ابن عمرؓ کی رفع یدین نہ کرنے والی روایت کی 4 تحقیقاتی آراء
ماخوذ :فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الصلاة، صفحہ 348

روایت

"ابن عمر رضی اللہ عنہما رفع یدین صرف پہلی تکبیر میں کرتے تھے”

اصل روایت

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُدَ، قَالَ: ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنَ الصَّلَاةِ»
(شرح معانی الآثار، ص 235؛ ابن أبی شیبہ، ج، ص 237)

روایت کی تحقیق

روایت کا درجہ

یہ روایت ضعیف ہے، اور محدثین کرام نے اس کو وہم اور باطل قرار دیا ہے۔

محدثین کی آراء

امام یحییٰ بن معینؒ کا تبصرہ:

"حديث أبي بكر عن حصين إنما هو توهم منه لا أصل له”
یعنی: ابوبکر کی حصین سے روایت ان کا وہم ہے، اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔
(جزء رفع یدین: 16، نصب الرایہ 1/392)
✅ یہ جرح واضح اور مفصل ہے، اور ابن معین جیسے جلیل القدر ناقد کی بات کو رد کرنا اہل علم کے لیے ممکن نہیں۔

امام احمد بن حنبلؒ کی رائے:

"رواه أبوبكر بن عياش عن حصين عن مجاهد عن ابن عمر وهو باطل”
یعنی: اسے ابوبکر بن عیاش نے حصین سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا، اور یہ روایت باطل ہے۔
(مسائل احمد، روایت ابن ہانی، ض، ج، ص 50)
🔍 اس بیان میں روایت کو باطل اور قابل رد قرار دیا گیا ہے۔

ابوبکر بن عیاش کے متعلق وضاحت

اگرچہ ابوبکر بن عیاش کے بارے میں بعض قدیم اقوال میں ضعیف کہا گیا ہے، لیکن بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ جمہور محدثین کے نزدیک صدوق وموثق ہیں۔

📌 اس رجوع کو راقم نے اپنے مضمون میں واضح کیا:
ماہنامہ الحدیث حضرو: 28، ص 54، تحریر: 22 ربیع الثانی 1427ھ

راقم کی قدیم تحقیق اور رجوع

سابقہ تحقیق: ابوبکر بن عیاش کو جمہور کے نزدیک ضعیف راوی سمجھا۔
نئی تحقیق: جمہور کے نزدیک موثق وصدوق ہیں۔
واضح رجوع کر لیا گیا۔

اس روایت کی حیثیت

اس روایت کو شاذ اور ضعیف قرار دیا گیا۔

امام ابن عمرؓ کے برعکس صحیح روایات موجود ہیں جن میں رفع یدین کا ذکر ہے۔

صحیح روایات سے کیا ثابت ہے؟

صحیح بخاری اور دیگر احادیث کی کتب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:

◈ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ خود اور تابعین کے دور میں بھی رفع یدین کیا جاتا تھا۔
(دیکھئے: حدیث السراج 2/34، ح 115)

✅ اس کے برعکس عمل کرنے والوں کو کنکریاں ماری جاتی تھیں۔
(جزء رفع یدین للبخاری وغیرہ؛ شہادت، جولائی 2000)

نتیجہ

مذکورہ روایت کو ائمہ حدیث نے ضعیف، شاذ اور باطل قرار دیا۔

امام یحییٰ بن معینؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے ناقدین کی جرح اس روایت کو قابل قبول نہیں چھوڑتی۔

صحیح احادیث کی روشنی میں رفع یدین ثابت اور مشروع ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1