ہوائی سفر میں روزہ کس وقت افطار کیا جائے؟
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

ہوائی سفر کرنے والے کا وقت افطار

سوال : اگر کوئی روزہ دار سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ قبل یا اس سے کم وقت میں ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے اور وہ شہر سے دور بھی ہوتا ہے تو اس صورت میں روزہ کس وقت افطار کیا جائے؟

جواب : اگر روزہ دار جہاز میں سورج غروب ہونے سے قبل سوار ہوا ہے تو وہ جہاز میں اس وقت تک افطار نہیں کرے گا جب تک وہ سورج کو غروب ہوتا نہ دیکھ لے یا سورج غروب ہو جائے یا وہ کسی ایسے شہر میں اترے جہاں سورج غروب ہو چکا ہے۔

اس کی دلیل میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

«إذا اقبل الليل من هاهنا، وادبر النهار من هاهنا، وغربت الشمس، فقد افطر الصائم» [بخاري، كتاب الصوم : باب متي يحل فطر الصائم 1954]
”جب رات اس سمت سے آئے اور دن اس سمت سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو اس وقت روزہ دار روزہ افطار کر لے۔“

اور صحیح مسلم میں ہے : ”عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں سفر میں تھے کہ جب غروبِ شمس قریب ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اے فلاں ! سواری سے نیچے اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کرو۔“

تو اس نے کہا: ”ابھی تو دن باقی ہے (یعنی ابھی سورج غروب نہیں ہوا)۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : ”نیچے اتر کر ستو تیار کرو“، پس اس نے نیچے اتر کر ستو تیار کیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیا اور ہاتھ کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ”جب سورج اس سمت سے غائب ہو جائے اور رات اس سمت سے آ جائے تو روزہ دار روزہ افطار کر لے۔“ [مسلم، كتاب الصيام : باب وقت انقضاء الصوم وخروج النهار 1101]
صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب تم رات کو اس سمت سے آتا دیکھو تو اس وقت روزہ دار روزہ افطار کر لے۔“ [بخاري، كتاب الصوم : باب متي يحل فطر الصائم 1955]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”یعنی مشرق کی سمت سے دن آ جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کا اندھیرا محسوس ہونے لگے۔“ [فتح الباري 250/4]
غروبِ شمس سے رات کا آنا اور دن کا چلے جانا ثابت ہوتا ہے اور اس وقت ہی صائم افطار کرتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ پس یہ مسئلہ غروبِ شمس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے جب سورج ایسے مقام پر غائب ہو جہاں سے صائم اسے دیکھ سکتا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بغیر تردد کے روزہ افطار کرے۔ جیسا کہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جب سورج مکمل غائب ہو جائے اور مشرق سے تاریکی ظاہر ہو جائے تو اس وقت صائم افطار کرے گا اور آسمان پر باقی سرخی کا کوئی اعتبار نہیں۔ [مجموع الفتاوي 215/25، 216]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

”جب جہاز ریاض سے غروبِ شمس سے پہلے مغرب کی جانب پرواز کر جائے تو آپ اس وقت تک روزے کی حالت میں ہوں گے جب تک سورج غروب نہ ہو جائے اور آپ اس وقت فضا میں ہوں، یعنی سورج غروب ہونے تک آپ افطار نہیں کر سکتے۔ یا دوسری صورت میں آپ کسی ایسے شہر میں اتر جائیں جہاں سورج غائب ہو چکا ہے۔“ [مجموع فتاويٰ ومقالات 322/15]
حاصل کلام یہ کہ جب تک سورج غروب نہ ہو جائے جہاز میں سوار صائم روزہ افطار نہیں کر سکتا۔ «والله اعلم ! »

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!