ہیومن ازم اور مذاہب کی جدیدیت کا تجزیہ

مذاہب کی جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگی

آج کل ہر مذہب "ہیومن ازم” کے سامنے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو باتیں جدید انسانی اصولوں کے مطابق نہ ہوں، ان پر پردہ ڈالا جا رہا ہے، یا انہیں نئی تشریحات کے ذریعے قابل قبول بنایا جا رہا ہے۔ مذاہب اپنی ان باتوں کو، جو جدید عقلی یا اخلاقی معیار سے متصادم سمجھی جاتی ہیں، پس منظر میں رکھنے لگے ہیں۔

مذاہب کا ماضی اور "انسان” کا عروج

کبھی مذاہب انسان کو جنت اور جہنم کے خوف کے ذریعے قابو میں رکھتے تھے۔ لیکن جیسے ہی انسان نے اپنے اختیار، مقام، اور عقل کو سمجھا، اس نے مذاہب کو بدلنے یا انہیں اپنے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا آغاز کر دیا۔
اب مذاہب کو انسان کے اصولوں کے مطابق "اصلاح” سے گزرنا پڑ رہا ہے۔

مذاہب کی اصلاح کی تحریک

یہ "ریلیجیئس ریفارم” یا مذاہب کی اصلاح، مغربی دنیا کا دیا ہوا تصور ہے، جو "ہیومن ازم” کے نتیجے میں وجود میں آیا۔
اس نے مذاہب کی خودمختاری اور مافوق الفطرت حیثیت کو بدل کر انہیں انسان کے تابع کر دیا۔ یہاں تک کہ تمام مذہبی روایات ایک ایسے نکتے پر آ پہنچیں جہاں انسان مرکز بن گیا، اور "روحانی” معاملات بھی انسان کے فہم سے مشروط ہوگئے۔

"ہیومن ازم” کا فلسفہ: خدا سے ہٹ کر انسان کی مرکزیت

"ہیومن ازم” بنیادی طور پر ایک ایسا فلسفہ ہے جو خدا یا دیوتاؤں کی بجائے انسان کو مرکز مانتا ہے۔
اس فلسفے کے مطابق:

  • انسان کے معاملات: انسان کو اپنی زندگی کے معاملات خود طے کرنے چاہئیں۔
  • خیر و شر کی تمیز: خیر اور شر کو سمجھنے کے لیے کسی مافوق الفطرت قوت کی ضرورت نہیں۔
  • آزادی: انسان کو کسی آسمانی اصول کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔
  • آفاقی اخلاقیات: بھلائی اور برائی کے اصول وہی ہیں جو تمام انسانوں کے لیے قابل قبول ہوں، اور ان میں کوئی نزاع نہ ہو۔

جدید نظریات: ہیومن ازم کی شاخیں

"ہیومن ازم” نے کئی نظریات کو جنم دیا، جیسے:

  • جمہوریت (Democracy)
  • سرمایہ داری (Capitalism)
  • سیکولرزم (Secularism)
  • قومیّت (Nationalism)
  • لبرلزم (Liberalism)
  • اشتراکیت (Communism)

یہ تمام نظریات "انسانی آزادی” کے اصول پر مبنی ہیں، لیکن ان کی تشریحات ایک دوسرے سے مختلف یا متضاد ہوسکتی ہیں۔

مذاہب اور ہیومن ازم کے درمیان فرق

"ہیومن ازم” ایک الگ دین کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جو روایتی مذاہب کے مقابلے میں انسان کو خدا کے بجائے مرکز میں رکھتا ہے۔
اگرچہ دنیا میں مذاہب کے درمیان اختلاف کوئی نئی بات نہیں، لیکن "ہیومن ازم” نے ایک ایسا ڈسکورس دیا ہے جو خدا کو دنیا سے باہر رکھنے پر زور دیتا ہے۔

عقلی اختلاف

ہیومن ازم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ اگر خدا انسان سے رابطہ کرنا چاہتا تو اسے مختلف مذاہب کے ذریعے نہیں بلکہ ایک واضح، غیر متنازع طریقے سے بات کرنی چاہیے تھی۔
ان کے نزدیک، مذاہب کے اختلافات خدا کے وجود کے خلاف دلیل بن جاتے ہیں۔

جدید انسان کا غرور

جدید دنیا کا انسان کہتا ہے کہ وہ بغیر خدا کے بھی امن و سکون سے جی سکتا ہے۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ پچھلی دو صدیوں میں انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ خون خرابہ اسی "ہیومن ازم” کے ماننے والوں کے ہاتھوں ہوا ہے، جیسا کہ دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کے دوران۔

اختتامیہ

"ہیومن ازم” ایک فلسفہ ہے جو انسان کو اپنی عقل اور اختیار کے ذریعے زندگی گزارنے کی آزادی دیتا ہے، لیکن یہ فلسفہ اپنے ساتھ کئی چیلنجز اور تضادات بھی لاتا ہے۔
مذاہب اور "ہیومن ازم” کا یہ تصادم انسان کے لیے ایک فکری سوال چھوڑتا ہے:
کیا واقعی انسان بغیر خدا کے بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے