احناف کی جانب سے امام ابوحنیفہ کے اقوال چھوڑ دینے کی 17 مثالیں
تحریر:محمد زبیر صادق آبادی

آل دیوبند و آل بریلی نے بھی امام ابو حنیفہ کو چھوڑا ہے

اگر کوئی اہل حدیث کسی حدیث کی وجہ سے کوئی ایسا عمل کرے جو آل دیوبند کے نزدیک امام ابو حنیفہ کے قول و فعل کے خلاف ہو تو آل دیوبند اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ بتاؤ قرآن وحدیث کی سمجھ آپ کو زیادہ ہے یا امام ابو حنیفہ کو؟ یہ سوال ان کا اس لئے ہوتا ہے کہ اگر وہ اہل حدیث کہے: ”مجھے سمجھ زیادہ ہے“ تو اس کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کیا جا سکے کہ اس نے امام ابو حنیفہ سے بھی بڑا امام ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے، اور اگر وہ اہلِ حدیث کہے سمجھ: ”تو امام ابو حنیفہ کو مجھ سے زیادہ تھی“ تو یہ شور مچانے کا موقع مل سکے کہ پھر تم نے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کیوں شروع کر دی ہے؟ چونکہ یہ سوال ہی غلط ہے، اس لئے ہم ذیل میں آل دیوبند کے اصولوں کے عین مطابق (إن شاء اللہ) کچھ مثالیں بیان کریں گے، تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ آل دیوبند خود ہی اپنے اس سوال کے جواب سے عاجز ہیں اور دنیا میں شرمندگی ان کا مقدر ہے۔
مجھ سے منڈی بہاؤالدین کے ایک دیوبندی ”عالم“ محمد بلال نے یہ سوال کیا تو میں نے ایسی چند مثالیں بیان کیں جن میں آل دیوبند نے امام ابو حنیفہ کو چھوڑ دیا ہے تو وہ کوئی جواب نہ دے سکا اور ہکا بکا رہ گیا۔
(1)صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان رب اغفر لي دو دفعہ پڑھتے تھے۔ دیکھیے سنن ابی داود (ج ا ص 134 حدیث 874 باب ما يقول الرجل في ركوع وسجوده)۔ اس کے خلاف حنفیہ کے نزدیک ظاہر روایت کی مشہور کتاب "الجامع الصغیر” میں امام ابو حنیفہ سے منقول ہے کہ وكذلك بين السجدتين يسكت
اور اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان سکوت کرے (یعنی دعا نہیں پڑھے گا) (ص 88)۔
اس قول کے بارے میں عبد الحئی لکھنوی نے "النافع الکبیر” میں لکھا ہے:
«هذا مخالف لما جاء فى الأخبار الصحاح من زيادة الأدعية فى القومة و بين السجدتين»
یہ قول ان صحیح احادیث کے مخالف ہے جن میں قومہ اور دو سجدوں کے درمیان دعائیں پڑھنے کا ثبوت ہے۔ (ایضاً)
آل دیوبند کے ”مفسر قرآن“ صوفی عبد الحمید سواتی نے بھی امام ابو حنیفہ کی مخالفت کرتے ہوئے، دو سجدوں کے درمیان دعا پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے اور دو طرح کی دعائیں بھی نقل کی ہیں۔ (دیکھیے نماز مسنون ص 369-370)۔
آل دیوبند کے ”مفتی“ محمد ابراہیم نے بھی دو سجدوں کے درمیان پڑھنے کے لئے ایک دعا نقل کی ہے۔ (دیکھیے چار سو اہم مسائل ص 72)۔
آل دیوبند کے ”شیخ“ محمد الیاس فیصل دیوبندی نے بھی دو سجدوں کے درمیان پڑھنے کے لئے ایک دعا نقل کی ہے۔ (دیکھیے نماز پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص 191)۔
یہ سب (عبد الحئی لکھنوی، عبد الحمید سواتی، محمد ابراہیم صادق آبادی اور محمد الیاس فیصل) اس مسئلے میں اپنے مزعوم امام ابو حنیفہ کے سراسر خلاف ہیں۔
(2)عبد الشکور لکھنوی دیوبندی نے لکھا ہے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پیاس یا گرمی کی شدت سے صوم (روزے) کی حالت میں اپنے سر پر پانی ڈالا تھا۔ (ابو داود)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کپڑے کو تر کرکے اپنے بدن پر لپیٹ لیتے تھے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ افعال مکروہ ہیں مگر فتویٰ ان کے قول پر نہیں۔ (رد المحتار، علم الفقه ص 436، دوسرا نسخہ ص 468، وہ صورتیں جن میں روزہ فاسد نہیں ہوتا)۔
(3)امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے: ”امام صاحب کا صریح قول تو وہ ہے کہ تعلیم قرآن پر تنخواہ لینا جائز نہیں۔“ (تجلیات صفدر ج 5 ص 215، غیر مقلدین کے اعتراضات کے جوابات)۔
آل دیوبند کے مفتی تقی عثمانی نے لکھا: ”چنانچہ علمائے احناف نے انہی وجوہ سے بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا ہے، مثلاً استیجار علی تعلیم القرآن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ناجائز تھا، لیکن زمانے کے تغیر کی وجہ سے بعد کے فقہاء حنفیہ نے اسے جائز قرار دیا۔“ (تقلید کی شرعی حیثیت ص 141)۔
نیز ”بذل المجهود في حل ابی داود“ (جلد 6 ص 11) میں بھی اس بات کی صراحت ہے کہ متاخرین حنفیہ نے ضرورت کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کا یہ قول ترک کر دیا ہے۔
(4) امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایسی عورت جس کا شوہر گم ہو جائے تو وہ اتنی مدت تک انتظار کرے یہاں تک کہ اس کے شوہر کی عمر ایک سو بیس (120) سال ہو جائے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکے گی۔ (دیکھیے الہدایہ ج 1 ص 623، دوسرا نسخہ ص 604، کتاب المفقود، قد وری ص 155)۔
امام ابو حنیفہ کے اس قول کے خلاف اشرف علی تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: ”جس کا شوہر بالکل لا پتہ ہو گیا، معلوم نہیں مر گیا یا زندہ ہے تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہیں کر سکتی بلکہ انتظار کرتی رہے کہ شاید آجائے۔ جب انتظار کرتے کرتے اتنی مدت گزر جائے کہ شوہر کی عمر نوے برس کی ہو جائے تو اب حکم لگا دیں گے کہ وہ مر گیا ہو گا۔ سو اگر وہ عورت ابھی بھی جوان ہو اور نکاح کرنا چاہے تو شوہر کی عمر نوے برس کی ہونے کے بعد عدت پوری کرکے نکاح کر سکتی ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس لا پتہ مرد کے مرنے کا حکم کسی شرعی حاکم نے لگایا ہو۔“ (بہشتی زیور حصہ چہارم ص 34، میاں کے لاپتہ ہو جانے کا بیان)۔
لیکن پھر آل دیوبند نے تھانوی کے مذکورہ فتوے کو بھی چھوڑ دیا اور بہشتی زیور کے اس صفحہ کے حاشیہ پر لکھا ہوا ہے: ”لیکن آج کل شدت ضرورت کی وجہ سے علماء نے امام مالک صاحب رحمہ اللہ کے مذہب پر فتویٰ دے دیا ہے۔“ (نیز دیکھیے تقلید کی شرعی حیثیت ص 141، از تقی عثمانی)۔
قارئین کرام! آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ یہ کیسا دین ہے جو آہستہ آہستہ بدل رہا ہے حالانکہ وحی کا سلسلہ بہت پہلے بند ہو چکا۔ مزید تفصیل اگلی مثال میں بھی ملاحظہ کریں:
(5 )صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی جماعت کے وقت سنت پڑھنا جائز نہیں۔ اس حدیث پر حاشیہ لکھتے ہوئے ظہور الباری اعظمی دیوبندی نے لکھا ہے: ”اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد سنت جائز ہی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ بعض ظواہر نے اسی حدیث کی بناء پر یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص سنتیں پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں فرض کی اقامت ہو گئی تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ لیکن آئمہ اربعہ میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ اقامت فرض کے بعد سنت نہ شروع کرنی چاہیے۔ البتہ فجر کی سنتوں کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر نماز شروع ہو چکی ہے اور کم از کم ایک رکعت ملنے کی توقع ہے تو مسجد سے باہر فجر کی دو سنت رکعتوں کو پڑھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ائمہ اربعہ میں کسی کا بھی مسلک نہیں۔ اس لئے یہ ایک اجتہادی مسئلہ بن گیا۔ چونکہ احادیث میں ہے کہ جس نے ایک رکعت جماعت پالی اسے جماعت کا ثواب ملے گا۔ غالباً اسی حدیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے ایک رکعت پالینے کی قید لگائی۔ پھر بعد میں امام محمد رحمہ اللہ علیہ نے اس میں بھی توسیع کر دی اور فرمایا کہ اگر قعدہ اخیرہ میں امام کو پانے کی امید ہو پھر بھی فجر کی سنت پڑھنی چاہیے۔ اب تک یہ صورت تھی کہ فجر کی یہ سنت مسجد سے باہر پڑھی جائے لیکن بعد میں مشائخ حنفیہ نے اس میں بھی توسیع سے کام لیا اور کہا کہ مسجد کے اندر کسی ایک طرف جماعت سے دور کھڑے ہو کر بھی یہ رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں۔“ (تفہیم البخاری علی صحیح البخاری پارہ 30 جلد اول ص 342)۔
مذکورہ عبارت کے مطابق آلِ دیوبند دو طرح سے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کرتے ہیں:
1. امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اقامت کے بعد فجر کی سنتیں مسجد سے باہر پڑھی جائیں، لیکن آل دیوبند مسجد کے اندر ہی پڑھتے ہیں۔
2. امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اگر کم از کم جماعت کے ساتھ ایک رکعت ملنے کی امید ہو تو فجر کی سنتیں شروع کی جائیں، لیکن آل دیوبند قعدہ اخیرہ ملنے کی امید پر بھی یہ رکعتیں پڑھتے ہیں۔
تنبیہ: بعض آل دیوبند نے ”مشائخ حنفیہ“ کے قول میں بھی توسیع کر رکھی ہے، وہ یہ سنتیں بالکل جماعت کی صف کے پیچھے بھی پڑھ لیتے ہیں۔
(6)آل دیوبند کے شیخ الاسلام محمد تقی عثمانی نے لکھا ہے: ”مزارعت امام ابو حنیفہ کے نزدیک ناجائز ہے، لیکن فقہاء حنفیہ رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ کے مسلک کو چھوڑ کر متناسب حصہ پیداوار کی مزارعت کو جائز قرار دیا ہے، اور یہ مثالیں تو ان مسائل کی ہیں جن میں تمام متاخرین فقہاء حنفیہ امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کو ترک کرنے پر متفق ہو گئے، اور ایسی مثالیں تو بہت سی ہیں جن میں بعض فقہاء نے انفرادی طور پر کسی حدیث کی وجہ سے امام ابو حنیفہ کے قول کی مخالفت کی ہے۔“ (تقلید کی شرعی حیثیت ص 108)۔
(7 )تقی عثمانی نے لکھا ہے: ”انگور کی شراب کے علاوہ دوسری نشہ آور اشیاء کو اتنا کم پینا جس سے نشہ نہ ہو امام ابو حنیفہ کے نزدیک قوت حاصل کرنے کے لئے جائز ہے، لیکن فقہاء حنفیہ نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ کے قول کو چھوڑ کر جمہور کا قول اختیار کیا ہے۔ اور مثالیں ان مسائل کی ہیں جن میں تمام متاخرین فقہاء حنفیہ امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کو ترک کرنے پر متفق ہو گئے۔“ (تقلید کی شرعی حیثیت ص 107-108)۔
(8) مکہ مکرمہ کے مستقل قیام کے متعلق آل دیوبند کے ”شیخ الحدیث“ محمد زکریا دیوبندی نے ملا علی قاری کے حوالے سے لکھا ہے: ”امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ وہاں کے مستقل قیام کو مکروہ فرماتے تھے۔“ (فضائل حج ص 110، چھٹی فصل مکہ مکرمہ اور کعبہ شریف کے فضائل میں)۔ زکریا دیوبندی نے مزید لکھا ہے: ”ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے حالات کے لحاظ سے کراہت اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اگر وہ حالات کو دیکھتے جن کو ہم اپنے زمانہ میں دیکھ رہے ہیں تو وہ وہاں کے قیام کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے۔ یہ ملا علی قاری رحمہ اللہ مشاہیر علماء میں ہیں، 1104ھ میں وفات پائی۔ جب یہ اپنے زمانہ کا یہ حال فرما رہے ہیں تو آج چودھویں صدی کے آخر کا جو حال ہو گا وہ ”اظہر من الشمس“ ہے۔ (فضائل حج ص 110)۔
لیکن اس کے باوجود حنفیہ کا فتویٰ امام ابو حنیفہ کے خلاف ہے، چنانچہ زکریا دیوبندی نے لکھا ہے: ”ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ کا قیام صاحبین کے نزدیک مستحب ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔“ (فضائل حج ص 110، چھٹی فصل)۔
(9) نفلی اعتکاف کے مسئلہ میں بھی آلِ دیوبند نے امام ابو حنیفہ کے مسلک کو چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت والے محمد زکریا دیوبندی نے لکھا ہے: ”تیسرا اعتکاف نفل ہے جس کے لئے نہ کوئی وقت، نہ ایام کی مقدار، جتنے دن کا جی چاہے کر لے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص تمام عمر کے اعتکاف کی نیت کر لے تب بھی جائز ہے۔ البتہ اختلاف ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ایک دن سے کم کا جائز نہیں لیکن امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک تھوڑی دیر کا بھی جائز ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اس لئے ہر شخص کے لئے مناسب ہے کہ جب مسجد میں داخل ہو عتکاف کی نیت کر لیا کرے۔“ (فضائل اعمال ص 685، مکتبہ فیضی لاہور)۔
(10)فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں لکھا ہے: ”سوال (982): ایک دس سالہ لڑکی کا نکاح لڑکی کے ولی نے ایک سولہ سترہ سال کے نوجوان سے کر دیا تھا۔ نکاح کے دو سال بعد نوجوان مذکور بیمار ہو کر پاگل ہو گیا۔ نوجوان کے وارثوں نے کامل چار سال تک یونانی اور ڈاکٹری معالجہ اپنی حسب حیثیت کیا۔ لیکن نوجوان کو کچھ آرام نہیں ہوا۔ مجنون کو مجبور ہو کر اس کو پاگل خانہ بھیج دیا۔دو ڈھائی سال ہوئے پاگل خانہ میں بھیج دیا۔ اب تک حالت بدستور ہے۔ اب لڑکی کا کوئی وارث اور خیر خواہ نہیں ہے۔ اب لڑکی اپنا نکاح خود کسی سے کر سکتی ہے یا نہ؟ الجواب: حنفیہ کے مذہب کے موافق اس لڑکی کے نکاح ثانی کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ دیوانہ کی زوجہ کو اس کے نکاح سے نہ حاکم علیحدہ کر سکتا ہے اور نہ خود دیوانہ کی طلاق معتبر ہو سکتی ہے۔ البتہ موت دیوانہ کی عدت وفات پوری کرکے اس کی زوجہ نکاح ثانی کر سکتی ہے۔“ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند جلد 1ص 533، دار الاشاعت کراچی)۔
لیکن بعد میں آل دیوبند نے اپنے مزعوم مذہب حنفی کو ترک کر دیا۔
تفصیل کے لئے دیکھیے فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے اسی صفحے کا حاشیہ۔
(11)نماز فجر کی سنتیں اگر کسی وجہ سے رہ جائیں تو امام ابو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ نہ تو یہ سنتیں سورج کے طلوع ہونے سے پہلے پڑھی جائیں اور نہ سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھی جائیں۔ (دیکھیے الہدایہ ج 1 ص 152، اشرف الہدایہ ج 2 ص 249، باب ادراک الفریضۃ، خزائن السنن ج 2 ص 150)۔
لیکن انوار خورشید دیوبندی نے ایک ضعیف حدیث کو اپنی دلیل بنا کر اس کا ضعف بتائے بغیر لکھا ہے: ”اگر یہ سنتیں فجر کے فرضوں سے پہلے پڑھنے سے رہ جائیں تو پھر سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھی جائیں۔“ (حدیث اور اہل حدیث ص 622)۔
(12) آل دیوبند کے مفتی محمد زرولی خان نے لکھا ہے: ”حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کتب فقہ اور فتاویٰ معتبرہ میں ستہ شوال کی کراہت منقول ہے۔“ (احسن المقال فی کراہیۃ ستہ شوال یعنی شوال کے چھ روزوں کے مکروہ ہونے کی تحقیق ص 34
اس کے بعد زرولی نے کئی كتب فقه كے حوالے ديے هيں اور اختصار كے پيش نظر ميں يهاں صرف ايك حواله نقل كرتا هوں: هنديه ميں هے ويكره صوم ستة من شوال عند ابي حنيفة متفرقا كان أو متتابعا عالمگیری ج 1 ص 201، (احسن المقال ص 34)۔
عبارت مذکورہ کا ترجمہ درج ذیل ہے:
”ابو حنیفہ کے نزدیک شوال کے چھ روزے رکھنا مکروہ ہے، چاہے علیحدہ رکھے جائیں یا اکٹھے رکھے جائیں۔“ لیکن اس کے باوجود بے شمار آل دیوبند نے امام ابو حنیفہ کے اس قول کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کے لئے آپ درج ذیل کتابیں دیکھ سکتے ہیں:
بہشتی زیور حصہ سوم (ص 9، مسئلہ نمبر 13 ص 251)، آل دیوبند کے مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی کی کتاب چار سو اہم مسائل (ص 192) اور انوارات صفدر (ج 1 ص 186)۔
(13 )بریلویوں نے بھی امام ابو حنیفہ کے قول کو چھوڑ دیا ہے۔
غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے: ”احادیث صحیحہ میں عقیقہ کی فضیلت اور استحباب کو بیان کیا گیا ہے لیکن غالباً یہ احادیث امام ابو حنیفہ اور صاحبین کو نہیں پہنچیں، کیونکہ انہوں نے عقیقہ کرنے سے منع کیا ہے۔“ (شرح صحیح مسلم ج 1 ص 43)۔
(14)نماز جمعہ کی شرائط کے مسئلے میں آل دیوبند نے امام ابو حنیفہ کے قول کو چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ آل دیوبند کے مفتی اعظم ہند کفایت اللہ دیوبندی نے لکھا ہے: ”امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول اور ان سے جو تعریف مصر مروی ہے اس کے موافق تو دہلی اور لاہور میں بھی (جمعہ )جائز نہیں۔“ (کفایت المفتی ج 3 ص 206، مطبوعہ مکتبہ حقانی ملتان)۔
(15 )آل دیوبند کے مفسرِ قرآن شبیر احمد عثمانی نے سورہ لقمان آیت-14 کی تفسیر میں لکھا ہے: ”تنبیہ: دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دو سال بیان ہوئی ہے باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔ جمہور کے نزدیک جو ہے دو سال ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ (تفسیر عثمانی ص 707، حاشیہ نمبر 15)۔
عثمانی کے اس حسن ظن کہ ”امام ابو حنیفہ کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی“ کے برعکس آل دیوبند کے ”حکیم الامت“ اشرف علی ثانوی نے امام ابو حنیفہ کے مذکورہ قول کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
”دو برس کے بعد دودھ پینا بالکل حرام ہے۔“ (بہشتی زیور چوتھا حصہ، مسئلہ نمبر 13)۔
(16)سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے: ”علامہ شامی فرماتے ہیں کہ احناف نے سترہ مقامات میں امام صاحب رحمہ اللہ اور صاحبین رحمہ اللہ کے اقوال چھوڑ کر امام زفر کے اقوال لیے ہیں۔“ (ج 1 ص 66) (الکامل المفید ص 336)۔
تقی عثمانی نے لکھا ہے: ”بہت سے مسائل میں مشائخ حنفیہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔“ (تقلید کی شرعی حیثیت ص 58)۔
تقی عثمانی نے دوسری جگہ لکھا ہے : ”چنانچہ علمائے احناف نے انہی وجوہ سے بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول چھوڑ دیا ہے۔“ (تقلید کی شرعی حیثیت ص 141)۔
یہاں تک تو بات امام ابو حنفیہ کی تھی ، لیکن آل دیوبند کے امام سرفراز خان صفدر نے امام ابو حنیفہ کے استاد حماد بن ابی سلیمان کے بارے میں لکھا ہے:
”امام بخاری رحمہ اللہ نے حماد رحمہ اللہ کے قول کی سند بیان نہیں کی تو ایسی بے سند بات کا کیا اعتبار ہے؟ علاوہ ازیں اگر حماد رحمہ اللہ کے قول کی سند بھی مل جائے تو، قرآن کریم، صحیح احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں حماد رحمہ اللہ کے قول کی کیا وقعت ہے؟“ (احسن الکلام ج 1 ص 393)۔
امین اوکاڑوی نے لکھا ہے: ”ایک تابعی کا عمل اگرچہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔“ (تجلیات صفدر ج 5 ص 113)۔
مفتی جمیل احمد نذیری دیوبندی نے لکھا ہے: ”ہاں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایک رکعت پڑھنے کی روایتیں ملتی ہیں مگر یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا۔ جو احادیث مرفوعہ کثیرہ کے مقابلے میں حجت نہیں۔“ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز ص 259
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں میرا مضمون: "آل دیوبند اور موقوفات صحابہ رضی اللہ عنہم ” (الحدیث نمبر 61 ص 27-40)۔
یعنی آل دیوبند کے نزدیک امام ابو حنیفہ کے استاد (جیسا کہ مشہور ہے) حماد بن ابی سلیمان کے قول کی بھی کوئی وقعت نہیں ۔
(17) امام ابو حنیفہ کا مشہور مسئلہ ہے کہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں مثلاً فارسی میں تکبیر تحریمہ اور دیگر تکبیرات کہنا جائز ہے، جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں لکھا ہوا ہے لیکن اس کے برعکس آل دیوبند کے امام عبد الشکور فارقی لکھنوی نے لکھا ہے:
”چوتھا مسئلہ: تکبیر تحریمہ اور اسی طرح باقی تکبیرات کا غیر عربی میں کہنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ﴿ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾ اس میں کسی زبان کی تخصیص نہیں کی، ہاں اس میں شک نہیں کہ مخالف سنت کے سبب سے بدعت اور مکروہ ضرور ہو گا۔ بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے اس مسئلہ سے بھی رجوع کیا، مگر یہ صحیح نہیں۔“ (علم الفقہ حصہ دوم ص 377، طبع اپریل 2003ء)۔
دیوبندی عالم عبد الشکور لکھنوی نے امام ابو حنیفہ کے جائز قرار دیے ہوئے فعل کو بدعت اور مکروہ قرار دیا ہے اور اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ کے رجوع سے بھی انکار کیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1