ہر مکلّف استطاعت رکھنے والے شخص پر حج واجب ہے
لغوی وضاحت: لفظِ حج باب: حَجَّ يَحْجُ (نصر ، مدّ ) سے مصدر ہے ، اس کا معنی ”قصد و ارادہ کرنا“ ہے۔ امام خلیلؒ کے نزدیک اس کا معنی ”محترم مقام کی طرف کثرت سے قصد کرنا ہے ۔“
[القاموس المحيط: ص / 167 ، تحفة الأحوذى: 623/3]
شرعی تعریف: مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف (سفر کا) قصد کرنا ، حج کہلاتا ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 2064/3 ، المغني: 217/3 ، كشاف القناع: 437/2 ، اللباب: 177/1 ، فتح القدير: 120/2]
مشروعیت کی تاریخ:
اس میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(جمہور ) حج چھ ہجری میں فرض ہوا۔
[سبل السلام: 919/2]
(ابن قیمؒ) نو یا دس ہجری میں فرض کیا گیا۔
[زاد المعاد: 101/2]
(وهبه زحیلیؒ) نو ہجری کے اواخر میں فرض ہوا۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 2065/3]
حج اسلام کا رکن ہے:
جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ اشیا پر رکھی گئی ہے۔ (ان میں سے ایک حج ہے)۔
[بخاري: 8 ، كتاب الإيمان: باب دعائكم إيمانكم]
فضیلت حج:
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة
”حجِ مبرور (جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو ) کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔“
[بخاري: 1773 ، كتاب الحج: باب وجوب العمرة وفضلها ، مسلم: 1349 ، ترمذي: 933 ، نسائي: 115/5 ، ابن ماجة: 2888 ، مؤطا: 346/1 ، عبد الرزاق: 8798 ، حميدي: 1002 ، دارمي: 31/2 ، بيهقي: 261/5 ، شرح السنة: 4/4 ، 5]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من حج ولم يرفث ولم يفسق رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمــه
”جس نے حج کیا (اور اس میں ) نہ عورتوں کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی فسق و فجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے (پاک صاف ہو کر ) اُس دن کی طرح لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا ۔“
[بخاري: 1521 ، كتاب الحج: باب فضل الحج المبرور ، مسلم: 1350]
◈ واضح رہے کہ حج کے تمام افعال بجا لانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خذوا عني مناسككم
”مجھ سے حج کے طریقے سیکھو ۔“
[مسلم: 1297 ، ابو داود: 1970 ، ابن ماجة: 3023 ، نسائي: 270/5 ، بيهقي: 130/5 ، الحلية لأبي نعيم: 226/7 ، أحمد: 318/3]
لٰہذا جو افعال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھائے انہیں اختیار کیا جائے۔ تاہم اس کا معنی یہ ہرگز نہیں کہ اگر کوئی بھی فعل رہ جائے گا تو حج باطل ہو جائے گا بلکہ حج تو ہو جائے گا لیکن اس میں نقص رہ جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ صرف شرط کا میزہ ہے کہ جس کا عدم عدم کو مستلزم ہوتا ہے اور افعال حج میں صرف ہمیں وقوف عرفہ ہی ایسا فعل نظر آتا ہے جس میں ایسا معنی پایا جاتا ہے کہ اس کے بغیر حج نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل دلائل اس پر شاہد ہیں:
➊ حدیث نبویﷺ ہے کہ الحج عرفة ”حج تو (وقوفِ) عرفہ ہی ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2441 ، كتاب الحج: باب من أتى عرفة قبل الفجر ليلة جمع ، إرواء الغليل: 1064 ، صحيح ابو داود: 1703 ، ابن ماجة: 3015 ، ابو داود: 1949 ، ترمذي: 889 ، نسائي: 264/5 ، أحمد: 309 ، دارقطني: 240/2 ، بيهقي: 116/5]
➋ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من شهد معنا الصلاة وأفاض من عرفات ليلا أو نهارا فقد قضى تقته وتم حجه
”جو شخص ہمارے ساتھ نماز (یعنی یوم النحر کی نماز ) میں حاضر ہوا اور میدان عرفات سے رات یا دن کو چکر لگا آیا تو بے شک اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا اور اس کا حج مکمل ہوا ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2442 أيضا ، إرواء الغليل: 1066 ، ابن ماجة: 3016 ، ابو داود: 1950 ، ترمذي: 891 ، نسائي: 663/5 ، أحمد: 15/4 ، حاكم: 463/1 ، دار قطني: 239/2 ، بيهقي: 116/5]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِبُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا
”اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راستے (یعنی زادِ راہ اور سفر کے اخراجات وغیرہ) کی طاقت رکھتے ہوں اس گھر (یعنی بیت اللہ ) کا حج فرض کیا ہے۔ “
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يايها الناس قد فرض الله عليكم الحج فحجوا
”اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، لٰہذا تم حج کرو ۔“ ایک آدمی (حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ ) نے عرض کیا کہ کیا ہر سال اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ اس نے تیسری مرتبہ یہی سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال ) واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے ۔“
[مسلم: 1337 ، كتاب الحج: باب فرض الحج مرة فى العمر ، أحمد: 508/2 ، نسائي: 110/5 ، ابن حبان: 3705 ، دارقطني: 281/2 ، بيهقى: 326/4]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی مرفوع روایت میں ہے:
الحج مرة واحدة فمن زاد فهو تطوع
”حج ایک مرتبہ (فرض) ہے اور جس نے زیادہ کیا تو وہ نفلی حج ہے۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1514 ، كتاب المناسك: باب فرض الحج ، ابو داود: 1721 ، نسائي: 111/5 ، ابن ماجة: 2886 ، دارمي: 29/2 ، عبد بن حميد: 677 ، دارقطني: 280/2 ، حاكم: 441/1 ، بيهقي فى المعرفة: 471/3 ، امام حاكمؒ اور امام ذهبيؒ نے اسے صحيح كها هے۔]
➍ امت کا اتفاق ہے کہ حج کی استطاعت رکھنے والے شخص پر حج واجب ہے۔
[تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 359/3]
اور یہ صرف زندگی میں ایک مرتبہ ہی فرض ہے جیسا کہ یہ بھی اجماعاً ثابت ہے۔
(شوکانیؒ ، ابن حجرؒ ، نوویؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[نيل الأوطار: 273/3 ، فتح البارى: 152/4 ، شرح مسلم: 330/4]
لفظِ سبیل کا مفہوم:
گذشتہ آیت میں مذکور سبيل کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الزاد والراحلة ”راستے کا خرچ اور سواری ۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 988 ، دارقطني: 216/2 ، شيخ البانيؒ رقمطراز هيں كه يہ اور اس معنى كي تمام احاديث ضعيف هيں۔]
اگرچہ یہ اور اس معنی کی تمام روایات ضعیف ہیں لیکن امت کی اکثریت اسی تفسیر کی قائل ہے جیسا کہ امام صنعانیؒ نے اس کی صراحت کی ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا بھی یہی موقف نقل کیا ہے۔ زاد (یعنی واپسی تک اہل وعیال کے خرچ سے زائد مال) تو مطلقا شرط ہے اور راحلہ (یعنی کوئی بھی سواری مثلاً مویشی ، بحری جہاز ، ہوائی جہاز ، گاڑی وغیرہ ) ایسے شخص کے لیے جس کا گھر (لمبے) فاصلے پر ہو۔
[سبل السلام: 923/2]