دیوبندی بنام دیو بندی
”حدیث اور اہل حدیث“ کتاب کے رسالے ”اخفاء التامین“ کا مکمل جواب دیو بندی کتابوں کی رو سے پیش خدمت ہے۔ والحمد للہ
دیوبندی (1)
جواب:
یہ روایت الدر المخور (جلد 3 صفحہ 315) میں وأخرج أبو الشيخ کی سند کے ساتھ موجود ہے، لیکن اس کی سند مذکور نہیں۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی نے فرمایا: ”بے سند بات حجت نہیں ہو سکتی۔“
(احسن الکلام جلد 1 صفحہ 327، طبع دوم، اثر سعید بن المسیب)
محمد حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی نے فرمایا: ”بغیر سند کے بات قابل اعتبار نہیں ہو سکتی۔“
(اظہار التحسین صفحہ 173، طبع 1982ء)
تنبیہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس مفہوم کی روایت مصنف عبدالرزاق(جلد 2 صفحہ 99 حدیث 2651) میں بشر بن رافع عن ابي عبدالله عن ابي هريره کی سند سے موجود ہے۔ بشر بن رافع کے بارے میں حبیب اللہ ڈیروی نے فرمایا: ”وضاع ہے یعنی حدیث اپنی طرف سے گھڑنے والا۔“
(اظہار التحسین صفحہ 132) اور ابو عبداللہ کے بارے میں فرمایا: ”مجہول ہے۔“ (اظہار التحسین صفحہ 133)
دیوبندی (2)
جواب:
ابن زید رضی اللہ عنہ والی روایت الدر المخور (جلد 3 صفحہ 315) میں بحوالہ ابن جریر مذکور ہے۔ تفسیر ابن جریر (جلد 11 صفحہ 11) میں یہ روایت درج ذیل سند سے موجود ہے: حدثني يونس قال أخبرنا ابن وهب قال قال ابن زيد كان هارون يقول آمين إلخ ۔ یونس سے مراد ابن عبدالاعلیٰ، ابن وہب سے مراد عبداللہ بن وہب، اور ابن زید سے مراد عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے۔
(دیکھیے تفسیر ابن جریر جلد 1 صفحہ 67)
عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں محمد بن علی النیموی نے فرمایا: هو ضعيف یعنی وہ ضعیف ہے۔ (آثار السنن صفحہ 194، حاشیہ حدیث نمبر 586)
دیوبندی حضرات آثار السنن اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں، یہ ان کی مستند کتاب ہے۔ (دیکھیے مقدمہ: توضیح السنن جلد 1 صفحہ 64، 65)
معلوم ہوا کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم صحابی نہیں بلکہ ضعیف راوی ہے، لہٰذا اس کے نام کے ساتھ” رضی اللہ عنہ“ لکھنا اردو دان طبقے کو دھوکا دینا ہے۔
دیوبندی (3)
جواب:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت تفسیر ابن کثیر (جلد 1 صفحہ 34) میں بلا سند مذکور ہے۔ جامع المسانید والسنن لابن کثیر میں یہ روایت نہیں ملی۔ تاہم المطالب العاليه بزوائد المسانيد الثمانيه لابن حجر (جلد 1 صفحہ 123 حدیث 450) میں یہ روایت موجود ہے۔ المطالب کے حاشیہ نگار حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی نے فرمایا: ”ضعف البوصيري اسناده لضعف زربي بن عبدالله، قال ورواه ابن خزيمه فى صحيحه وتردد فى ثبوته وقال ان ثبت الخبر“ یعنی اگر یہ خبر ثابت ہو تو۔ (جلد 3 صفحہ 39 حدیث 1586)
بوصیری نے اس سند کو زربی بن عبداللہ کے ضعف کی وجہ سے ضعیف کہا اور فرمایا کہ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اسے روایت کیا اور اس کے ثبوت میں تردد کیا۔(حاشیہ نمبر : 3)
صحیح ابن خزیمہ ( جلد 3 صفحہ 39 حدیث 1586) والی سند میں زربی بن عبداللہ ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ خبر امام ابن خزیمہ کے نزدیک ثابت نہیں ہے۔
دیوبندی (4)
جواب:
صحیح بخاری کے اسی صفحے (جلد 1 صفحہ 70، قبل حدیث 780) پر لکھا ہوا ہے:
وقال عطاء آمين دعاء أمن ابن الزبير ومن وراءه حتي ان للمسجد للجة
ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آمین ایک دعا ہے۔ ابن الزبیر رضی اللہ عنہما اور ان لوگوں نے جو آپ کے پیچھے (نماز پڑھ رہے) تھے، آمین کہی تو مسجد گونج اٹھی۔
(صحیح بخاری مترجم جلد 1 صفحہ 391، ترجمہ ظہور الباری اعظمی دیوبندی)
بعض الناس نے اس اثر میں أمن ابن الزبير سے لے کر آخر تک چھپا لیا ہے۔ اس مکمل قول سے معلوم ہوا کہ آمین ایسی دعا ہے جو جہر کی جا سکتی ہے۔ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع میں لاؤڈ سپیکر پر اونچی دعا کرنے والوں کو اس دعوے سے شرم کرنی چاہیے کہ ہر دعا خفیہ ہی ہو گی، جہر سے نہیں ہو گی۔
دیوبندی (5)
جواب:
مجاهد، جعفر الصادق اور هلال بن يساف كے اقوال تفسير قرطبي (جلد 1 صفحہ 128) میں بلا سند اور روى کے صیغہ تمریض سے منقول ہیں۔
یاد رہے کہ السلام عليكم بھی اسم من اسماء اللہ ہے۔ دیکھیے صحيح البخاري، كتاب الاستئذان، باب السلام اسم من اسماء الله تعاليٰ (قبل حدیث 6230)۔ کیا خیال ہے؟ السلام عليكم بھی دل میں کہنا چاہیے؟
اس کے بعد بعض الناس کی ذکر کردہ روایات پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔
دیوبندی (6)
جواب:
سنن ابی داود، (کتاب الادب، باب کیف الاستئذان حدیث 5177) کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غیر کے گھر میں داخل ہونے والے کو حکم دیا:
قل السلام عليكم أأدخل یعنی کہو السلام عليكم ، کیا میں اندر آجاؤں؟ قولوا آمين کی طرح قل السلام عليكم ہے۔ کیا خیال ہے؟ دوسرے آدمی کے گھر میں جانے والا آدمی دل میں خفیہ السلام عليكم کہے گا تا کہ گھر والا سن نہ لے؟
دیوبندی (7)
جواب:
دیکھئے حدیث نمبر1
دیوبندی (8)
جواب:
یہ آمین بالجہر کی دلیل ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے اس مفہوم کی ایک روایت کے آخر میں امام السراج نے امام ابن شہاب الزہری سے روایت کیا ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا قال ولا الضالين جهر بآمين
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ولا الضالين کہتے تو جہر سے آمین کہتے۔
(کتاب السراج صفحہ 35 بقلمی مصور، وفتح الباری جلد 2 صفحہ 264 حدیث 780)
دیوبندی (9)
جواب:
فقولوا آمين یعنی تم آمین کہو۔
یہ آمین بالجہر کی دلیل ہے، دیکھیے حدیث نمبر2
دیوبندی (10)
جواب:
و سكوته اذا فرغ من غير المغضوب عليهم ولا الضالين یعنی دوسرا سکتہ جب آپ غير المغضوب عليهم ولا الضالين کو پڑھ کر فارغ ہوتے تو کرتے۔
(بحوالہ ابو داود جلد 1 صفحہ 113 حدیث 779 والترمذی جلد 1 صفحہ 59 حدیث 251)
ان دونوں روایتوں کی سند میں قتادہ راوی ہیں اور روایت عن سے ہے۔ قتادہ کے بارے میں ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے فرمایا: ”قتادہ مدلس ہے۔“
(جزء رفع الیدین صفحہ 289 و تجلیات صفدر جلد 3 صفحہ 318، طبع جمعیتہ اشاعۃ العلوم الحنفیہ فیصل آباد)
اگر مدلس راوی عن سے روایت کرے تو اوکاڑوی نے فرمایا: ”بالاتفاق ضعف کی دلیل ہے۔“
(جزء القراءة صفحہ 72 و تجلیات صفدر جلد 3 صفحہ 93)
سرفراز خان صفدر دیوبندی نے فرمایا: ”مدلس راوی عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا اس کا کوئی ثقہ متابع ہو، مگر یاد رہے کہ صحیحین میں تدلیس مضر نہیں، وہ دوسرے طرق سے سماع پر محمول ہے۔“
(خزائن السنن جلد 1 صفحہ 1)
دیوبندی (11)
جواب:
اس روایت کے بارے میں نیموی نے فرمایا: وإسناده صحيح وفي متنه اضطراب
(آثار السنن صفحہ 124، حدیث 384)
یعنی اس کی سند (بظاہر) صحیح ہے اور اس کے متن میں اضطراب ہے۔
نیموی نے مزید فرمایا:
فغايته أن الحديث مضطرب لا يصح الإحتجاج لأحد الفريقين
یعنی زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے، دونوں فریقوں میں سے کسی کے لیے بھی اس سے حجت پکڑنا صحیح نہیں ہے۔ (حاشیہ آثار السنن صفحہ 125)
اصول حدیث کے طالب علموں کو معلوم ہے کہ مضطرب روایت ضعیف ہوتی ہے۔
دیوبندی (12)
جواب:
یہ روایت بقول نیموی مضطرب ہے، دیکھیے حدیث نمبر 6۔
دیوبندی (13)
جواب:
مضطرب ہے، دیکھیے حدیث نمبر6۔
دیوبندی (14)
جواب:
مضطرب ہے، دیکھیے حدیث نمبر 6۔
دیوبندی (15)
جواب:
مضطرب ہے، دیکھیے حدیث نمبر 6۔
دیوبندی (16)
جواب:
مضطرب (ضعیف) ہے، دیکھیے حدیث نمبر6۔
دیوبندی (17)
جواب:
كنز العمال (جلد 8 صفحہ 227 حدیث 22893) میں یہ روایت بحوالہ ابن جریر مذکور ہے۔ یہ روایت بلا سند ہے۔ ابن جریر کی کتاب (تهذيب الآثار مسند امير المومنين عمر رضي الله عنه) میں یہ روایت نہیں ملی۔ ابراہیم النخعی 37ھ یا 50ھ میں پیدا ہوئے۔
(عمدۃ القاری جلد 1 صفحہ 214 حدیث 32)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ 24ھ میں شہید ہوئے۔ (خلفائے راشدین صفحہ 7، تصنیف: عبدالشکور فاروقی لکھنوی) لہٰذا یہ بے سند روایت منقطع بھی ہے۔
دیوبندی (18)
جواب:
البنايه فى شرح الهدايه للعيني (جلد 2 صفحہ 226) میں یہ روایت بلا سند ہے۔
دیوبندی (19)
جواب:
محلي ابن حزم (جلد 3 صفحہ 249، مسئلہ 363) میں یہ روایت بلا سند مذکور ہے۔
دیوبندی (20)
جواب:
اس روایت کے بارے میں محمد بن علی النیموی نے فرمایا:
رواه الطحاوي وابن جرير وإسناده ضعيف
یعنی اسے طحاوی اور ابن جریر نے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔
(آثار السنن حدیث 385)
دیوبندی (21)
جواب:
الجوهر النقي (جلد 2 صفحہ 48) میں یہ روایت (ابن جریر الطبری کی تہذیب الآثار سے منقول ہے) جسے نیموی نے اسناده ضعيف قرار دیا ہے۔
(دیکھیے حدیث سابق 4)
اس کے راوی ابو سعد سعید بن المرزبان البقال کے بارے میں نیموی نے فرمایا: ضعفه غير واحد یعنی اسے ایک سے زیادہ (محدثین) نے ضعیف کہا ہے۔
(تعلیق آثار السنن صفحہ 129)
دیوبندی (22)
جواب:
الحجم الكبير للطبراني (جلد 9 صفحہ 302 حدیث 9304) میں ابو سعد البقال ہے، جس کی وجہ سے نیموی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(دیکھیے حدیث سابق 4، 5)
دیوبندی (23)
جواب:
المحلي لابن حزم (جلد 3 صفحہ 249، مسئلہ 363) میں اس کا راوی ابو حمزہ میمون الاعور القصاب الکوفی ہے، وهو ضعيف متروك الحديث۔
(المحلی ، حاشیہ حوالہ مذکورہ )
میمون ابو حمزہ کے بارے میں زیلعی حنفی نے فرمایا:
قال الدارقطني أبو حمزة هذا ميمون وهو ضعيف الحديث، قال ابن الجوزي فى التحقيق وقال أحمد هو متروك، وقال ابن معين ليس بشيء، وقال النسائي ليس بثقة .
(نصب الرایہ جلد 2 صفحہ 373)
دیوبندی (24)
جواب:
اس کا راوی سفیان بن سعید الثوری ہے۔
(مصنف عبدالرزاق حدیث 2597 و مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 8849)
سفیان الثوری کے بارے میں امین اوکاڑوی نے فرمایا: ”سفیان مدلس، علاء بن صالح شیعہ، محمد بن کثیر ضعیف ہے۔“
(مجموعہ رسائل جلد 3 صفحہ 331، طبع اول ستمبر 1994ء)
دیوبندی اصول سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اگر امام بخاری کے کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے سفیان عن منصور کو قوی قرار دیا جائے تو یہ ابراہیم نخعی کا قول ہے، جس کا تعلق مقتدیوں سے نہیں بلکہ صرف امام سے ہے، اور احادیث مرفوعہ، آثار صحابہ اور آثار تابعین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
دیوبندی (25)
جواب:
اس کا راوی حماد بن ابی سلیمان مختلط ہے۔ حافظ ہیثمی نے فرمایا:
ولا يقبل من حديث حماد إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان الثوري والدستوائي ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الإختلاط
یعنی حماد کی صرف وہی روایت مقبول ہے جو اس سے اس کے قدیم شاگردوں شعبہ، سفیان ثوری اور (ہشام) الدستوائی نے بیان کی ہے، ان کے علاوہ سب لوگوں نے اس کے اختلاط کے بعد روایت لی ہے۔
(مجمع الزوائد جلد 1 صفحہ 119، 120)
روایت مذکورہ میں اس کا شاگرد معمر بن راشد ہے۔ دوسری روایت (ابن ابی شیبہ حدیث 8848) میں محمد بن ابی لیلی ضعیف ہے۔ (فیض الباری جلد 3 صفحہ 168، تصنیف انورشاہ کشمیری دیوبندی) حافظ ہیثمی کے بارے میں سرفراز خان صفدر نے فرمایا: ”اپنے وقت میں اگر علامہ ہیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہ تھی تو اور کس کو تھی؟“ (احسن الکلام جلد 1 صفحہ 233، طبع دوم) نیز دیکھیے تسکین الصدور (صفحہ 242، 245)۔
دیوبندی (26)
جواب:
اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ ابراہیم نخعی کب خفیہ (سراً) آمین کہتے تھے؟ نماز میں یا نماز سے باہر؟ اگر نماز میں تو پھر جہری نماز میں سراً کہتے تھے یا سری نماز میں؟ یہ عین ممکن ہے کہ اس اثر سے مراد یہ ہو کہ ابراہیم نخعی مخفی (سری) نمازوں میں سراً آمین کہتے تھے۔
تابعین کے بارے میں دیوبندیوں کی پسندیدہ کتاب تذکرۃ النعمان ترجمہ عقود الجمان میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا: ”اگر صحابہ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔“ (صفحہ 241)
اس حوالے سے دو باتیں ثابت ہوئیں:
❀ اول: امام صاحب تابعین کے اقوال و افعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔
❀ دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں۔ اگر وہ خود تابعین میں سے ہوتے تو پھر تابعین کا علیحدہ ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
دیوبندی (27)
جواب:
الجوہر النقی میں الطبری کے یہ سارے حوالے بے سند اور روى کے صیغے سے مذکور ہیں۔
دیوبندی (28)
جواب:
المحلی کے مصنف حافظ ابن حزم کی پیدائش، سفیان ثوری اور ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ہوئی ہے، لہٰذا یہ سارے حوالے بے سند ہیں۔
دیوبندی (29)
جواب:
کتاب الآثار کے مصنف محمد بن الحسن الشیبانی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین نے فرمایا: جهمي كذاب (لسان المیزان جلد 5 صفحہ 123، کتاب الضعف للعقیلی جلد 4 صفحہ 52، وسندہ صحیح)
سرفراز صفدر دیوبندی صاحب نے حافظ ذہبی کے ایک غلط قول کو آنکھیں بند کر کے لکھا ہے کہ ”امام ابن معین عالی حنفیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔“ (الکلام المفید فی اثبات التقلید صفحہ 99، طبع 1413ھ)
سرفراز خان صاحب نے قاضی ابو یوسف کے بارے میں لکھا کہ ”فقہ میں حنفی اور من اصحاب ابی حنیفہ تھے۔“
(طائفہ منصورہ صفحہ 52، 53)
دیوبندی (30)
جواب:
علامہ نووی کی پیدائش، امام مالک، سفیان ثوری اور ابو حنیفہ کی وفات کے بہت بعد ہوئی، لہٰذا المجموع شرح المہذب کا حوالہ بلا سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
دیوبندی (31)
جواب:
المدونه الكبريٰ امام مالک کی کتاب نہیں ہے۔ صاحب مدونہ سحنون تک متصل سند معلوم نہیں ہے، لہٰذا یہ ساری کتاب بے سند ہوئی۔ ایک مشہور عالم ابو عثمان سعید بن محمد بن صبیح بن الحداد المغربی، صاحب سحنون، جو کہ مجتہدین میں سے تھے، (سیر اعلام النبلاء جلد 14 صفحہ 205) انہوں نے مدونہ کے رد میں ایک کتاب لکھی۔ ( ایضاً صفحہ 206)
وہ مدونه کو مدود (کیڑوں والی کتاب) کہتے تھے۔ (العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 122، دوسرا نسخہ صفحہ 443) الشیخ ابو عثمان اہل سنت کے اماموں میں سے تھے۔ آپ 302ھ میں فوت ہوئے، رحمہ اللہ سحنون ان کے بارے میں امام ابو یعلیٰ خلیلی فرماتے ہیں: لم يرض أهل الحديث حفظه یعنی محدثین اس کے حافظے پر راضی نہیں ہیں۔
(الارشاد جلد 1 صفحہ 269 و لسان المیزان جلد 3 صفحہ 8)
ابوالعرب نے سحنون کی بہت زیادہ تعریف کی ہے، لیکن خلیلی کا بہت بڑا مقام ہے۔ معلوم ہوا کہ سحنون مختلف فیہ راوی ہے۔ اگر یہ غیر مستند کتاب المدونہ بحنون تک صحیح ثابت بھی ہوتی تو موطا امام مالک (جلد 1 صفحہ 78 حدیث 191، تحقیقی) کی حدیث:
إذا علم الإمام فأمنوا یعنی جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو، کے مقابلے میں مردود تھی۔ کیونکہ اس بے سند کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام آمین نہ کہے۔ اس بے سند کتاب کے دوسرے مسائل بھی دیوبندی حضرات نہیں مانتے، مثلاً (جلد 1 صفحہ 68) پر لکھا ہوا ہے
❀ نماز میں بسم الله الرحمن الرحيم سراً بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔
❀ بقول المدونه الكبريٰ: امام مالک کے نزدیک نماز میں ہاتھ باندھنا مکروہ ہے۔ ان مسائل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
(جلد 1 صفحہ 76)
دیوبندی (32)
جواب:
امام شافعی کے اس قول سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
❀ اول: امام اونچی آواز سے آمین کہے۔ (دیوبندی اس کے سراسر خلاف ہیں)
❀ دوم: مقتدی اونچی آواز سے آمین نہ کہے۔ (اور اگر کہہ دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے)
امام ترمذی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے: أن يرفع الرجل صوته بالتأمين
یعنی آدمی کو اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیے۔
(باب ما جاء فی التأمین حدیث 238)
اس قول کی صحیح سندیں امام ترمذی کی کتاب العلل (طبع بیت الافکار صفحہ 608) میں موجود ہیں۔ معلوم ہوا کہ امام شافعی کے قول کی شق نمبر دو (2) خود ان کے فتوے کی رو سے منسوخ ہے۔
دیوبندی (33)
جواب:
امام شافعی و امام ابو حنیفہ کی وفات کے بہت عرصہ بعد فخر الدین رازی پیدا ہوئے تھے، لہٰذا یہ قول بلا سند ہے۔ ”حدیث اور اہل حدیث“ نامی کتاب کے کل دلائل کا جائزہ، آگے بعض الناس نے چالاکی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ” قرآن وسنت آثار صحابہ وتابعین اور اقوال ائمہ مجتہدین کے خلاف غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ آمین اونچی آواز سے کہنی چاہیے۔ “(ص 386) حالانکہ اونچی آواز سے آمین: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے۔
حسین احمد (مدنی) دیوبندی نے کہا: امام اعظم اور امام احمد فرماتے ہیں کہ صلوۃ سریہ و جہر، یہ دونوں میں امام اور مقتدی سب سراً آمین کہیں اور امام مالک اور امام شافعی جہراً کہتے تھے۔
تقریر ترمذی ص 388 طبع کتب خانہ مجیدیہ ملتان)
امام مالک کی روایت تو نہیں ملی۔ جبکہ آمین بالجہر کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں: وبه يقول الشافعي وأحمد وإسحاق اور شافعی، احمد اور اسحاق (بن راہویہ) رضی اللہ عنہ اسی کے قائل ہیں۔
(جامع الترمذی ح 248)
صحابہ رضی اللہ عنہم جہری نماز میں جہراً آمین کہتے تھے اور اخفاء میں آہستہ سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت میں کہتے تھے۔ نماز میں جہراً آمین کہنے کے بارے میں حدیثیں آئی ہیں۔ امام شافعی اور احمد کا مذہب اسی طرح ہے۔
(مدارج النبوۃ ج 2 ص 295 مترجم طبع مکتبہ اسلامیہ لاہور)
دیوبندی (34)
جواب:
آمین بالجہر کہنا سنت ہے جیسا کہ دلائل کے ساتھ گزر چکا ہے۔
(حدیث اور اہل حدیث صفحہ 383)
دیوبندی (35)
جواب:
اس کا جواب پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے۔ جہری نماز میں آہستہ آمین کہنا بالکل ثابت نہیں ہے۔
دیوبندی (36)
جواب:
یہ ثابت نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آمین بالجہر کہتے تھے، جو بادلائل گزر چکا ہے۔
دیوبندی (37)
جواب:
اس کا جواب بھی گزر چکا ہے۔
دیوبندی (38)
جواب:
اس کا جواب بھی گزر چکا ہے۔ کیا دیوبندی حضرات فرشتوں کے دوسرے امور دیکھتے یا سنتے ہیں کہ انہوں نے ”آمین کی آواز نہ سنے کی وجہ سے فرشتے آہستہ آمین کہتے ہیں“ کا حکم لگا دیا؟
دیوبندی (39)
جواب:
یہ شبہات ہیں، ان کا ازالہ احسن طریقہ سے ہو چکا ہے۔
دیوبندی (40)
جواب:
یہ فتاویٰ انہی لوگوں پر فٹ ہوتے ہیں، جو علم کے باوجود آمین بالجہر سے چڑتے ہیں اور آمین بالجہر کہنے والوں کو ہاتھ اور زبان سے ایذا پہنچاتے ہیں، بلکہ مار کٹائی کر کے اپنی مسجدوں سے باہر نکال دیتے ہیں، اور پھر بغیر کسی خوف و حیا کے” آمین بالجہر کو آمین بالشر“ کہتے ہیں۔
(دیکھیے کلمۃ الحق صفحہ 61، ہدیہ اہل حدیث از افادات اشرف علی تھانوی صفحہ 195 )۔
والله من ورائهم محيط
آمین بالجہر اور امین اوکاڑوی
ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے ”تحقیق مسئلہ آمین“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، جس کے اکثر شبہات کا جواب ہماری اس کتاب اور القول المتین (حصہ اول) میں آگیا ہے۔ اس اوکاڑوی کی کتاب کی بعض باتوں کا جائزہ درج ذیل ہے:
میں نے کہا: سرے سے یہ ہی ثابت نہیں کہ عطاء کی ملاقات دو سو صحابہ سے ہوئی ہو، اور یہ تو بالکل ہی غلط ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے وقت تک کسی ایک شہر میں دو سو صحابہ موجود ہوں۔ (تحقیق مسئلہ آمین صفحہ 44)
ایک دوسرے مقام پر اوکاڑوی صاحب فرماتے ہیں: مکہ مکرمہ بھی اسلام اور مسلمانوں کا مرکز ہے، حضرت عطاء بن ابی رباح یہاں کے مفتی ہیں، دو سو صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ (نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی شرعی حیثیت صفحہ 9)
مطلب کے لیے ملاقات کا شرف حاصل ہے، اور اگر روایت مطلب کے خلاف ہے تو ملاقات ثابت نہیں۔ یہ ہے دیوبندی انصاف!
(1) اوکاڑوی صاحب نے (صفحہ 6، 7) پر بحوالہ ابن خزیمہ ایک روایت لکھی ہے:
إن الله أعطى ني التأمين إلخ .
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ (جلد 3 صفحہ 158، حدیث 639) میں زربی بن عبداللہ عن انس رضی اللہ عنہ کی سند سے موجود ہے۔ امام ابن خزیمہ نے اس کے ثبوت میں شک کا اظہار کیا ہے، یعنی ان کے نزدیک یہ روایت ثابت نہیں ہے، جیسا کہ بحوالہ بوصیری پیچھے گزر چکا ہے: ”یہ روایت زربی بن عبداللہ کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔“
(2) فصل چہارم میں (صفحہ 8 تا 11)، اوکاڑوی صاحب نے آٹھ دلیلیں پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دعا آہستہ کرنی چاہیے۔ ساتویں دلیل کا راوی معاویہ بن بیٹی الصدفی، باعتراف امین اوکاڑوی، ضعیف عند ابی شی ہے۔ آٹھویں دلیل بے سند ہے۔ یہ آٹھ دلیلیں پیش کر کے اوکاڑوی صاحب نے رائے ونڈ کی جہری دعا کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا، جو یہ لوگ تبلیغی اجتماع کے آخری دن لاؤڈ سپیکر پر کرتے ہیں، اور اس دعا میں شمولیت کے لیے دیوبندی اور دیوبندی نما لوگ تشریف لے جاتے ہیں۔
(3)( صفحہ 26) پر حدیث السکتین ذکر کی ہے، جس کے بارے میں ابو بکر الجصاص حنفی کہتا ہے:
أما حديث السكتتين فهو غير ثابت یعنی سکتوں کی جو حدیث ہے وہ غیر ثابت ہے۔
(احکام القرآن جلد 4 صفحہ 217)
یاد رہے کہ قول راجح میں یہ دونوں سکتے قراءت کے اختتام پر ہیں، فاتحہ کے اختتام پر نہیں۔
(4)( صفحہ 26) پر اوکاڑوی صاحب نے بحوالہ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سکتتین والی روایت نقل کی ہے۔ مجھے یہ روایت نہیں ملی۔ تمام دیوبندیوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ ابو بکر بن ابی شیبہ کی کتاب سے یہ روایت با حوالہ مع سند و متن پیش کریں تاکہ اوکاڑوی صاحب کو وضع حدیث کے سنگین الزام سے بچایا جا سکے، ورنہ پھر نتیجہ ظاہر ہے۔
(5) اوکاڑوی صاحب نے( صفحہ 30 )پر ابراہیم نخعی کے بارے میں ”سيد التابعين“ لکھا ہے، جبکہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
فإن قول التابعي لا حجة فيه
یعنی بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے۔
(اعلاء السنن جلد 1 صفحہ 249)
(6) اوکاڑوی صاحب نے( صفحہ 44) پر بحوالہ طحاوی (معانی الآثار جلد 1 صفحہ 120) عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ ”وہ سرے سے آمین ہی نہ کہتے تھے۔“ مجھے یہ روایت شرح معانی الآثار میں نہیں ملی۔
(7) اوکاڑوی صاحب نے بحوالہ مجمع الزوائد (جلد 1 صفحہ 187) طبرانی کی اعجم الکبیر سے نقل کی ہے: ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قال آمين ثلاث مرات.“ (صفحہ 54) یہ روایت ہمارے نسخہ میں (جلد 2 صفحہ 113) اور اعجم الکبیر (جلد 22 صفحہ 22 حدیث 38) میں موجود ہے۔ اس کے راوی ابو اسحاق کے بارے میں اوکاڑوی نے لکھا ہے: ”جس کا حافظہ آخری زمانہ میں صحیح نہیں رہا تھا۔ پس یہ حدیث قابل استدلال نہیں ہے۔
(تحقیق مسئلہ آمین ص 53)
اور عبدالجبار عن ابیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ امام بخاری، ابن معین، ترمذی اور نسائی وغیرہ سب متفق ہیں کہ عبدالجبار نے اپنے باپ سے کوئی روایت نہیں سنی۔ پس یہ روایت مرسل ہوئی (ایضاً ص 53)۔ معلوم ہوا کہ یہ روایت اوکاڑوی صاحب کے اپنے اصول سے بھی ضعیف ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دیوبندیوں کے پاس آمین بالجہر کے خلاف اور آمین بالسر کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
﴿فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ﴾
(9-التوبة:45)
وما علينا إلا البلاغ