جواب: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرى بالليل فى الظلمة كما يرى بالنهار من الضوء
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اندھیرے میں ویسے ہی دیکھتے تھے ، جیسے دن کے اجالے میں دیکھتے تھے ۔“ [ دلائل النبوة للبيهقي: ٧٥/٦]
تبصرہ:
سند سخت ”ضعیف“ ہے ۔
➊ عبدالرحمن بن عمار شہید کون ہے؟ معلوم نہیں !
➋ صالح بن عبداللہ نیشا پوری بھی لاپتہ ہے ۔
➌ ابوعبید اللہ محمد بن خلیل نیشا پوری کی توثیق درکار ہے !
➍ مغیرہ بن مسلم قسملی کا عطا سے سماع نہیں ، امام ابوزرعہ فرماتے ہیں:
لم يسمع المغيرة من عطاء ، وهو مرسل
”مغیرہ کا عطا سے سماع نہیں ، لہٰذا سند مرسل ہوئی ۔ “ [ تحفة التحصيل ، ص 313]
اس سند کو امام بیہقی رحمہ اللہ کا ”لیس بالقوی“ قرار دینا ”تساہل“ ہے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ بھی مروی ہے:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرى فى الظلمة كما يرى فى الضوء
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں ایسے ہی دیکھتے ، جیسے اجالے میں دیکھتے ۔“
[ الكامل فى ضعفاء الرّجال لابن عدي: ٣٦٥/٥ ،دلائل النبوة للبيهقي: ٧٤/٦ ، الفوائد لتمام الرازي: 1337 ،تاريخ بغداد للخطيب: ٢٧٢/٤]
سند جھوٹی ہے ۔ معلی بن ہلال طحان کی گھڑ نتل ہے ۔ معلی باتفاق محد ثین ”وضاع“ اور ”متروک وکذاب“ ہے ۔
دوسری آفت عبداللہ بن مغیرہ ہے ، جسے عبداللہ بن محمد بن مغیرہ بھی کہا جاتا تھا ۔ یہ ”منکر الحدیث“ ہے ۔
تاریخ ابن عساکر (387/60) میں عبداللہ بن زبیر کی ”مرسل“ روایت ہے:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يبصر فى الظلمة كما يبصر فى الضوء
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں ایسے ہی دیکھتے ، جیسے اجالے میں دیکھتے۔“
سخت ترین ”ضعیف“ ہے ۔ محمد بن مغیرہ مدنی کے حالات نہیں مل سکے ، ابوجماہیر مخلص بن موحد اور اس کے باپ موحد بن محمد بن عثمان کی توثیق نہیں ملی ، لہٰذا سند سخت ”ضعیف“ ہے ۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597۔508ھ) لکھتے ہیں:
هذا حديث لا يصح
”یہ حدیث ثابت نہیں ۔ “ [العلل المتناهية: ١٦٨/١ ، ح: ٢٦٦]