کیا رفع یدین منسوخ ہو چکا ہے؟
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب میں رفع یدین کیوں کروں؟ سے ماخوذ ہے۔

رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا:

منکرین رفع الیدین کا کہنا ہے کہ رفع الیدین ابتدائی طور پر مشروع تھا، بعد ازاں منسوخ ہو گیا۔
الجواب:
رفع الیدین قطعی طور پر منسوخ نہیں ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحات زندگی تک جو نمازیں ادا کیں وہ رفع یدین کے ساتھ ادا کیں۔ ذیل کے دلائل اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ سنت عظیمہ منسوخ نہ ہوئی۔
➊ اہل السنۃ والجماعۃ کے بیس سے زائد محدثین احادیث رفع یدین لائے ہیں، مگر کسی نے نسخ رفع الیدین کا باب قائم نہیں کیا۔
➋ اہل السنۃ والجماعتہ کے کسی بھی محدث نے رفع الیدین کی احادیث کے تحت نسخ رفع الیدین کا دعویٰ نہیں کیا۔
➌ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور اس کے علاوہ خیر القرون کے لوگوں، مثلاً تابعین و تبع تابعین کا قائلین و فاعلین رفع الیدین ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا ، ورنہ وہ لوگ اسے ترک کر دیتے۔
➍ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”حسن ( بصری ) اور حمید بن ہلال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو بھی مستثنی نہیں کیا۔ ( یعنی ان دونوں تابعین کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بغیر کسی استثناء کے رفع یدین کرتے تھے۔ ) “
[جزء رفع اليدين، ص: 55 .]
➎ گزشتہ صفحات میں یہ بات گزری کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کے اندر رفع الیدین کرتے دکھایا، اور ساتھ فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسے ہی تھی ، اگر رفع الیدین منسوخ یا متروک ہوتا تو کوئی نہ کوئی صحابی اس کا انکار ضرور کرتا۔ ان کا عدم انکار اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین دوام والی سنت ہے۔
➏ خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ہم بچوں کو مدینہ میں رفع الیدین سکھایا جاتا تھا، اس بات کی دلیل ہے کہ وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ و تابعین رفع الیدین کرتے تھے۔ اس کو ترک نہیں کیا۔
➐ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے کہ ائمہ میں سے کسی کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک رفع الیدین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
➑ اساتذه و تلامذہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزد یک رفع الیدین ثابت ہے اور فضیلت واجر والاعمل ہے، اگر منسوخ یا متروک ہوتا تو وہ اس کے قائل و فاعل کیوں کر ہوتے؟
➒ عدم رفع الیدین کی ضعیف بلکہ موضوع احادیث کے ساتھ صحیح بخاری ومسلم کی متفق علیہ احادیث منسوخ قرار دینا، اور رفع الیدین کو شریر گھوڑوں کی دموں کے ساتھ تشبیہ دینا انتہائی ظلم و جہالت کی بات ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان ہے۔
➓ نو وارد صحابی سیدنا وائل بن حجر فضل رضی اللہ عنہ 10 ہجری کے آخری مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنے اور سیکھنے کے لیے آئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جبوں میں رفع الیدین کرتے تھے۔ اس کے بعد ربیع الاول 11 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے۔ پس نسخ کے لیے ضروری ہے کہ وائل رضی اللہ عنہ کی دوسری دفعہ آمد کے بعد ثابت ہو۔ جو کہ قطعی نہیں ہے۔ سیدنا نوح علیہ السلام جتنی زندگی پا کر بھی بلکہ تا روز قیامت رفع الیدین کو منسوخ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
یہ تھے مانعین رفع یدین کے بنیادی دلائل۔ الغرض خلاصہ کلام یہ ہے کہ مانعین رفع یدین کے پاس کوئی صحیح سند سے حدیث اور نہ ہی کسی صحابی کا عمل ہے بلکہ تمام روایات و آثار ضعیف اور موضوع ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے