کیا غیر ذمہ دار شخص امامت کے لائق ہے ؟
سوال :جو شخص کسی ہمسایہ کے گھر میں تانک جھانک کرے، کیا وہ امامت کرانے کا اہل ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب : بشرط صحت سوال ایسا امام جو کسی کے گھر میں تانک جھانک کرے اسے امامت کا حق نہیں ہے۔ امام اعلیٰ صفات کا مالک ہونا چاہیے، جیسا کہ سنن الدارقطنی میں حدیث ہے کہ اپنے میں سے بہتر کو امام بناؤ اور ناجائز تانک جھانک شرعاً حرام ہے اور فعل حرام کا ارتکاب بالخصوص امام کے لیے تو قطعاً درست نہیں اور ایسا امام تو مقتدیوں کی نظر میں بھی مقام کھو دیتا ہے اور مقتدی اس سے کراہت کرنے لگ جاتے ہیں، اس کے متعلق یہ حدیث پیش نظر رہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
”تین آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر ایک بالشت بھی نہیں اٹھائی جاتی، ایک وہ شخص جو قوم کی امامت کرواتا ہے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہیں اور وہ عورت جو رات اس حال میں گزارے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو، اور وہ دو بھائی جو آپس میں ناراض ہیں۔ “ [ابن ماجه، كتاب إقامة الصلوات : باب من أم قوما وهم له كارهون 971 ]
اس حدیث کو امام نووی، امام عراقی اور علامہ بوصیری رحمۃ اللہ علیہم نے حسن اور صحیح قرار دیا ہے اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور یہ یاد رہے کہ امام کے ساتھ تعصب مذہبی اور بلاوجہ کوئی عداوت نہ ہو۔
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر لکھتے ہیں :
”امام کی نماز اوپر اس لیے نہیں اٹھائی جاتی کہ وہ امامت کے حق کو قائم نہیں کر رہا اور جب مقتدیوں کا اس کے ساتھ معاملہ مذہبی تعصب کی وجہ سے ہو تو یہ چیز اس میں داخل نہیں۔ “ [تحقيق ثاني مشكوٰة، كتاب الصلاة : باب الامامة : 1128 ]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام شرعی عذر کی بنا پر مقتدیوں کے ہاں ناپسندیدہ ہو جائے تو وہ امامت کے حق کو قائم نہیں کر رہا، اسے اس صورت میں امام رہنے کا حق نہیں۔ مسجد کی انتظامیہ کو چاہئیے کہ ایسے امام کی کوتاہی پر اسے متنبہ کریں اور اخلاص کے ساتھ اس کی اصلاح کریں، اگر وہ اپنی حرکا ت سے باز نہ آئے تو اسے امامت سے معزول کر دیں اور کسی مخلص، دیانتدار اور شریف شخص کا امامت کے لیے انتخاب کریں جو قرآن حکیم اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ باعمل بھی ہو۔