گناہ اور حدیث مغفرت کا ربط
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

گناہ اور حدیث مغفرت کا ربط
سوال: کچھ گناہ گار درج ذیل حدیث سے محبت پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو لم تذنبوا لاتى الله بقوم يذنبون ويستغفرون ، فيغفر الله لهم
”اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ ضرور ایسی قوم لے آئے گا جو گناہ کرے گی اور پھر استغفار کرے گی پھر اللہ پاک ان کے گناہوں کو بخش دے گا ۔“
اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: یہ دھوکہ اور فریب کے شکار حضرات کا خیال ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام و شریعت سے بہت دُور ہیں ۔ شیطان نے ان کو پٹی پڑھائی اور انہیں ضلالت و گمراہی میں امیدیں دلائیں ، خطاؤں و لغزشوں کے کرنے اور اس پر اصرار کی دعوت دی اور ان کے قلوب میں یہ تمنا پیدا کردی کہ فی الحال تو دل کھول کر گناہ کر لیں بعد میں باری تعالیٰ سے توبہ کر لیں گے ۔
چنانچہ بہت سے لوگ گناہوں کے دلدادہ بن گئے ہیں اور ان کے پاس بے شمار بہانے ہیں ۔ کچھ لوگ مستقبل میں توبہ کا خواب دیکھ رہے ہیں ، کچھ لوگ بڑھاپے میں توبہ کا پروگرام رکھتے ہیں ۔ ہوگا یہ کہ اچانک موت ان کے سارے منصوبے کو مٹی میں ملادے گی اور ان کی تمنا دھری کی دھری رہ جائے گی ۔ اور ان گناہ گاروں میں سے کچھ لوگ اللہ سبحانہ کی وسیع و بے پایاں رحمت سے آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ سخت سزا و عذاب دینے والا ہے ۔ گناہوں کے حرام ہونے کا علم بھی ہو پھر بھی اس پر اصرار کرے تو سزا سخت ہو جاتی ہے ۔
نیز ان میں سے کچھ لوگ تباہ ہونے والوں اور گناہ گاروں کی کثرت کو دیکھ کرد ھوکہ میں پڑ گئے ہیں اور ان کی صف میں شامل ہو گئے ہیں ۔ ان کے خیال میں ایسی عقل و دانش کے لوگ کیسے غلط کاموں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بکثرت گناہ اور خطائیں دلوں میں سنگینی و سختی پیدا کر دیتی ہیں ۔ اور انسان کو ذکر و طاعت سے روکتی ہیں ۔
عام طور پر ایسے گناہ گاروں کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی اور ان کا انجام کار بڑا خوف ناک ہوتا ہے ، یہاں تک کہ گناہ کے کام ان کی تمنائیں اور زندگی کا اسلوب بن جاتے ہیں ، بالآخر گناہ ان کے ذاتی اختیار پر غالب آجاتے ہیں ۔ اس طرح کے لوگ گناہوں سے نہ دامن چھڑا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ ہوتا ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث صحیح اور ثابت ہے ، لیکن یہ حدیث ان حضرات کے بارے میں ہے جو لاعلمی کی وجہ سے خطا و لغزش کر بیٹھتے ہیں اور پھر فوراً توبہ و استغفار بھی کر لیتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں کیا ہے:
﴿إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ . . .﴾ [النساء: 17]
”اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی جذبات میں آکر کوئی برائی کر گزریں ، پھر جلد اس سے باز آجائیں اور توبہ کر لیں ۔ ٰ۔ ۔ ۔“
نیز ارشاد ربانی ہے:
﴿وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾ [آل عمران: 135]
”جب ان سے کوئی نا شائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی بڑے کام پر اڑ نہیں جاتے ۔“
جبکہ یہ لوگ اپنے بڑے عمل پر اڑے رہتے ہیں اور توبہ کے معاملے میں سُستی و غفلت برتتے ہیں ۔ ہم اللہ رب العزت سے اس ذلت و رسوائی سے پناہ چاہتے ہیں ۔ واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: