سوال
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا ابن عربیؒ پر شدید رد، جبکہ وہ الحاد سے تائب ہو چکے تھے؟
سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ:
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے ابن عربیؒ پر انتہائی سخت رد فرمایا، حالانکہ ابن عربیؒ الحاد و زندقہ سے توبہ کرچکے تھے اور فصوص و تفسیر میں موجود باطل خیالات کو ترک کر چکے تھے، جیسا کہ "فتوحات مکیہ” کا مطالعہ کرنے والے پر واضح ہوتا ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علمائے امت کا ابن عربیؒ کے بارے میں اختلاف
◈ علماء کا ابن عربیؒ کے بارے میں اختلاف قدیم ہے اور معروف بھی۔
◈ کچھ علماء نے ان کی بعض ظاہری عبارات کو دین کے صریح خلاف سمجھتے ہوئے ان کی تکفیر تک کی، جن میں شامل ہیں:
➤ امام حافظ ابن تیمیہؒ
➤ علامہ شوکانیؒ نے اپنی قدیم رسالہ "الصوارم الحداد القاطعة لأعناق مقالات أرباب الإلحاد” میں سخت رد کیا۔
─ اس رسالہ کو "الفتح الربانی” (فتاویٰ کی مطبوعہ مجموعہ، مدرسہ رحمانیہ) میں شامل کیا گیا ہے۔
─ اس میں انہوں نے ابن فارض، ابن عربی، ابن سبعین، تلمسانی، جیلی اور ان کے پیروکاروں پر تفصیل سے رد کیا، خاص طور پر "وحدۃ الوجود” کے مسئلہ پر۔
تأویلات اور توقف کا موقف
◈ بعض علماء نے ابن عربیؒ کے اقوال و افعال کی تأویل کی اور ان کے بلند علمی مرتبے، باطنی و ظاہری کمالات کے باعث توقف اختیار کیا۔
◈ علامہ شوکانیؒ نے بھی بعد میں اسی طرف رجوع کیا:
─ انہوں نے فرمایا:
"یقول مؤلف هذا الرسالة غفر الله له، هو تائب إلی الله من جميع ما حواه فيها مما لا يرضی الله عز وجل، وقد طالعت بعد تأليفها الفتوحات والفصوص، فرأيت ما للتأويل فيه مدخلًا، لا سيما عند هؤلاء الذين هم خلاصة من عباد الله عز وجل، وكان هذا بعد تحرير الرسالة بزيادة على أربعين سنة”.
تکفیر و تضلیل کے متعلق احتیاط کی ضرورت
◈ کسی ایسے شخص کی تکفیر کرنا جو:
➤ ظاہری طور پر اسلام پر قائم ہو
➤ شریعت پر عمل کرتا ہو
➤ محض ظاہر میں قابل تأویل اقوال کی بنیاد پر
➤ یہ مناسب اور احتیاطی رویہ نہیں ہے۔
◈ کئی علماء نے یہ بھی کہا کہ:
─ "ابن عربی کی بعض تصنیفات جیسے فصوص و فتوحات کی عبارات دشمنوں کی طرف سے داخل کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو ان سے متنفر کیا جائے”۔
بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے مؤقف
◈ ہم جو ابن عربیؒ کے کئی سو سال بعد پیدا ہوئے:
➤ ہمیں ان کے بارے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے۔
➤ اور قرآنی ہدایت پر عمل کرنا چاہیے:
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(البقرة: 134)
وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ
(الحشر)
◈ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"لا تسبوا الأموات فإنهم أفضوا إلى ما قدموا”
(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قُدِّموا، 3/258)
فتویٰ کا اصولی نکتہ
◈ کسی شخصیت کو گمراہ، فاسق یا بدعتی قرار دینا:
➤ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب:
─ اس کے تمام حالات، اقوال، سیرت اور عقائد کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے۔
─ یہ کام صرف وہی شخص کر سکتا ہے:
▪ جس نے اسے معاصر طور پر دیکھا ہو
▪ یا اس کی مفصل سوانح حیات کسی معتبر ماخذ سے پڑھی ہو
─ جیسے: وفیات الاعیان، الدرر الکامنة، البدر الطالع، تاریخ بغداد وغیرہ۔
◈ صرف چند عبارات دیکھ کر کسی کو گمراہ کہنا:
➤ یہ خطرناک اور بے احتیاطی ہے۔
➤ کیونکہ ممکن ہے:
─ اس نے لاعلمی، کم فہمی، یا کسی اجتہادی خطا سے وہ بات لکھی ہو۔
─ اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے حق کی طرف ہدایت دی ہو۔
نتیجہ
◈ فیصلہ یہی ہے کہ:
➤ صرف وہ اقوال و افعال قبول کیے جائیں جو کتاب و سنت کے مطابق ہوں۔
➤ جو اس کے خلاف ہوں، انہیں ترک کر دیا جائے۔
"كل أحد يؤخذ من قوله ويترك، إلا رسول الله ﷺ”
◈ یہی بات ائمہ علم قدیم و جدید نے تسلیم کی ہے، اور یہی حق اور درست موقف ہے۔
مؤقفِ نواب صدیق حسن خانؒ
◈ ان کا نظریہ بھی اسی اصول پر مبنی ہے:
➤ وہ فرماتے ہیں:
"ولأهل العلم خلاف قديم ومعروف عن ابن عربي ومنصور، ونظر إلى أقوالهما وأحوالهما المخالفة للشرع، تجرأ جمع إلى تكفيرهما، منهم الإمام العلامة الشوكاني رحمه الله…، ونظر إلى علو شأنهم… فتوقفوا، ومنهم الشوكاني في الفتح الرباني أيضاً، قال: طالعت الفتوحات والفصوص فرأيت ما للتأويل فيه مدخلاً”.
◈ وہی مؤقف دہراتے ہیں:
"ما دام يمكن إثبات الإسلام بتأويل، لماذا يكفر من يقرب الإسلام ويعمل بأحكام الشريعة؟”
خلاصہ کلام
◈ جس قدر کتاب و سنت سے مطابقت رکھنے والے اقوال ابن عربیؒ سے ثابت ہوں، ان کو قبول کرنا درست ہے۔
◈ اور باقی کو رد کر دینا ہی مناسب اور اصولی رویہ ہے۔
◈ اسی پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔
هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب