مسجد کو اللہ تعالیٰ کی خاص نسبت حاصل ہے، اور اس کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت، ذکر و اذکار، تلاوتِ قرآن اور دینی تعلیم و تعلم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نسبت اور تعظیم کو برقرار رکھنے کے لیے بطورِ خاص حکم دیا کہ جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو پہلے دو رکعت نماز ادا کرے، پھر بیٹھے۔ ان دو رکعتوں کو تحیۃ المسجد کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہوجائے جو عام طور پر نفل نماز کے لیے مکروہ یا ممنوع سمجھا جاتا ہے، تو کیا پھر بھی یہ دو رکعت پڑھی جائیں گی؟
بنیادی احادیث اور ان کے دلائل
الف) صحیح مسلم کی حدیث (حدیث نمبر: 1655)
کتاب صلاۃ المسافرین و قصرہا، باب: استحباب تحیۃ المسجد برکعتین و کراھۃ الجلوس قبل صلاتہما و انھا مشروعة فی جمیع الاوقات
حدیث کا عربی متن (مختصرًا): "عن أبي قتادة صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: دخلت المسجد ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جالس بین ظہراني الناس… فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما منعک ان ترکع رکعتین قبل ان تجلس؟… فإذا دخل أحدکم المسجد فلا یجلس حتی یرکع رکعتین.”
ترجمہ: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے، میں بھی بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا چیز مانع ہوئی کہ (بیٹھنے سے پہلے) دو رکعت ادا کرلیتے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، میں نے آپ کو اور لوگوں کو بیٹھا ہوا دیکھا تو (اسی لیے) بیٹھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1655، ترقیم فؤاد عبدالباقی: 714)
اسی مفہوم کی روایت صحیح بخاری میں بھی وارد ہے (حدیث نمبر: 444، 1163، 1167 وغیرہ) جس میں یہی بات دہرائی گئی ہے کہ مسجد میں داخلے کے بعد دو رکعت پڑھے بغیر نہ بیٹھا جائے۔
ب) دیگر کتبِ حدیث میں شواہد
یہی مضمون سنن ابی داود (حدیث 467)، سنن نسائی (حدیث 731)، سنن ابن ماجہ (حدیث 1013)، موطأ امام مالک (روایت ابن القاسم حدیث 148)، مسند حمیدی (حدیث 425) وغیرہ میں بھی وارد ہوا ہے۔ تمام احادیث کا خلاصہ ایک ہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام حکم یہ ہے کہ جب بھی کوئی مسجد میں داخل ہو تو پہلے دو رکعت ادا کرے پھر بیٹھے۔
اوقاتِ مکروہ اور تحیۃ المسجد
صحیح مسلم ہی کی ایک اور روایت (حدیث نمبر: 826 وغیرہ) سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت کی گئی ہے، مثلاً سورج طلوع ہو رہا ہو، عین زوال کا وقت ہو یا سورج غروب ہونے کا مختصر وقت ہو۔ لیکن فقہاء کی غالب اکثریت کے نزدیک یہ ممانعت “مطلق نوافل” یا ان نمازوں سے متعلق ہے جن کا کوئی متعین سبب نہیں ہے۔ تحیۃ المسجد چونکہ ایک سبب والی نماز ہے (سبب: مسجد میں داخلہ)، اس لیے جمہور کے نزدیک مکروہ اوقات میں بھی یہ ادا کی جاسکتی ہے۔
اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ جمعہ کے دوران آنے والے صحابی کو بھی بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ حالانکہ خطبہ سننا بظاہر واجب ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحیۃ المسجد کو مقدم رکھا (بخاری حدیث 930)۔ اسی طرح جنازہ، سجدہ تلاوت، قضا نماز اور ایسی ہی دوسری نمازوں کو بھی وقتِ نہی میں ادا کرنے کی گنجائش ملتی ہے، کیوںکہ ان کے پیچھے کوئی خاص سبب یا عذر ہوتا ہے۔
مختلف فقہی توضیحات اور خلاصہ
-
جمہور فقہاء (امام شافعی، ایک روایت کے مطابق امام احمد، اور اکثر محدثین) کہتے ہیں کہ تحیۃ المسجد اوقاتِ مکروہہ میں بھی اد اکرنی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ "إذا دخل أحدکم المسجد فلا یجلس…” عام ہیں اور اس میں کوئی تخصیص وارد نہیں ہوئی کہ فلاں وقت ہو تو نہ پڑھے۔
-
امام ابو حنیفہ اور امام مالک (اور ایک روایت کے مطابق امام احمد) کے ہاں اوقاتِ نہی میں کسی بھی نفل نماز کی ممانعت ہے، مگر ان حضرات کے ہاں بھی بعض ضروری نمازوں میں رخصت مل جاتی ہے۔ بعض حنفی کتب میں استثنا کے اقوال ملتے ہیں کہ تحیۃ المسجد، سجدہ تلاوت، نماز جنازہ وغیرہ ادا کی جاسکتی ہے، اگرچہ مسلکی اختلاف موجود ہے۔
-
گنجائش کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اگر جمعے کے وقت امام خطبہ بھی دے رہا ہو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ مسجد میں داخل ہونے والا مختصر دورکعت پڑھ کر بیٹھ جائے۔ چنانچہ دورِ خطبہ میں بھی یہ رخصت دی گئی تو وقتِ نہی کا مسئلہ تو بدرجہ اولیٰ اس سے خفیف ہے۔
-
بہت سے شارحین حدیث (مثلاً امام نووی، امام ابن بطال، حافظ ابن حجر وغیرہ) تصریح کرتے ہیں کہ یہ دو رکعات واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں۔ اگر کوئی بھولے سے بیٹھ گیا ہے تو بھی بہتر یہ ہے کہ دوبارہ کھڑا ہوکر پڑھ لے، کیوںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمومی حکم دیا، اُس میں بیٹھ جانے کے بعد بھی ترک نماز کا استثناء نظر نہیں آتا۔
موضوع سے متعلق فتاویٰ کے اقتباسات
أ) الاسلام سوال وجواب (IslamQA.info) عربی
فتویٰ نمبر 33790 میں لکھا ہے:
"تحية المسجد من ذوات الأسباب، فيجوز أداؤها ولو في أوقات النهي، لأن النبي صلى الله عليه وسلم علَّقها بسبب الدخول إلى المسجد دون تخصيص وقت، فالأصل هو العمل بالعموم…”
ترجمہ:
"تحیۃ المسجد ایک سبب والی نماز ہے، اس لیے اوقاتِ نہی میں بھی اسے ادا کرنا جائز ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسجد میں داخلے کے سبب سے وابستہ کیا ہے، اور اس کے لیے کوئی خاص وقت مستثنیٰ نہیں فرمایا۔ لہٰذا اصل یہ ہے کہ عمومِ حدیث پر عمل کیا جائے۔”
ب) اسلام ویب (IslamWeb.net) عربی
فتویٰ نمبر 12583 وغیرہ میں ذکر ہے:
"إن صلاة تحية المسجد تصلى في كل وقت، حتى في الأوقات التي ينهى عن الصلاة فيها، لأنها صلاة لها سبب…”
ترجمہ:
"تحیۃ المسجد ہر وقت پڑھی جائے گی، حتی کہ ان اوقات میں بھی جن میں عام طور پر نفل نماز سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ سبب رکھنے والی نماز ہے۔”
بعض اضافی نکات (فوائد و مسائل)
ا) اگر کوئی شخص فرض یا سنت مؤکدہ وغیرہ پڑھ لیتا ہے تو اسی سے تحیۃ المسجد کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ الگ سے مزید دو رکعت کی ضرورت نہیں، کیونکہ مقصد مسجد میں داخل ہوتے ہی نیتِ عبادت سے نماز پڑھنا ہے۔
ب) اگر کوئی بیٹھ چکا ہو اور اسے یاد آئے کہ میں نے تحیۃ المسجد ادا نہیں کی، تو اٹھ کر پڑھ لے۔ جیسا کہ بعض روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ جانے والے کو بھی کھڑے ہوکر پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔
ج) مسجد حرام کے بارے میں بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس کی تحیۃ طواف ہے، بالخصوص جب کوئی بیرونِ مسجد سے آئے۔ لیکن اگر کبھی طواف ممکن نہ ہو تو وہ بھی کم از کم دو رکعات تحیۃ المسجد ادا کرے۔
د) وقتِ نہی میں نوافل کی عمومی ادائیگی ممنوع تو ہے، مگر جن نمازوں کا سبب واضح اور متعین ہو، ان کے لیے رخصت ہے؛ اسی لیے جنازے کی نماز، سجدہ تلاوت، تحیۃ المسجد وغیرہ کی اجازت ملتی ہے۔
ماخذ و مراجع
-
صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، احادیث: 714، 1655 وغیرہ (ترقیم فؤاد عبدالباقی)
-
صحیح بخاری، احادیث: 444، 1163، 1167 وغیرہ
-
سنن نسائی، حدیث: 731
-
سنن ابی داود، حدیث: 467
-
سنن ابن ماجہ، حدیث: 1013
-
موطأ امام مالک (روایت ابن القاسم)، حدیث: 148
-
اسلام سوال وجواب (IslamQA.info) عربی، فتویٰ نمبر: 33790
-
اسلام ویب (Islamweb.net) عربی، فتویٰ نمبر: 12583
-
دیگر کتبِ شروحِ حدیث: فتح الباری، شرح النووی علی صحیح مسلم، نیل الاوطار، تحفۃ الاحوذی وغیرہ
اختتامی کلمات
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عام اور مؤکد حکم ہے کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کرے۔ یہی عمل مسجد کی عظمت اور تعظیم کی علامت ہے۔ جمہور اہلِ علم کے نزدیک یہ نمازِ تحیۃ المسجد اوقاتِ نہی میں بھی ادا کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ذوات الاسباب نمازوں میں شامل ہے۔ اگر غلطی سے کوئی بیٹھ گیا ہو تو بیٹھنے کے بعد بھی کھڑا ہوکر ادا کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اگر اسی دوران کوئی اور فرض یا سنتِ مؤکدہ ادا کرلی تو تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجائے گی۔ یہی مجموعی خلاصہ ہمارے اکابر محدثین اور فقہاء کا ہے۔