ابن عمرؓ کی رفع الیدین سے متعلق ایک ضعیف روایت کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد 1، کتاب الصلاۃ، صفحہ 350

روایت کی تحقیق

سوال:

روایت:
"عن عبدالعزيز بن حكيم قال: رايت ابن عمر يرفع يديه حذو اذنيه في اول تكبيرة ولم يرفعها فيما سوي ذلك
(موطا امام محمد ص 9)

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے، جس کے دلائل درج ذیل ہیں:

➊ روایت کا مرکزی راوی: محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی

یہ راوی سخت مجروح ہے۔

قاضی ابو یوسف نے اس کے بارے میں کہا:
"اس کذاب یعنی محمد بن الحسن سے کہو: یہ مجھ سے جو روایتیں بیان کرتا ہے کیا اس نے سنی ہیں؟”
(تاریخ بغداد 2/180، وسند حسن، ماہنامہ الحدیث: 55، ص 29)

امام یحیی بن معین نے فرمایا:
"جهمي كذاب” یعنی وہ جہمی اور کذاب تھا۔
(کتاب الضعفاء للعقیلی 4/52، وسندہ صحیح، لسان المیزان 5/122۔ دوسرا نسخہ 6/28، ماہنامہ الحدیث: 55، ص 13)

مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے:
تحقیقی مضمون: "تائید ربانی اور ابن فرقد شیبانی”
(ماہنامہ الحدیث: شمارہ 55)

حافظ ذہبی جیسے متاخرین نے اسے صرف موطا امام مالک کی روایت میں قوی قرار دیا ہے۔
مگر یہ قوی قرار دینا محل نظر ہے۔

مزید یہ کہ زیرِ بحث روایت موطا امام مالک کی ہرگز نہیں ہے۔

➋ دوسرا راوی: محمد بن أبان بن صالح الجعفی

یہ راوی بالاتفاق ضعیف ہے۔

حوالہ:
(دیکھئے: نور العین ص 173 اور کتب اسماء الرجال)

خلاصہ و رائے:

یہ روایت سند کے اعتبار سے ناقابلِ اعتماد ہے کیونکہ:

◈ اس میں شامل دونوں راوی سخت مجروح اور ضعیف ہیں۔
◈ روایت کو قوت دینے کے دعوے محض غلط فہمی یا محلِ نظر پر مبنی ہیں۔
◈ یہ روایت موطا امام مالک کی نہیں بلکہ موطا امام محمد کی ہے، جس میں محمد بن الحسن الشیبانی راوی ہے، جو قابلِ اعتماد نہیں۔

ھذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1