ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

یہ مضمون اس منسوب روایت کے تحقیقی رد پر ہے جس میں کہا گیا کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: “میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی؛ انہوں نے تکبیرِ اُولیٰ کے سوا رفع یدین نہیں کیا۔” یہ روایت سنن دارقطنی اور السنن الکبریٰ للبیہقی میں مروی ہے؛ مگر خود ائمۂ حدیث (دارقطنی، بیہقی، احمد بن حنبل وغیرہ) نے اسے سخت ضعیف/منکر بلکہ موضوع قرار دیا اور اس کی علت راوی محمد بن جابر الیمامی (اور اس کے شیخ حماد بن أبی سلیمان) کی کمزوری بتائی۔ اس مضمون میں:

  • پہلے اصل حدیث کا متن، پھر ہر جرح کا عربی اقتباس + ترجمہ + حوالہ؛

  • علّتِ سند، تفرد، قلبِ اسناد، اختلاط اور تلقین جیسے اصولی نکات؛

  • آخر میں نتیجہ کہ یہ روایت قابلِ استدلال نہیں، اور صحیح سنّت میں رفع یدین کا ثبوت متعدد مقامات پر موجود ہے۔

اصل روایت (متن و اسناد)

النص:
1133 – حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْحَنَّاطُ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عِيسَى بْنِ أَبِي حَيَّةَ، قَالَا: نَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:
«صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ.»

ترجمہ: عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے: “میں نے نبی ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی، تو انہوں نے نماز کے آغاز (یعنی تکبیرِ اُولیٰ) کے سوا رفع یدین نہیں کیا۔”
حوالہ: سنن الدارقطني (رقم 1133)؛ السنن الكبرى للبيهقي (موضعُه في أبواب الرفع).

تنبیۂ سند: اس روایت کا مدار محمد بن جابر الیمامی اور حمّاد بن أبی سلیمان پر ہے؛ دونوں پر ائمہ کی سخت جرح موجود ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

روایت کا تحقیقی جائزہ

1) نور الدین الہیثمی (م 807ھ)اختلاط اور تلقین

عربی:
«… وفيه محمد بن جابر الحنفي اليمامي، وقد اختلط عليه حديثه، وكان يُلَقَّن فيَتَلَقَّن.»
ترجمہ: “اس (سند) میں محمد بن جابر الیمامی ہے، اس کی حدیث میں اختلاط ہوگیا تھا، اور تلقین کی جاتی تو قبول کر لیتا (یعنی بات منہ میں ڈال دی جائے تو وہی دہرا دیتا)۔”
حوالہ: مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (موضع: باب الرفع وأحكامه).

2) حافظ ذہبی (م 748ھ)ضعفِ محمد بن جابر، اور طریق کی اضطرابیّت

عربی:
«محمدُ بن جابرٍ ضعيفٌ، وغير حَمَّادٍ يروونه عن إبراهيم عن عبد الله من قوله، والأول فقيل: إن عبد الرحمن لم يسمع من علقمة.»
ترجمہ:محمد بن جابر ضعیف ہے۔ اور حمّاد کے علاوہ (یہ) روایت ابراہیم → عبداللہ پر موقوف آتی ہے (مرفوع نہیں)؛ اور پہلے طریق میں کہا گیا کہ عبدالرحمن (بن یزید) نے علقمہ سے سماع نہیں کیا۔”
حوالہ: الذهبي، تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق (باب الرفع).

3) ابن الجوزی (م 597ھ)موضوعات میں ادراج؛ شدید جرح

عربی:
«… هذا حديثٌ لا يصحُّ عن رسولِ الله ﷺ… أمّا حديثُ ابن مسعود ففيه محمد بن جابر. قال يحيى: ليس بشيء. وقال أحمد بن حنبل: لا يُحدَّث عنه إلا شرٌّ منه. وقال الفلاس: متروك الحديث.»
ترجمہ: “یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے صحیح نہیں۔ ابن مسعودؓ والی سند میں محمد بن جابر ہے؛ یحییٰ (بن معین) نے کہا: ‘کچھ بھی نہیں’؛ احمد بن حنبل نے کہا: ‘اس سے جو روایت کرتا ہے وہ بھی اس سے بڑا شر پسند ہوتا ہے’؛ فلاس نے کہا:متروک الحدیث’۔”
حوالہ: ابن الجوزي، الموضوعات.

4) جلال الدین سیوطی (م 911ھ)حکم: موضوع؛ آفت: الیمامی

عربی:
«… رواه إسماعيل، حدثنا محمد بن جابر اليمامي، حدثنا حماد… عن ابن مسعود: صليتُ مع النبي ﷺ ومع أبي بكر وعمر… موضوع. آفته اليمامي.»
ترجمہ: “(یہ) روایت موضوع ہے؛ اور اس کی آفت محمد بن جابر الیمامی ہے۔”
حوالہ: السيوطي، اللآليء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة.

5) امام دارقطنی (م 385ھ)تفرد و ضعف، اور دیگر طرق کا ارسال

عربی (تعقیبِ دارقطنی على الإسناد):
«… تَفَرَّدَ به محمدُ بنُ جابر وكان ضعيفًا، عن حمادٍ عن إبراهيم، وغيرُ حمادٍ يرويه عن إبراهيم مرسلاً.»
ترجمہ: “اس روایت میں تفرد محمد بن جابر کا ہے اور وہ ضعیف ہے؛ (یہ) حمّاد → ابراہیم سے لایا؛ جبکہ حمّاد کے علاوہ (یعنی دوسرے ثقات) اسی خبر کو ابراہیم سے مُرسَل (بغیر علقمہ/ابن مسعود) روایت کرتے ہیں (یعنی مرفوع سند باقی نہیں رہتی)۔”
حوالہ: سنن الدارقطني، تعلیق بعد حدیث 1133.

6) ابو العباس البوصیری (م 840ھ) — محمد بن جابر: ضعیف

عربی:
«… الذي في السنن من حديثه: “ألا أصلي بكم صلاة رسول الله ﷺ؟ فلم يرفع يديه إلا عند التكبيرة الأولى”؛ محمد بن جابر ضعيف.»
ترجمہ: “سنن میں اس کے طریق سے جو آیا: ‘کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ پڑھاؤں؟’ پھر صرف تکبیرِ اُولیٰ پر رفع یدین کیا؛ محمد بن جابر ضعیف ہے۔”
حوالہ: البوصيري، إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة.

7) عبداللہ بن احمد بن حنبل، عن أبیہحکم: حدیث منکر، شدید رد

عربی:
«ذكرتُ لأبي حديثَ محمدِ بنِ جابر عن حمّاد عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله في الرفع، فقال: هذا ابنُ جابر أيش حديثه؟ هذا حديثٌ منكرٌ، أنكره جدًّا.»
ترجمہ: “میں نے اپنے والد (امام احمد) سے محمد بن جابر → حمّاد… والی ‘رفع’ کی حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: ‘**یہ ابنِ جابر کیا چیز ہے؟ یہ حدیث منکر ہے؛ میں اسے سختی سے رد کرتا ہوں۔’”
حوالہ: العلل ومعرفة الرجال لابن أحمد (رقم 716).

8) امام عقیلی (م 322ھ) — منکرات میں شمار

عربی:
«… محمد بن جابر اليمامي، له مناكير، منها حديث: صليت مع النبي ﷺ ومع أبي بكر وعمر فلم يرفعوا أيديهم إلا عند الافتتاح…»
ترجمہ: “محمد بن جابر الیمامی کی منکرات میں سے ایک یہ روایت ہے کہ ‘میں نے نبی ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے رفع یدین صرف آغاز میں کیا۔’”
حوالہ: العقيلي، الضعفاء الكبير (ترجمة محمد بن جابر).

9) امام زین الدین العراقی (م 806ھ) — آفت: محمد بن جابر

عربی:
«[حديث] ابن مسعود: صليت مع النبي ﷺ ومع أبي بكر وعمر فلم يرفعوا أيديهم إلا عند الافتتاح؛ من طريق محمد بن جابر اليمامي، وهو آفته.»
ترجمہ: “ابن مسعودؓ کی روایت … محمد بن جابر الیمامی کے طریق سے ہے، اور یہی اس کی آفت ہے۔”
حوالہ: العراقي، تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة (1/75).

10) امام بیہقی (م 458ھ) → امام حاکم نیشاپوری (م 405ھ) — اسناد مقلوب، عدمِ روایت اصحابِ حماد

عربی:
«قال الحاكم أبو عبد الله: هذا إسناد مقلوب، لا نعلم أحدًا من أصحاب حماد بن أبي سليمان المشهورين بالأخذ عنه رواه، ولو كان محفوظًا لبادر بروايته أبو حنيفة وسفيان الثوري، إذا كان يوافق مذهبهما. فأما محمد بن جابر بن سيار السحيمي فإنه قد تكلّم فيه أئمة الحديث.»
ترجمہ: امام حاکم نے فرمایا: “یہ سند مقلوب ہے؛ ہم حماد بن أبی سلیمان کے مشہور تلامذہ میں سے کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ روایت کی ہو۔ اگر یہ روایت محفوظ ہوتی تو ابو حنیفہ اور سفیان ثوری ضرور اپنے شیخ حماد سے بیان کرتے کیونکہ یہ ان کے مذہب کے موافق ہے۔ رہا محمد بن جابر تو اس پر ائمۂ حدیث نے سخت کلام کیا ہے۔”
حوالہ: البيهقي، مختصر الخلافيات (باب رفع اليدين).

11) ابن قیم الجوزیہ (م 751ھ) — سند منقطع، غیر صحیح

عربی:
«… وكحديثه الآخر: صليت مع رسول الله ﷺ وأبي بكر وعمر فلم يرفعوا إلا عند افتتاح الصلاة؛ وهو منقطع لا يصح.»
ترجمہ: “اور اس کی دوسری روایت: ‘میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے صرف آغاز میں رفع یدین کیا’ — یہ منقطع ہے اور صحیح نہیں۔”
حوالہ: ابن قيم، المنار المنيف في الصحيح والضعيف (ص 142).

12) ملا علی قاری (م 1014ھ) — موضوعات میں ذکر

عربی:
«… وكحديثه الآخر: صليت مع رسول الله ﷺ وأبي بكر وعمر فلم يرفعوا إلا عند افتتاح الصلاة؛ وهو منقطع لا يصح.»
ترجمہ: “اس کی دوسری روایت: ‘میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی، انہوں نے صرف افتتاح پر رفع یدین کیا’ — یہ منقطع ہے اور صحیح نہیں۔”
حوالہ: الملا علي القاري، الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (المعروف بالموضوعات الكبرى).

13) محمد بن طاہر المقدسی (م 507ھ) — تذکرۃ الموضوعات میں ذکر

عربی:
«… حديث ابن مسعود في الرفع؛ فيه محمد بن جابر، ليس بشيء.»
ترجمہ: “ابن مسعودؓ کی رفع یدین والی حدیث میں محمد بن جابر ہے، اور وہ کچھ بھی نہیں۔”
حوالہ: ابن طاهر المقدسي، تذكرة الموضوعات (1/27).

14) قاضی شوکانی (م 1250ھ) — موضوع، متہم: محمد بن جابر

عربی:
«حديث: صليت مع النبي ﷺ ومع أبي بكر وعمر فلم يكونوا يرفعون أيديهم إلا عند افتتاح الصلاة؛ رواه الحاكم عن ابن مسعود مرفوعًا؛ وهو موضوع، والمتهم به محمد بن جابر اليمامي.»
ترجمہ: “حدیث: ‘میں نے نبی ﷺ، ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی؛ وہ صرف افتتاح پر رفع یدین کرتے تھے’ — اسے حاکم نے ابن مسعودؓ سے مرفوعاً روایت کیا؛ اور یہ موضوع ہے؛ اس کا الزام محمد بن جابر الیمامی پر ہے۔”
حوالہ: الشوكاني، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة (ص 59).

نتیجہ تحقیق

  1. اصل سند: محمد بن جابر الیمامی → حماد بن أبی سلیمان → ابراہیم → علقمہ → ابن مسعود۔

  2. جرح محدثین:

    • محمد بن جابر: ضعیف، مختلط، متروک، ملقَّن، لیس بشیء۔

    • حماد بن أبی سلیمان: ضعیف فی الحدیث، اہلِ رائے میں شمار، روایت میں اوہام۔

  3. عللِ روایت:

    • تفرد محمد بن جابر۔

    • مخالفت الثقات: باقی سب اسے مُرسلاً روایت کرتے ہیں۔

    • قلب الاسناد: جیسا کہ امام حاکم نے کہا۔

    • انقطاع: جیسا کہ ابن قیم و ملا علی قاری نے بیان کیا۔

  4. حکم:

    • متعدد ائمہ (ابن الجوزی، سیوطی، ملا علی قاری، شوکانی، ابن طاہر) نے اسے موضوع کہا۔

    • دیگر ائمہ (احمد بن حنبل، دارقطنی، بیہقی، ذہبی، بوصیری) نے اسے منکر/ضعیف شدید کہا۔

خلاصہ کلام

یہ روایت صحیح نہیں بلکہ موضوع/منکر ہے۔ صحیح سنت میں متعدد احادیث سے (بخاری و مسلم میں) ثابت ہے کہ نبی ﷺ نماز کے آغاز، رکوع جاتے وقت، اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ لہٰذا اس روایت کو دلیل بنانا اصولِ حدیث کے خلاف ہے۔

اہم حوالوں کے سکین

ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 001 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 002 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 003 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 004 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 005 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 006 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 007 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 008 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 009 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 010 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 011 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 012 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 013 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 014 ابن مسعود رض کا قول کہ نبیﷺ، ابوبکر و عمر رض رفع یدین نہیں کرتے تھے – 015

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے