زاد الیقین فی تحقیق بعض روایات التامین
سوال:
کیا جہری نمازوں میں امام اور مقتدیوں کا آمین بلند آواز سے کہنا ثابت ہے؟ دلائل کے ساتھ وضاحت کریں۔
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد:
آمین بالجہر کے ثبوت میں چند صحیح و حسن احادیث:
➊ پہلی روایت: سنن ابی داؤد و دیگر کتب حدیث سے
اصل روایت:
قال الامام ابوداود رحمة الله:
حدثنا محمد بن كثير: اخبرنا سفيان عن سلمة، عن حجر أبي العنبس الحضرمي، أن وائل بن حجر قال:
"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قرأ وَلاَ الضَّالِّينَ قال آمين ورفع بها صوته”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا الضالین کی قرآءت کے بعد آمین کہتے اور اپنی آواز اس کے ساتھ بلند فرماتے تھے۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص141، 142، ح932 باب التامین دراء الامام)
یہ روایت مسند الدارمی (ج1 ص284 ح1250) میں بھی ہے۔
سند کا تعارف:
محمد بن کثیر العبدي البصری
صحیح بخاری و مسلم کے راوی
صحیح بخاری میں ان کی 60 سے زائد روایات
(مفتاح صحیح البخاری ص156)
سفیان بن سعید الثوری
صحیح بخاری و مسلم کے مرکزی راوی
معروف ثقہ امام
سلمہ بن کہیل
ثقہ راوی (التقریب: 2508)
حجر ابو العنبس
ثقہ (الکاشف للذہبی ج1 ص150)
وائل بن حجر
مشہور صحابی رضی اللہ عنہ
روایت کا درجہ:
یہ روایت صحیح ہے۔ الحمد للہ۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب:
معترض:
مولوی محمد امین صفدر اوکاڑوی (دیوبندی مکتبہ فکر) نے کہا:
سفیان مدلس، علاء بن صالح شیعہ، محمد بن کثیر ضعیف۔
جواب:
سفیان ثوری کی تدلیس کا رد:
امام بخاری نے فرمایا:
"ما اقل تدليسه”
(علل الترمذی الکبیر ج2 ص966)
دیوبندی اصول کے مطابق تدلیس غیر مضر:
ظفر احمد تھانوی دیوبندی:
"والتدليس والارسال في القرون الثلاثة لا يضر عندنا”
(اعلاء السنن ج1 ص313)
رفع یدین والی حدیث پر خود انحصار:
دیوبندی و بریلوی حضرات خود سفیان کی "عن” والی روایت سے رفع یدین کا انکار کرتے ہیں۔
علاء بن صالح ہماری روایت میں موجود ہی نہیں۔
محمد بن کثیر العبدي پر جرح مردود ہے۔
➋ دوسری روایت: سنن ابن ماجہ
"مَا حَسَدَتْكُمْ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلَامِ وَالتَّأْمِينِ”
(سنن ابن ماجہ ج1 ص278 ح856، سندہ صحیح)
منذری و بوصیری نے صحیح کہا (الترغیب والترہیب ج1 ص328، زوائد ابن ماجہ)
سند کا تعارف:
اسحاق بن منصور الکوسج — ثقہ ثبت (التقریب: 384)
عبدالصمد بن عبدالوارث — صدوق ثبت فی شبہ (التقریب: 4080)
حماد بن سلمہ — صحیح مسلم کے راوی، ثقہ (قبل از اختلاط سماع ثابت)
سہیل بن ابی صالح — صدوق، تغییر حافظہ بعد میں ہوا (التقریب: 2675)
ابو صالح ذکوان — ثقہ ثبت (التقریب: 1841)
عائشہ رضی اللہ عنہا — مشہور صحابیہ
مفہوم:
یہودی مسلمانوں سے دو باتوں پر حسد کرتے تھے:
◈ ایک دوسرے کو سلام کہنا
◈ آمین کہنا (یعنی بلند آواز میں سنتے تھے)
➌ تیسری روایت: سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
"إن اليهود ليحسدونكم على السلام والتأمين”
"بے شک یہود تم سے سلام اور آمین کی وجہ سے حسد کرتے ہیں”
(تاریخ بغداد 11/43، المختارہ ضیاء مقدسی 5/107 ح17129)
سند صحیح، تمام راوی ثقہ و صدوق
➍ چوتھی روایت: آمین بالجہر امام کے پیچھے کہنا
"وقولهم خلف إمامهم في المكتوبة”
اس حسد کی وجہ مسلمانوں کا امام کے پیچھے آمین کہنا ہے۔
(الترغیب والترہیب ج1 ص328، 329، مجمع الزوائد ج2 ص113، اسناد حسن)
➎ پانچویں روایت: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل
"إذا كان مع الإمام يقرأ بأم القرآن فأمن الناس أمن ابن عمر ورأى تلك السنة”
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے سورۃ فاتحہ پڑھتے پھر لوگ آمین کہتے تو آپ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )بھی آمین کہتے اور اسے سنت قرار دیتے۔
(صحیح ابن خزیمہ 1/287 ح572)
سند کے راوی:
نافع: ثقہ ثبت فقیہ (التقریب: 7086)
اسامہ بن زید: ثقہ صدوق، صحیح مسلم کے راوی
ابن وہب، ابو سعید الجعفی، محمد بن یحییٰ: ثقہ و جلیل
جمہور اقوال کے مطابق یہ روایت حسن ہے۔
➏ چھٹی روایت: امام بیہقی کا قول
"أنه كان يرفع بها صوته، إماما كان أو مأموما”
(السنن الکبری 2/59)
امام یا مقتدی، دونوں صورتوں میں ابن عمر بلند آواز سے آمین کہتے۔
➐ ساتویں روایت: بخاری میں نافع کی شہادت
"كان ابن عمر لا يدعه، ويحضهم، وسمعت منه في ذلك خبراً”
(بخاری مع فتح الباری 2/209، مصنف عبدالرزاق ح2641)
➑ آٹھویں روایت: ابن جریج کے ذریعے نقل
"إن ابن عمر كان إذا ختم أمّ القرآن قال: آمين، لا يدع أن يؤمن إذا ختمها، ويحضهم على قولها”
(تغلیق التعلیق 2/319)
نتیجہ:
رسول اللہ ﷺ کی آمین بالجہر کی سنت صحیح و متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی اس پر تھا۔
مخالفین کی تمام دلائل ضعیف، مبہم، اور بلا سند ہیں۔
اس تحقیق کے مطابق، جہری نمازوں میں امام اور مقتدی دونوں کا بلند آواز سے آمین کہنا صحیح سنت ہے۔
نوٹ:
اس مضمون "زاد الیقین فی تحقیق بعض روایات التامین” کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا (18 ستمبر 2004ء تک)۔
لہٰذا یہ مضمون ماہنامہ "الحدیث” میں شائع کیا گیا۔
(16 شعبان 1423ھ بمطابق 23 اکتوبر 2002ء، الحدیث:7)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب