سوال
کیا مرد و عورت کے لیے ابروؤں کے بال کاٹنا یا نوچنا جائز ہے؟ اور کیا دونوں کے لیے پنڈلی، ہاتھوں وغیرہ کے بال مونڈنا جائز ہے؟ تفصیل سے وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابروؤں کے بال نوچنے کے متعلق شرعی حکم
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے:
"اللہ تعالیٰ لعنت کرے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر، منہ کے بال نکالنے والیوں اور نکلوانے والیوں پر، خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر، اور ان سب پر جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔”
(الحدیث)
"متمصات” کے بارے میں لغوی وضاحت:
"نہایہ” اور "لسان العرب” کے مطابق:
متمصات وہ عورتیں ہیں جو ابروؤں کو باریک کرنے کے لیے ان کے بال نوچتی ہیں۔
امام نووی کی وضاحت (شرح صحیح مسلم 205/2):
"النامصہ”: وہ عورت جو چہرے کے بال نوچتی ہے۔
"المتنمصہ”: وہ عورت جو اس عمل کی خواہش رکھتی ہے۔
یہ عمل حرام ہے۔
استثناء کی صورت:
اگر عورت کے چہرے پر داڑھی یا مونچھیں نکل آئیں، تو ان کا ازالہ حرام نہیں بلکہ مستحب ہے۔
ممانعت خاص طور پر ابروؤں اور چہرے کے کناروں سے بال اکھاڑنے پر ہے۔
کیا یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے؟
یہ ممانعت مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے۔
ہاتھوں اور پیروں کے بالوں کے متعلق حکم
اگر ہاتھوں یا پیروں پر زیادہ بال ہوں تو ان کے ازالے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ بدنما پن پیدا کرتے ہیں۔
اگر بال معمول کے مطابق ہوں، تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ انہیں رہنے دینا چاہیے، کیونکہ ان کو ہٹانا اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنے کے زمرے میں آتا ہے۔
راجح رائے:
ان کا ازالہ جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر سکوت فرمایا ہے۔
اصول: جس پر اللہ تعالیٰ نے سکوت فرمایا، وہ معاف ہے
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"جس سے اللہ تعالیٰ سکوت اختیار کرے، وہ معاف ہے”
شرعی اصول: اشیاء میں اصل کیا ہے؟
تمام اشیاء کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:
➊ جن کے لینے کی حرمت پر شارع کی نص موجود ہو:
مثال: مرد کی داڑھی، مرد و عورت دونوں کی ابروئیں۔
➋ جن کے لینے پر شارع کی نص موجود ہو:
مثال: بغل اور شرمگاہ کے بال، مرد کی مونچھیں۔
➌ جن سے شارع نے سکوت اختیار کیا ہو:
یہ معاف ہیں، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے وجود کو ناپسند کرتا تو ان کے ازالے کا حکم دیتا، اور اگر باقی رکھنا مقصود ہوتا تو باقی رکھنے کا حکم دیتا۔
لہٰذا انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو زائل کرے یا باقی رکھے۔
دُبر کے بال مونڈنے کا حکم
امام نووی کی شرح مسلم (128/1) کے مطابق:
"عانہ” سے مراد:
➊ وہ بال جو مرد کے ذکر اور اس کے آس پاس ہوتے ہیں۔
➋ وہ بال جو عورت کے فرج اور اس کے آس پاس ہوتے ہیں۔
"ابو العباس بن سریج” سے نقل ہے کہ "عانہ” میں وہ بال بھی شامل ہیں جو دُبر کے حلقے کے آس پاس ہوتے ہیں۔
نتیجہ:
قبل و دبر کے آس پاس تمام بالوں کو مونڈنا مستحب ہے۔
نبی کریم ﷺ کے بالصفا پاؤڈر کے استعمال کی روایت
ابن ماجہ (2؍ رقم: 3751) میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
"نبی ﷺ جب بالصفا استعمال کرتے، تو پہلے شرمگاہ پر لگاتے، پھر سارے بدن پر۔”
(تفصیل کے لیے دیکھیں: 1؍160)
نوٹ:
یہ روایت ضعیف ہے۔
نتیجہ
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب