدقۂ فطر :
صوم کی حالت میں انسان سے جو غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہو جاتی ہیں اور زبان سے بے ہودہ اور لغو باتیں نکل جاتی ہیں، اس سے صوم میں ایک طرح کا عیب اور نقص پیدا ہو جاتاہے، اس نقص کی تلافی کے لیے شریعت نے ایک خاص قسم کا صدقہ دینے کی تاکید فرمائی ہے، جس کو شرعی اصطلاح میں صدقۃ الفطر کہا جاتا ہے۔ صدقۂ فطر دیگر فرائض کی طرح ایک فریضہ ہے جو امیر، غریب، غلام، آزاد، مرد، عورت، بالغ، نابالغ سب پر فرض ہے ایک روایت میں ہے :
صوم شهر رمضان معلق بين السماء و الأرض و لايرفع إلابزكاة الفطر [الترغيب : كتاب الصوم باب الترغيب فى صدقة الفطر ]
’’ رمضان کے صیام آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تک صدقۂ فطر ادا نہ کر دیا جائے وہ بارگاہ الٰہی تک نہیں پہنچتے۔ “
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكوٰة الفطر [ابن ماجه كتاب الزكوٰة باب صدقة الفطر ]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو واجب قرار دیا ہے “۔
صدقۂ فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ امیر و غریب سب پر یکساں فرض ہے۔ ابن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكوة الفطر من رمضان صاعامن تمر أو صاعامن شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثي من المسلمين [ابوداؤد : كتاب الزكوٰة، باب زكوٰة الفطر ]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو ہر مسلم آزاد و غلام اور مرد و عورت پر واجب قرار دیا ہے جس کی مقدار کھجور یا جو کا ایک صاع ہے “۔
صدقۂ فطر صلاۃ عید سے پہلے ادا کر دینا چاہئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بزكوٰة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلوٰة [صحيح البخاري : كتاب الزكوٰة باب 76 ]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے صلاۃ عید کے لئے نکلنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کر دینے کا حکم دیا ہے “۔
اگر صدقۂ فطر صلاۃ العید کے بعد ادا کیا گیا تو ادا نہیں ہو گا، بلکہ وہ مطلق صدقہ و خیرات کے حکم میں ہو گا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
فمن أداهاقبل الصلوٰة فهي زكوٰة مقبولة و من أداهابعد الصلوٰة فهي صدقة من الصدقات . [أبوداؤد : كتاب الزكوٰة، باب زكاة الفطر ]

175۔ مقدار صدقۂ فطر :
صدقۂ فطر اگر جو یا کھجور یا پنیر یا خشک انگور سے دینا ہو تو اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کی مقدار ایک صاع ہے۔ گیہوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح مرفوع روایت ثابت نہیں، لیکن دور نبوی میں بلاتفریق و امتیاز ہر جنس سے ایک صاع ہی اداکیا جاتا تھا۔ اس لیے گیہوں سے بھی ایک صاع (تقریباً دو کلو 176 گرام) ہی دینا چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام سے صدقۂ فطر میں غلہ کے بدلے قیمت دینا ثابت نہیں۔

احکام و فضائل صیام رمضان المبارک ، عیدالفطر
————–

176۔ عید الفطر :
عید الفطر کے دن صوم رکھنا جائز نہیں ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الفطر و النحر . [صحيح البخاري : كتاب الصيام، باب 66 صوم يوم الفطر ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دن صوم سے منع فرمایا۔ “
اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے 29 ویں رمضان کو عید کا چاند نظر نہ آئے، اور رویت کی کوئی معتبر شہادت بھی نہ مل سکے تو اس دن صوم رکھا جائے گا البتہ زوال سے پہلے اگر کوئی معتبر شہادت مل جائے تو افطار کر لینا چاہئے اور اسی دن عید کی صلاۃ پڑھ لینی چاہئے اور اگر چاند دیکھنے کی شہادت آفتاب ڈھلنے کے بعد ملے تو صوم افطار کر لینا چاہئے لیکن عید کی صلاۃ دوسرے دن پڑھنی چاہئے۔

177۔ مسنونات عید :

غسل کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا، عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیر کہنا، پیدل عیدگاہ جانا، ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا، طاق کھجوریں یا چھوہارے یا کوئی دوسری میٹھی چیز کھا کر عیدگاہ جانا۔

178۔ صلاۃ العید :
عید کی صلاۃ سنت مؤکدہ ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس کو ترک نہیں فرمایا۔ اس کا و قت طلوع آفتاب کے بعد سے لے کر زوال کے کچھ پہلے تک رہتا ہے۔ صلاۃ العید میں اذان اور اقامت نہیں ہے، صلاۃ العید سے پہلے یا بعد میں عیدگاہ میں صلاۃ نافلہ پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اسی طرح صلاۃ سے پہلے خطبہ اور وعظ کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، عورتوں کو عیدگاہ لے جانا سنت ہے۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج الأبكار و العواتق وذوات الخدور و الحيض فى العيدين فأما الحيض فيعتزلن المصلي ويشهدن دعوة المسلمين قالت إحداهن يا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن لم يكن لهاجلباب قال : فلتعرها اختهامن جلبابها [سنن الترمذي : كتاب الصلوٰة، باب38، خروج النساء فى العيدين ]
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باکرہ، نو عمر، پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو عیدین میں لے جایا کرتے تھے، رہیں حائضہ عورتیں تو وہ مصلی (جائے صلاۃ) سے تو الگ رہیں گی لیکن مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔ ایک عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اگر اس (عورت )کے پاس چادر نہ ہو تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی بہن اس کو اپنی چادر عاریۃً دے دے “۔
اور صحیح مسلم میں ہے۔ ام عطیہ کہتی ہیں : كنانؤمر (الحدیث) یعنی ہمیں اللہ کے رسول عورتوں کو عیدگاہ میں لے جانے کا حکم دیتے تھے۔

179۔ صلاۃ عید کاطریقہ :
صلاۃ العیدین کا طریقہ عام صلاۃ ہی کی طرح ہے، البتہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعاء ثنا سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں، جنہیں تکبیر زوائد کہتے ہیں، تکبیر زوائد کے ساتھ رفیع الیدین کسی صحیح اور مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔

180۔ شوال کے صوم :

رمضان کے بعد شوال میں چھ صوم رکھنے کی بڑی فضیلت ہے :
عن أبى أيوب الأنصاري رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من صام رمضان ثم أتبعه ستامن شوال كان كصيام الدهر [صحيح مسلم : كتاب الصيام، باب استحباب صيام ستة أيام من شوال اتباعا رمضان ]
’’ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے صوم رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ صوم رکھے تو گویا کہ اس نے پورے سال صوم رکھا۔ “
چوں کہ نیکیوں کا بدلہ دس گنا دیا جاتا ہے اس لیے رمضان اور اس کے بعد چھ صوم کو پورے سال صوم رکھنے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

181۔ فرضیت زکوٰۃ اور عدم ادائیگی پر وعید :
زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اس کا منکر کافر ہو جاتا ہے جس کے پاس مال ہو اور زکوٰۃ نہ نکالے تو وہ بہت بڑا گنہگا ر اور بروز قیامت سخت ترین عذاب کا مستحق ہو گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من آتاه الله مالافلم يؤد زكٰوته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني شدقيه ثم يقول أنامالك أناكنزك [صحيح البخاري : كتاب الزكوٰة، باب 3، إثم مانع الزكوٰة ]
’’ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے اور اس نے زکوٰۃ نہ ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال بڑا زہریلا گنجا سانپ بنا دیا جائے گا اور وہ اس کی گردن میں لپٹ جائے گا پھر اس کے دونوں جبڑے نوچے گا اور کہے گا میں ہی تیرا مال ہوں اور میں ہی تیرا خزانہ ہوں۔ “
یہ زکوٰۃ تزکیۂ نفس اور طہارت مال و سکون قلب کا ذریعہ ہے یہ ٹیکس نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَاوَ صَلِّ عَلَيْهِمْ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ [التوبة : 103 ]
’’ (اے پیغمبر) آپ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ لے لیجئے جس کے ذریعہ آپ ان کو پاک و صاف کر دیں گے اور ان کے لیے دعا کیجئے، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے باعث طمانیت ہے۔ “

182۔ نصاب :
جب سونا بیس دینار یعنی ساڑھے سات تولہ (85گرام) ہو تو اس میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے۔ [دار قطني : كتاب الزكوة باب وجوب زكوٰة الذهب والفضة]
پانچ اوقیہ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی (595 گرام) میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ [صحيح مسلم : كتاب الزكوٰة ]
کھیت اور باغ کی پیداوار کا نصاب پانچ وسق یعنی تین سو صاع (6 کوئنٹل 53 کلو گرام) ہے۔ [صحيح مسلم كتاب الزكوٰة]
بارانی زمین کا دسواں حصہ اور چاہی زمین کا بیسواں حصہ زکاۃ نکالنا ہو گا۔ [صحيح البخاري : كتاب الزكوٰة، باب 55]
نقد روپیہ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے۔ اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہیں۔ 24 تک ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری پھر 25 سے اونٹ واجب ہو جاتے ہیں۔ [صحيح بخاري كتب الزكوٰة باب 38 ]
بکری کا نصاب چالیس ہے جس میں ایک بکری واجب ہے۔ [صحيح بخاري : كتاب الزكوٰة، باب 38، زكوٰة الغنم]
گائے کا نصاب تیس ہے جس میں ایک سالہ بچہ دینا ہو گا۔ [سنن الترمذي، كتاب الزكوٰة باب5 ]

183۔ زیور کی زکوٰۃ :
زیور میں بھی زکوٰۃ ہے۔ نصاب تک پہنچنے کے بعد زکاۃ نہ دینے والا مجرم اور گنہگار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَ لَايُنْفِقُوْنَهَافِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ [التوبة : 34 ]
’’ جو لوگ سونے اور چاندی کے ڈھیر جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔ “
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سونا چاندی خواہ نقدی ہو یا زیور کی صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ احادیث سے بھی اس کی فرضیت ثابت ہے، چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے :
أنهاكانت تلبس أو ضاحامن ذهب فسألت عن ذاك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت : أكنز هو ؟ فقال إذا أديت زكٰوته فليس بكنز [دار قطني : كتاب الزكوٰة، باب 8، ما ادّي زكوته فليس بكنز و صححه الحاكم و قال الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الدراية قواه ابن دقيق العيد ]
’’ ام سلمہ سونے کے زیور پہنتی تھیں پس انہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا یہ کنز ہے ؟ (جس کی قرآن میں مذمت آئی ہے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے اس کی زکوٰۃ دی ہے تو کنز نہیں ہے۔ “
زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کرنی چاہئے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں لکھا ہے :
أنه كان يكتب إلى خازنه سالم أن يخرج زكوة حلي بناته كل سنة [دار قطني كتاب الزكوٰة باب 9 زكوٰة الحلي ]
’’ وہ اپنے خزانچی سالم کو لکھتے ہیں کہ وہ ان کی بیٹیوں کے زیور کی زکوٰۃ ہر سال ادا کیا کریں۔ “
اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہے، لیکن وہ اتنے ہی روپیوں کا مقروض ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں۔
اگر کسی نے کچھ روپیوں پر کسی کی چند بیگہہ زمین رہن رکھی تو اس روپے کی زکوٰۃ اس پر واجب ہو گی کیوں کہ مرہون چیز سے انتفاع ناجائز ہے اور جب یہ جائز نہیں تو اس کا روپیہ اس کی ملکیت میں مانا جائے گا۔

184۔ مصارف زکوٰۃ :
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا مال آٹھ قسم کے آدمیوں کا حق قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [9-التوبة:60 ]
’’ زکوۃ فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے اور ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی وصولی کا کام کرنے والے ہیں اور مؤلفہ قلوب کے لیے اور غلام آزاد کرانے کے لیے اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں صرف کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے۔ “

185۔ اسلامی مدارس، طلباء و مدرسین :
جن مدارس میں اساسی حیثیت دینی تعلیم اور شرعی علوم کی ہے ان میں ضرورت مند طلباء کے طعام و قیام، کتب، دوا و علاج اور آمد و رفت کے مصارف پر اور جن مدرسین کے پاس کوئی دوسراذریعۂ معاش نہیں ہے ان کی تنخواہ اور ضروری حاجات کی تکمیل پر زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دینی کتابوں کی طباعت اور نشر و اشاعت پر بھی زکوٰۃ صرف کی جا سکتی ہے، البتہ تعمیرات بالخصوص مساجد کی تعمیر پر زکوٰۃ صرف نہیں کی جا سکتی۔

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply