سوال : کیا میت کو غسل دینے والے پر غسل اور کندھا دینے والے پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟
جواب : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو میت کو غسل دے وہ غسل کرے اور جو اُسے اٹھائے وہ وضو کرے۔“ [أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب فى الغسل من غسل الميت 3161]
اور ابن ماجہ میں ہے :
”جو میت کو غسل دے وہ غسل کرے۔“ [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب ماجاء فى غسل الميت 1463]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ تو اسے منسوخ سمجھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اس حدیث کے بعد لکھا ہے لیکن انہوں نے ناسخ بیان نہیں کیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر ذکر کیا ہے کہ انہوں نے سعید بن زید کے ایک بیٹے کو خوشبو لگائی، اٹھایا، نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [بخاري، كتاب الجنائز : باب غسل الميت ووضوئه بالماء والسدر]
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ ابوداؤد والی روایت کمزور ہے پھر انہوں نے اس پر کلام کیا۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ جب ان کو سعید بن زید بن عمرو کی وفات کی خبر ملی تو اس وقت وہ عقیق میں تھے، خبر ملتے ہی آئے اور ان کو غسل دیا، کفنایا اور خوشبو لگائی پھر اپنے گھر آئے اور غسل کیا، غسل کرنے کے بعد انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
”میں نے غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا، اگر وہ نجس ہوتے تو میں انہیں ہاتھ نہ لگاتا، میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے۔“ [فتح الباري : 3/ 125]
ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ”میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں۔“
معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں اور اٹھانے والے پر وضو ضروری نہیں۔ البتہ اگر کوئی غسل یا وضو کرے تو درست ہے۔