آخری بچے کو ماں کا دودھ کب تک پلایا جا سکتا ہے؟
ماخوذ: احکام و مسائل، نکاح کے مسائل، جلد 1، صفحہ 315

سوال

اگر میاں بیوی کو اندازہ ہو جائے کہ یہ ان کا آخری بچہ ہے، تو ایسے میں بچہ ماں کا دودھ کب تک پی سکتا ہے؟ یعنی دودھ پلانے کی مدت کیا ہوگی؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا ارشاد قرآن مجید میں موجود ہے:

﴿وَٱلۡوَٰلِدَٰتُ يُرۡضِعۡنَ أَوۡلَٰدَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِۖ لِمَنۡ أَرَادَ أَن يُتِمَّ ٱلرَّضَاعَةَۚ﴾
(البقرة: 233)
*’’اور مائیں دودھ پلائیں اپنی اولاد کو دو سال پورے، اُس شخص کے لیے جو ارادہ رکھتا ہو کہ دودھ پلانا مکمل کرے۔‘‘*

اسی طرح قرآن مجید کے ایک اور مقام پر فرمایا گیا:

﴿وَفِصَالُهُ فِيْ عَامَيْنِ﴾
(لقمان: 14)
*’’اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔‘‘*

تمام بچوں پر حکم یکساں لاگو ہوتا ہے:

ان آیات کا حکم ابتدائی، درمیانے اور آخری تمام بچوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ یعنی رضاعت (دودھ پلانے) کی جو مدت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے، وہ ہر بچے کے لیے یکساں ہے، خواہ وہ پہلا بچہ ہو یا آخری۔

دو سال سے پہلے دودھ چھڑانا بھی جائز ہے:

اگر ماں باپ آپس کے مشورے اور رضا مندی سے چاہیں تو دو سال سے پہلے بھی بچے کو دودھ چھڑا سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:

﴿فَإِنۡ أَرَادَا فِصَالًا عَن تَرَاضٖ مِّنۡهُمَا وَتَشَاوُرٖ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَاۗ﴾
(البقرة: 233)
*’’پس اگر وہ دونوں ارادہ کریں دودھ چھڑانے کا باہمی رضامندی اور مشورے سے، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘*

دوسری عورت سے دودھ پلوانا بھی جائز ہے:

اگر بچے کی ماں کسی وجہ سے دودھ نہ پلا سکے تو کسی اور عورت (مرضعہ) سے دودھ پلوانا بھی جائز ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿وَإِنۡ أَرَدتُّمۡ أَن تَسۡتَرۡضِعُوٓاْ أَوۡلَٰدَكُمۡ﴾
(البقرة: 233)
*’’اور اگر تم ارادہ کرو کہ کسی اور سے اپنی اولاد کو دودھ پلوا لو۔‘‘*

نتیجہ:

لہٰذا، آخری بچے کے لیے بھی دودھ پلانے کی مدت وہی ہے جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے: دو سال۔ اگر میاں بیوی کی باہمی رضامندی ہو تو وہ دو سال سے پہلے بھی دودھ چھڑا سکتے ہیں، اور کسی اور عورت سے دودھ پلوانا بھی شرعاً درست ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1