حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا تھا اور یہ کہتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ اور توراۃ قرآن کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے۔ یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انھوں نے مجھ سے کہا : تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں، لیکن تم یہ تو بتاؤ تمھیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ برحق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کتب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتے؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انھوں نے کہا حضرت آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجیے۔ اس بڑے پادری نے کہا سنیے، جناب ! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہٰذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم الله تعالی کے سچے رسول ہیں۔
میں نے کہا : افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبریل علیہ السلام ہیں جو نہایت سختی، تنگی، شدت، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر حضرت میکائیل علیہ السلام آتے جو رحمت وافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں مانے میں تامل نہ ہوتا۔ میں نے کہا: اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے؟ انھوں نے کہا: ایک تو جناب باری کے داہنے بازو کی طرف ہے اور دوسرا دوسری طرف، میں نے کہا :اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو۔ اللہ کا بھی دشمن ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبریل کے دشمن
سے میکائیل دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل کا دشمن جبرئیل کا دوست نہیں ہو سکتا۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے۔ واللہ ! مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف ہے۔ سنو جو خص الله تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرئیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اس کافر کا الله وحده لا شریک بھی دشمن ہے اتنا کہ کر میں چلا آیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا : اے ابن خطاب مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے، میں نے کہا حضور سنایئے۔ آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لیے حاضر خدمت ہوا تھا کہ آپ کو اطلاع کروں مگر میرے آنے سے پہلے لطیف وخبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [تفسير ابن كثير، تفسير سوره بقره آيت 98]
اس کی دو سندیں ہیں دونوں شعبی تک جاتی ہیں جبکہ شعبی نے سیدنا عمر کا زمانہ نہیں پایا۔ اس لیے یہ منقطع روایت ہے۔ [تفسير الطبري 1611]