کیا مسجد کی تعمیر کے لیے ہندو سے چندہ لینا جائز ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 193

مسجد کی تعمیر کے لیے ہندو مشرک سے چندہ لینے کا مسئلہ

سوال کا خلاصہ

اللہ کے فضل سے ہمارے علاقے میں ایک نئی مسجد زیر تعمیر ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم صرف مسلمانوں سے چندہ جمع کر رہے ہیں اور غیر مسلم، خصوصاً مشرک ہندوؤں سے چندہ لینا جائز نہیں سمجھتے، کیونکہ وہ آیت "انما المشرکون نجس” کے تحت ناپاک شمار ہوتے ہیں۔ ایک ہندو ہلیلہ کنٹریکٹر نے اپنی تجارت کی آمدنی سے پچیس روپے مسجد فنڈ میں دینا چاہے ہیں اور اصرار کر رہا ہے کہ اس کی رقم قبول کر کے رسید دی جائے۔ ہم نے اس وقت تک رسید دینے سے انکار کیا ہے اور اس رقم کو بطور امانت محفوظ رکھا ہے تاکہ علمائے کرام سے فتویٰ لے کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ:

  • کیا اس کنٹریکٹر کی دی گئی رقم مسجد کی تعمیر میں استعمال کی جا سکتی ہے اور کیا اسے اس کی رسید دی جا سکتی ہے؟
  • اگر مسجد فنڈ میں لینا جائز ہو تو کیا یہ رقم مسجد کے متعلق دوسرے کاموں میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے، جیسے کمپاؤنڈ کی دیوار، باغیچہ، حوض، بیت الخلاء یا مسافر خانہ وغیرہ؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غیر مسلم کی طرف سے مسجد فنڈ میں چندہ لینے کا شرعی حکم:

  • اگر یہ ہندو کنٹریکٹر مسجد کی تعمیر میں چندہ جائز تجارت سے کمائی گئی آمدنی سے دینا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں اس کی رقم مسجد فنڈ میں لینا جائز ہے۔
  • بصورت دیگر، اگر نیت یا کمائی میں خرابی ہو تو ایسی رقم لینا جائز نہیں۔
  • تاہم، اگر اس سے چندہ لینے یا رسید دینے میں کوئی اسلامی مصلحت کے خلاف بات ہو تو پھر اس کی رقم لینا بھی مناسب نہیں ہوگا۔

مصداق:
"کذا فی کتاب الوصایا من الہدایہ، مشرکین مکہ نے بیت اللہ کی تعمیر کو کارِ ثواب سمجھ کر حلال کمائی سے کرائی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہ فرمایا، نہ ہی کسی کو اس پر اعتراض کرنے کی ہدایت دی۔”

فتویٰ از:
عبیداللہ الرحمانی المبارکفوری، مدرس دارالحدیث الرحمانیہ، دہلی

(1) پرانے قبرستان کی زمین کا استعمال

اگر کوئی پرانا قبرستان ایسی جگہ واقع ہے جہاں قریب میں کوئی مسلم آبادی نہ ہو، اور اس کے زیادہ حصے پر غیر مسلموں نے قبضہ کر کے مکانات بنا لیے ہوں اور باقی حصے پر بھی قبضہ کا خطرہ ہو:

  • تو پہلے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پورے قبرستان کو واگزار کرا کے چار دیواری کے ذریعے محفوظ کیا جائے۔
  • اگر ایسا ممکن نہ ہو، تو وہاں مکانات بنا کر کرائے پر دیے جائیں یا فروخت کر دیے جائیں۔
  • حاصل شدہ رقم دوسرے قبرستانوں کی حفاظت، دیکھ بھال اور مرمت پر خرچ کی جائے۔

حنابلہ کے نزدیک:
جب موقوفہ جائیداد سے مطلوبہ نفع حاصل نہ ہو رہا ہو یا اس کے ضیاع کا خطرہ ہو، تو ایسی جائیداد کو فروخت کرنا اور اس کی قیمت سے مطلوبہ جگہ دوسری جائیداد خریدنا یا دیگر دینی ضروریات پر خرچ کرنا جائز ہے۔

حوالہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد بابت نقل بیت المال نقل کیا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المغنی لابن قدامہ)

(2) مسجد کی نئی تعمیر کے وقت دکانیں بنوانے کا مسئلہ

  • اگر مسجد کی پہلی تعمیر موقوفہ زمین کے جس حصے پر ہوئی ہو، اس میں سے کچھ حصہ نئی تعمیر کے وقت دکانوں کے لیے الگ کرنا درست نہیں۔
  • البتہ: اگر وضو خانہ، غسل خانہ، بیت الخلاء وغیرہ پہلی تعمیر میں مخصوص جگہ پر موجود ہو، تو ان جگہوں کے اوپر یا نیچے نئی تعمیر میں دکانیں یا کرائے کے مکانات بنائے جا سکتے ہیں۔

حوالہ:
اس مسئلہ میں اس وقت کسی مخصوص کتاب کا حوالہ یا اس کی عبارت نقل کرنا ممکن نہیں۔

فتویٰ از:
عبیداللہ الرحمانی
(مکاتیب شیخ رحمانی بنام مولانا محمد امین اثری، صفحہ: 146-147)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1