کیا رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تھا ؟
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

نبی اکرم ﷺ پر جادو ہوا تھا ، جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

سحر رسول اللہ ﷺ رجل من بنی زریق یقال لہ: لبید بن الأعصم، حتی کان رسول اللہ ﷺ یخیل الیہ أنہ یفعل الشیء وما فعلہ، حتی اذا کان ذات یوم أو ذات لیلۃ، وھو عندی، لکنہ دعا و دعا، ثم قال: یا عائشۃ! أشعرت أن اللہ أفتانی فیما استفتیتہ فیہ، أتانی رجلان فقعد أحدھما عند رأسی والآخر عند رجلی، فقال أحدھما لصاحبہ: ما وجع الرجل، فقال: مطبوب، قال: من طبہ؟ قال: لبید بن الأعصم، قال: فی أی شیء؟ قال: فی مشط و مشاطۃ وجف طلع نخلۃ ذکر، قال: وأین ھو؟ قال: فی بئر ذروان، فأتاھا رسول اللہ ﷺ فی ناس من أصحابہ، فجاء، فقال: یا عائشۃ! کأن ماء ھا نقاعۃ الحناء، أو کأن رؤوس نخلھا رؤوس الشیاطین، قلت: یا رسول اللہ! أفلا استخرجہ؟ قال: قد عافانی اللہ، فکرھت أن أثور علی الناس فیہ شرا، فأمربھا، فدفنت. 

"بنو زریق کے لبید بن الاعصم نامی ایک آدمی نے اللہ کے رسول ﷺ پر جادو کردیا، آپکو خیال ہوتا تھا کہ آپ کسی کام کو کررہے ہیں، حالانکہ کیا نہ ہوتا تھا، حتی کہ ایک دن یا ایک رات جب کہ آپ  ﷺ میرے پاس تھے ، آپ نے بار بار دعا کی ، پھر فرمایا ، اے عائشہ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے ، جو میں اس سے پوچھ رہا تھا؟ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا، اس آدمی کو کیا تکلیف ہے ؟ اس نے کہا ، اس پر جادو کیا گیا ہے ، اس نے کہا ، کس نے کیا ہے ؟، اس نے کہا ، لبید بن اعصم نے، اس نے کہا ، کس چیز میں ؟ ، کہا، کنگھی ، بالو ں اور نَر کھجور کے شگوفے میں، اس نے کہا ، وہ کہا ں ہے ، کہا ، بئر ذروان میں ، آپ ﷺ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ وہاں گئے ، پھر واپس آئے اور فرمایا ، اے عائشہ ! اس کنویں کا پانی گویا کہ مہندی ملا ہواتھا اور اس کی کھجوریں گویا شیطانوں کے سر تھے ، (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں) میں نے کہا ، کیا آپ نے اسے نکالا ہے ،فرمایا، نہیں،  مجھے تو اللہ تعالیٰ نے عافیت و شفا دے دی ہے ، میں اس بات سے ڈر گیا کہ اس کا شر لوگوں میں اٹھاؤں۔”

(صحیح بخاری: ۸۵۸/۲، ح: ۵۷۶۶، صحیح مسلم : ۲۲۱/۲، ح: ۲۱۸۹)

یہ متفق علیہ حدیث دلیل قاطع اور برہانِ عظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو ہواتھا، واضح رہے کہ جادو ایک مرض ہے ، دیگر امراض کی طرح یہ بھی انبیاء کو لاحق ہوسکتا تھا، قرآن و حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں  ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر جادو نہیں ہوسکتا۔

یہ حدیث بالاجماع "صحیح” ہے ، ہاں وہ معتزلہ فرقہ اس کا انکاری ہے، جو قرآن کو مخلوق کہتا ہے ، وہ نہ صرف اس حدیث کا منکر ہے ، بلکہ اور بھی بہت ساری احادیث صحیحہ کا منکر ہے۔

جیسا کہ امام نعیم بن حماد الخزاعی رحمہ اللہ (م ۲۲۸ھ) فرماتے ہیں:

المعتزلۃ تردون ألفی حدیث من حدیث النبی ﷺ أو نحو ألفی حدیث.  

"معتزلہ احادیثِ نبویہ میں سے دو ہزار یا اس کے لگ بھگ احادیث کا انکار کرتے ہیں۔”

(سنن ابی داود: تحت حدیث: ۴۷۷۲، وسندہ صحیح )

ہمارے دور کے بعض معتزلہ نے اس حدیث پر عقلی و نقلی اعتراضات وارد کیے ہیں ، آئیے ان اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں:

اعتراض نمبر ۱ :  

اس  کا راوی ہشام بن عروہ "مدلس” ہے ۔

جواب:      

(۱)          ہشام بن عروہ کے "ثقہ” ہونے پر اجماع و اتفاق ہے ، ان پر امام مالک کی جرح کا راوی ابنِ خراش خود "ضعیف” ہے ، لہٰذا وہ قول مردود ہے ۔

اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو طبقہ اولیٰ کے "مدلسین” میں ذکر کیا ہے ،لیکن ان کا "مدلس” ہونا  ثابت نہیں ہے ، جس قول (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ۱۰۴، ۱۰۵) کی وجہ سے انہیں "مدلس” قرار دیا گیا ہے ، وہ قول ثابت نہیں ہے ، اس قصہ کے راوی عبداللہ بن علی بن المدینی کی "توثیق” ثابت  نہیں ہے ۔

(۲)         ہشام بن عروہ بن عروہ بن زبیر نے صحیح  بخاری  (۴۵۰/۱، ح : ۳۱۷۵) اور مسند احمد (۵۰/۶) میں حدثنی کہہ کر اپنے والد سے سماع کی تصریح کردی ہے ۔ والحمد للہ علی ذلک!

(۳)         صحیحین میں "مدلسین ” کی روایات سماع پر محمول ہیں۔

اعتراض نمبر ۲ :

مشہور معتزلی حبیب الرحمٰن کاندھلوی حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:             "یہ روایت ہشام کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا اور ہشام کا ۱۳۲ھ میں دماغ جواب دے گیا تھا، بلکہ حافظ عقیلی تو لکھتے ہیں:   قد خرف فی آخر عمرہ.      آخر عمر میں سٹھیا گئے تھے ، تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ یہ روایت سٹھیانے سے پہلے کی ہے ؟”           (مذھبی داستانیں اور ان کی حقیقت:۹۱/۲)

جواب:    

یہ محض تراشیدہ الزام ہے ، حافظ عقیلی کا قول نہیں مل سکا ، متقدمین ائمہ میں سے کسی نے ان پر اختلاط کا الزام نہیں لگایا، دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں تمام مختلط راویوں کی روایات اختلاط سے پہلے پر محمول ہیں۔

جیساکہ حافظ نووی رحمہ اللہ ایک مختلط راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

وما کان فی الصحیحین عنہ محمول علی الأخذ عنہ قبل اختلاطہ.

"اور جو کچھ صحیحین میں ان سے  منقول ہے ، وہ ان سے اختلاط سے قبل لے لیے جانے پر محمول ہے ۔”          (تہذیب الاسماء و اللغات للنووی: ۲۲۱/۱)

تنبیہ:                     حافظ ابن القطان رحمہ اللہ (م ۶۲۸ھ) نے ہشام کو "مختلط” کہا ہے ۔ (بیان الوہم والایھام: ۵۰۸/۴ ح ۲۷۲۶) اس کے رد و جواب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:              ولم نرلہ فی ذلک سلفا.       "ہم نے اس بارے میں ان کا کوئی سلف (ان سے پہلے یہ بات کہنے والا) نہیں دیکھا۔”          (تہذیب التہذیب لابن حجر: ۵۱/۱۱)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وھشام ، فلم یختلط قط، ھذا أمر مقطوع بہ.

"ہشام کبھی بھی مختلط نہیں ہوئے ، یہ بات قطعی ہے ۔ ”     (سیر اعلام النبلاءللذھبی: ۲۶/۶)

نیز فرماتے ہیں:

فقول ابن القطان : أنہ مختلط، قول مردود و مرذول.

"ابن القطان کا انہیں مختلط کہنا مردود اور ناقابل التفات ہے۔”        (سیر اعلام النبلاء للذھبی : ۳۶/۶)

مزید فرماتے ہیں:

ولا عبرۃ.

"اس کا کوئی اعتبار نہیں”             (میزان الاعتدال للذھبی : ۳۰۱/۴)

اس تصریح کے بعد معلوم ہوا کہ حافظ ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ کا قول ناقابل التفات ہے ۔

اعتراض نمبر ۳:

حبیب الرحمن کاندھلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ہشام کے مشہور شاگردوں میں سے امام مالک یہ روایت نقل نہیں کرتے، بلکہ کوئی بھی اہل مدینہ یہ روایت نقل نہیں کرتا، ہشام سے جتنے بھی راوی ہیں، سب عراقی ہیں، اور اتفاق سے عراق پہنچنے کے چند روز بعد ہشام کا دماغ سٹھیا گیا تھا۔’’(مذھبی داستانیں اور ان کی حقیقت از کاندھلوی:۲؍۹۱)

جواب:

یہ جھوٹی داستان ہے، ‘‘ہشام کا دماغ سٹھیا گیا تھا’’ اس پر کیا دلیل ہے؟ حافظ ابنِ حجر ؒ   کی تصریحات آپ نے ملاحظہ فرمالی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ ہشام سے روایت ان کے دو مدنی شاگردوں نے بھی بیان کی ہے:

۱۔ انس بن عیاض المدنی (صحیح بخاری:۶۳۹۱)

۲۔ عبدالرحمن بن ابی الزناد المدنی (ثقہ عند الجمھور) (صحیح بخاری: ۵۷۶۳)

لہٰذا کاندھلوی صاحب کا یہ کہنا کہ ‘‘ کوئی بھی اہل مدینہ یہ روایت نقل نہیں کرتا’’ زبردست جھوٹی داستان ہے۔ والحمد للہ!

حدیث رسول ﷺ کے خلاف ایسی واہی تباہی مچانے والے کبھی یومِ حساب کو یاد کر لیا کریں۔

اعتراض نمبر ۴:

مشہور منکر حدیث شبیر احمد ازہر میرٹھی صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ہشام کی بیان کی ہوئی روایات میں سے کسی بھی روایت کی اسناد میں یہ ذکر نہیں ہے کہ عروہ نے حضرت ام المؤمنین عائشہ ؓ سے یہ حدیث سنی تھی۔’’ (صحیح بخاری کا مطالعہ از میرٹھی: ۲/۸۷)

جواب:

۱۔ جب راوی کی اپنے استاد سے ملاقات ثابت ہو اور وہ راوی ‘‘مدلس’’ نہ ہو تو اس کی ‘‘ عن ’’ والی روایت محدثین مؤمنین کے نزدیک متصل اور سماع پر محمول شمار ہوتی ہے، عروہ کا سیدہ عائشہ ؓ سے ملاقات و سماع ثابت ہے۔ دیکھیں (صحیح بخاری: ۳۲۷۷، صحیح مسلم ۲۴۱۸)

امام عروہ رحمہ اللہ ‘‘ مدلس’’ بھی نہیں ہیں، لہٰذا سند متصل ہے۔

قارئین کرام ۔ جادو والی حدیث کے متعلق منکرین حدیث کی یہ کل کائنات تھی، جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے۔

بعض لوگ اس حدیثِ عائشہ ؓ کو قرآن کریم کے خلاف گردانتے ہیں، ہمارا جواب یہ ہے کہ بالاجماع صحیح حدیث قرآن مقدس کے خلاف نہیں ہے، وہ کونسی آیتِ کریمہ ہے، جو پتا دیتی ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا؟ یہ تو کافروں کا نظریہ تھا کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا، اس لئے انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کو جادو سے تعبیر کیا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ علیہ پر جادو کا ثبوت قرآن کریم نے فراہم کیا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ  یُخَیَّلُ   اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ  اَنَّہَا  تَسۡعٰی (طٰہٰ:۶۶)

‘‘ان (جادوگروں کے اس جادو کے بارے میں قرآن کریم نے اعلان کیا ہے کہ :

ترجمہ: ‘‘اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے تھے۔

(الاعراف: ۱۱۶)

نبی اکرم ﷺ پر جادو کا ثبوت حدیث نے انہی قرآنی الفاظ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ کے ساتھ دیا ہے۔

جو جواب منکرین حدیث اس آیت کے بارے میں دیں گے ، وہی جواب ہمارا جادو والی حدیث کے بارے میں ہو گا۔

اس پر سہاگہ یہ کہ اس حدیث ِ عائشہ ؓ سے محدثین مؤمنین نے یہی مسئلہ سمجھا ہے کہ نبی کریم ﷺ پر جادو ہوا تھا، جسے معتزلہ ماننے سے انکاری ہیں۔

عالمِ ربانی شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن قیم الجوزیہ ؒ لکھتے ہیں:

وھذا الحدیث ثابت عند أھل العلم بالحدیث متلقی بالقبول بینھم، لایختلفون فی صحتہ، وقد اعتاض علی کثیر من أھل الکلام وغیرھم و أنکروا أشد الانکار و قابلو ہ بالتکذیب و صنف بعضھم مصنفا مفردا، حمل فیہ علیہ ھشام، وکان غایۃ ما أحسن القوم فیہ أنہ قال غلط و اشتبہ علیہ الأمر، ولم یکن من ھذا شیء ، قال: لأن النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یجوز أن یسحر، فانہ یکون تصدیقا لقول  الکفار: (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَسْحُوْ رًا) (الاسراء : ۱۰۱)،وقال قوم صالح لہ : (الشعراء: ۱۸۵) قالو ا : فالانبیاء لایجوز علیھم آن یسحروا، فان ذلک ینافی حمایۃ اللہ لھم وعصمتھم من الشیاطین ، وھذا الذی قالہ ھؤلاء مردود عند  أھل العلم، فان ھشام من أوثق الناس او أعلمھم، ولم یقدح فیہ أحد من الأءمۃ بما یوجب رد حدیثہ، فما للمتکلمین، وما لھذا الشأن، وقد رواہ غیر ھشام عن عائشۃ، وقد اتفق أصحاب الصحیحین علی تصحیح ھذا الحدیث، ولم یتکلم فیہ أحد من أھل الحدیث بکلمۃ واحدۃ، و القصۃ مشھورۃ عند أھل التفسیر و السنن و الحدیث و التاریخ و الفقھاء، وھؤلاء أعلم بأحوال رسول اللہ وأیّامہ من المتکلمین۔

‘‘ حدیث کا علم رکھنے والے لوگوں کے نزدیک یہ حدیث صحیح ثابت ہے، و ہ اسے قبولیت سے لیتے ہیں اور اس کی صحت میں ان کا اختلاف نہیں ہے، اکثر اہل کلام اور دیگر کئی لوگوں نے اعتراض کیاہے اور انہوں نے اس کا سخت انکار کیا، اس کو جھوٹ قرار دیا اور ان میں سے بعض نے اس بارے میں مستقل کتاب لکھی، اس میں انہوں نے ہشام بن عروہ پر اعتراض کیا ہے، اس بارے میں سب سے بڑی بات جو کسی نے کہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہشام بن عروہ نے غلطی کی ہے اور ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا تھا، ان کا کہنا ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ پر جادو ہونا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایسا کہنا کافروں کے قول کی تصدیق ہے، انہوں نے (مسلمانوں سے) کہا تھا: ترجمہ  : تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الاسراء:۴۷) یہی بات فرعون نے موسیٰ ؑ سے کہی تھی: ترجمہ: اے موسیٰ ، میں تجھے جادو زدہ سمجھتا ہوں(الاسراء: ۱۰۱) صالح کی قوم نے ان سے کہا: ترجمہ:یقیناً تو جادو زدہ لوگوں میں سے ہے(الشعراء ۱۵۳) اور شعیب ؑ کی قوم نے ان سے کہا: ترجمہ: بلا شبہ تو جادوزدہ لوگوں میں سے ہے(الشعراء ۱۸۵) نیز ان (منکرینِ حدیث) کا کہنا ہے کہ انبیاء پر جادو ا س لئے بھی ممکن نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ان کی حمایت اور شیاطین سے ان کی حفاظت کے منافی ہے۔

یہ بات جو انہوں نے کہی ہے، اہل علم کے ہاں مردود ہے، کیونکہ ہشام بن عروہ (اپنے دور کے ) تمام لوگوں سے بڑھ کر عالم اور ثقہ تھے، کسی امام نے بھی ان کے بارے  میں ایسی بات نہیں کہی، جس کی وجہ سے ان  حدیث کو رد کرنا ضروری ہو، متکلمین کو اس فن(حدیث) سے کیا تعلق (یعنی ان کی ہشام پر جرح حیثیت نہیں رکھتی) ، نیز ہشام کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ سے بیان کی ہے، امام بخاری و مسلم ؓ نے اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے، محدثین میں سے کسی نے اس حدیث کے (ضعف کے ) بارے میں ایک کلمہ بھی نہیں کہا، یہ واقعہ مفسرین، محدثین ، مؤرخین اور فقہاء کے ہاں مشہور ہے، اور یہ لوگ متکلمین سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے حالات و واقعات سے آگاہ ہیں۔ ’’

(بدائع الفوائد لابن القیم:۲؍۲۲۳)

حافظ ابنِ حجر ؒ علامہ مازری سے نقل کرتے ہیں:

أنکر بعض المبتدعۃ ھذا الحدیث، وزعموا انہ یحط منصب النبوۃ ویشکک فیھا، قالوا: وکل ماأدی الی ذالک فھو باطل، وزعموا أن تجویز ھذا یعدم الثقۃ بما شرعوہ من الشرائع، اذ یحتمل علی ھذا أن یخیل الیہ أنہ یری جبریئل، ولیس ھو ثم وأنہ یوحی الیہ بشیء، ولم یوح الیہ شیء، وھذا کلہ مردود، لأن الدلیل قد قام علی صدق النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیما یبلغہ عن اللہ تعالیٰ و علی عصمتہ فی التبلیغ، و المعجزات شاھدات بتصدیقہ، فتجویز ما قام الدلیل علی خلافہ باطل،  و أمَا ما یتعلق ببعض أمور الدنیا التی لم یبعث لأجلھا، ولا کانت الرسالۃ من أجلھا، فھو فی ذالک عرضۃ لما یعترض البشر کالأ مراض، فغیر بعید أن یخیل الیہ الیہ من أمر من أمور الدنیا مالا حقیقۃ لہ مع عصمتہ عن مثل ذالک من أمور الدین، وقد قال بعض الناس: ان المراد بالحدیث أنہ کان صلی اللہ علیہ وسلم یخیل الیہ أنہ وطیء زوجاتہ، ولم یکن وطأھن ، وھذا کثیر ما یقع تخلیہ للانسان فی المنام، فلا یبعد أن یخیل الیہ فی الیقظۃ۔

‘‘ ماذری کا کہنا ہے کہ بعض بدعتی لوگوں نے اس حدیث کا انکار کر دیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہ حدیث مقامِ نبوت کو گراتی اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے، ان کے بقول ہر وہ چیز جو اس طرف لے جائے، وہ باطل ہے اور انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انبیاء پر جادو کو ممکن سمجھنا ان کی بیان کردہ شرعیتوں پر سے  اعتماد کو ختم کر دیتا ہے، کیونکہ احتمال ہے کہ وہ جبریل کو دیکھنے کا گمان کریں ، حالانکہ وہاں جبریل نہ ہو، نیز اس کی طرف وحی کی جائے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کی طرف کوئی وحی نہیں آئی۔

یہ سب شبہات مردود ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کے اپنی تبلیغ میں سچے ہونے اور غلطی سے معصوم ہونے کی دلیل آچکی ہے، پھر آپ کے معجزات اس بات کے گواہ ہیں، لہذا جس بات پر دلیل قائم ہو چکی ہے، اس کے خلاف امکانات پیش کرنا باطل ہے، رہے وہ معاملات جو دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے لئے مبعوث ہی نہیں فرمایا، نہ ہی رسالت کا ان سے تعلق ہے ، لہٰذا نبی کریم ﷺ بھی ان معاملات سے عام انسانوں کی طرح دوچار ہوتے ہیں، جیسا کہ بیماریاں ہیں، لہٰذا دنیاوی معاملات میں کسی بے حقیقت چیز کا آپ کو خیال آ جانا کوئی بعید بات نہیں ہے، جبکہ آپ ﷺ دینی معاملات میں اس سے بالکل محفوظ ہیں، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ آپ کو یہ خیال آتا تھا کہ میں نے اپنی بیویوں سے مباشرت کی ہے، حالانکہ ایسا ہوا نہ ہوتا تھا، یہ بات تو اکثر انسانوں کو خواب میں بھی لاحق ہوتی رہتی ہے، اس صورت حال کا آپ کو بیداری میں پیش آ جانا کوئی بعید نہیں۔۔۔’’

(فتح الباری لابن حجر: ۱۰؍۲۲۶۔۲۲۷)

اس بات کی صراحت حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:

حتیٰ کان یری أنہ یأتی النساء، ولا یأتیھن۔ ‘‘

حتی کہ آپ یہ سمجھتے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے پاس آتے ہیں، حالانکہ آپ آتے نہ تھے۔ ’’

(صحیح بخاری:۲؍۵۸۵، ح:۵۷۶۵)

نیز حافظ ابنِ حجر ؒ مہلب سے ذکر کرتے ہیں:

صون النبی صلی اللہ علیہ وسلم  من الشیاطین لا یمنع ارادتھم کیدہ، فقد مضیٰ فی الصحیح أن شیطانا أراد أن یفسد علیہ صلاتہ، فأمکنہ اللہ منہ، فکذلک السحر، مانالہ من ضررہ مایدخل نقصا علی ما یتعلق بالتبلیغ، بل ہو من جنس ما کان ینالہ من ضرر سائر الأمراض من ضعف عن الکلام ، أو بحجز عن بعض الفعل، أو حدوث تخیل لا یستمر، بل یزول و یبطل اللہ کید الشیاطین۔

‘‘نبی کریم ﷺ کا شیطانوں سے محفوظ ہونا ان کے آپ ﷺ کے بارے میں بری تدبیر کے ارادے کی نفی نہیں کرتا، صحیح بخاری ہی میں یہ بات بھی گزری ہے کہ ایک شیطان نے آپ ﷺ کی نماز خراب کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس پر قدرت دے دی، اسی طرح جادو کا معاملہ ہے، آپ ﷺ نے اس سے کوئی ایسا نقصان نہیں اٹھایا جو تبلیغ دین کے متعلق ہو، بلکہ آپ نے اس سے ویسی ہی تکلیف اٹھائی ہے، جیسی باقی امراض سے آپ کو ہو جاتی تھی، مثلاً بول چال سے عاجز آنا، بعض کاموں سے رک جانا یا عارضی طور پر کوئی خیال آ جانا، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے شیاطین کی تدبیر باطل وزائل کر دیتا تھا۔ ’’

(فتح الباری: ۱۰؍۲۲۷)

دیو بندیوں کے ‘‘ مفتی اعظم ’’ محمد شفیع دیوبندی کراچوی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ کسی نبی یا پیغمبر پرجادو کا اثر ہو جانا ایسا ہی ممکن ہے ، جیسا کہ بیماری کا اثر ہو جاتا، اس لئے کہ انبیاء ؑ بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے، جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہو سکتا ہے، ایسے ہی جادو کا اثر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ بھی خاص اسباب ، طبعیہ جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے، اور حدیث ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پرجادو کا اثر ہو گیا تھا، آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو ‘ مسحور’ کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی ، اس کا حاصل وہ ہے جس کی طرف خلاصۃ تفسیر میں اشارہ کر دیا گیا ہے، ان کی مراد در حقیقت ‘مسحور’ کہنے سے مجنون کہنا تھا، اس کی تردید قرآن نے فرمائی ہے، اس لئے حدیث ِ سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں۔ ’’(معارف القرآن: ۵؍۴۹۰۔۴۹۱)

شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ لفظِ مسحور سے جو مطلب وہ (کفار ) لیتے تھے، اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کا سحر (جادو) کا کسی درجہ میں عارضی طور پر بھی اثر نہ ہو سکے، یہ آیت مکی ہے، مدینہ میں آپ پریہود نے جادو کرانے کا واقعہ صحاح میں مذکور ہے، جس کا اثر چند روز تک اتنا رہا کہ بعض دنیاوی کاموں میں کبھی کبھی ذہول (بھول) ہو جاتا تھا۔’’(تفسیر عثمانی)

جناب محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ ایک یہودی نے آپ پر جادو بھی کیا تھا۔’’ (الادلۃ المنصوصۃ از نیلوی:۹۴)

احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ جادو اور اس کی تاثیر حق ہے، دوسرے یہ کہ نبی کے جسم پر جاو کا اثر ہو سکتا ہے۔ ’’(تفسیر نور العرفان:ص ۹۶۵)

آخر میں ہم علامہ عینی حنفی کی عبارت پیش کرتے ہیں، جس سے تمام شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں، عینی حنفی لکھتے ہیں:

ان ذالک السحر لم یضرہ، لأنہ لم یتغیر علیہ شیء من من الوحی ، ولا دخلت علیہ داخلۃ فی الشریعۃ، و انما اعتراہ شیء من التخیل و الوھم، ثم لم یترکہ اللہ علی ذالک، بل تدارکہ بعصمتہ و أعلمہ موضع السحر و أعلمہ استخراجہ و حلہ عنہ کما دفع اللہ عنہ السم بکلام الذراع الثالث أن ھذا السح انما تسلط علی ظاھرہ، لا علی قلبہ عقلہ و اعتقادہ و السحر مرض من الأمراض و عارض من العلل، یجوز علیہ کؤنواع الّأمراض، فلا یقدح فی نبوتہ، ویجوز طروہ علیہ فی أمر الدنیا، وھو فیھا عرضۃ للآفات کسائر البشر۔

‘‘ بلا شک و شبہ اس جادو نے نبی اکرم ﷺ کو ضرر پہنچایا، کیونکہ وحی میں سے کوئی چیز متغیر نہیں ہوئی، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی، پس تخیل ووہم میں سے ایک چیز رسول اللہ ﷺ کو لاحق ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا، بلکہ اس کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا تدارک بھی کیا، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی ، اس کو نکالنے کا بھی پتا دیا اور آپ سے اس کو ختم کیا، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا، تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا، دل و دماغ اور اعتقاد پر نہیں، جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کو اس کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے ، لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی، دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ پر بھی آفات آ سکتی ہیں۔ ’’

(عمدۃ القاری ازعینی:۱۶؍۹۸)

نیز لکھتے ہیں:

وقد اعترض بعض الملحدین علی حدیث عائشۃ وقالوا: کیف یجوز السحر علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و السحر کفر و عمل من أعمال الشیاطین، فکیف یصل ضررہ الی النبی مع حیاطۃ اللہ لہ و تسدیدہ ایاہ بملاتکتہ و صون الوحی عن الشیاطین و أجیب  بأن ھذا اعتراض فاسد و عناد للقرآن، لأن اللہ تعالیٰ قال لرسولہ: قل أعوذ برب الفلق الی قولہ: فی العقد، و النفاثات السواحر فی العقد کما ینفث الراقی فی الرقیۃ حین سحر، ولیس فی جواز ذلک  علیہ ما یدل علی أن ذلک یلزمہ أبدا، أو یدخل علیہ داخلۃ فی شیء من ذاتہ أو شریعتہ، و انما کان لہ من ضرر السحر ماینال المریض من ضرر الحمی و البرسام من ضعف الکلام و سوء التخیل، ثم زال ذالک عنہ و أبطل اللہ کید السحر، وقد قام الجماع فی عصمتہ فی الرسالتہ۔۔۔ ‘‘

بعض ملحدین (بے دین لوگوں نے سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیسے ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ تو کفر  ہے اور شیطان کے اعمال میں سے ایک عمل ہے؟ اللہ کے نبی کو اس کا نقصان کیسے پہنچ سکتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تھی ، فرشتوں کے ذریعے آپ کی رہنمائی کی تھی اور وحی کو شیطان سے محفوظ کیا تھا؟ اس کا جواب یہ دیا  گیا ہے کہ یہ اعتراض فاسد اور قرآن کے خلاف بغض پر مبنی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو سورہ فلق سکھائی تھی، اس میں النفاثات کا معنی گرہوں میں جادو کرنے والی عورتیں ہے، جس طرح کہ جادو کرنے والا شخ کرتا ہے اس جادو کو نبی پر ممکن کہنے میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے معلوم ہو کہ وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ لازم رہا تھا یا آپ کی ذات یا شریعت میں کوئی خلل آیا تھا، آپ کو جادو کے اثر سے اسی طرح کی تکلیف پہنچی تھی، جس طرح کی تکلیف بیمار کو بخار کی وجہ سے پہنچتی ہے، یعنی کلام کا کمزور ہونا ، خیالات کا فاسد ہونا وغیرہ پھر یہ چیز آپ سے ذائل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے جادو کی تکلیف کو ختم کر دیا، اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت ( اس جادو کے اثر سے محفوظ رہی ہے ۔’’

(عمدۃ القاری: ۱۶؍۹۸)

شبہ:

بعض لوگ یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ خبرِ واحد عقیدہ میں حجت نہیں ہے، لہٰذا اس مسئلہ میں بھی خبرِ واحد حجت نہیں ہے۔

ازالہ:

یہ مسئلہ عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتا، ہاں جادو کی حقیقت اور تاثیر عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے۔

عقیدہ میں بھی خبرِ واحد حجت اور دلیل ہے، حافظ ابنِ قیم الجوزیہ ؒ فرماتے ہیں:

وھذا التفریق باطل باجماع الأمۃ۔ ‘‘

اس تفریق کے باطل ہونے پر اجماع ہے (کہ خبر واحد عمل میں حجت ہے، عقیدہ میں نہیں)۔ ’’

(مختصر الصواعق المرسلۃ: ۲؍۴۱۲)

نبی پر جادو کا اثر ہو جانا قرآن سے ثابت ہے ، لہذا خوا مخواہ حدیث پر اعتراض بے بنیاد ہے۔

الحاصل:

جنون کے مرض کے علاوہ جس طرح نبی کو ہر مرض لگ سکتا ہے، اسی طرح امورِ دنیا میں جادو بھی ہو سکتا ہے، اس پر امت کا اجماع ہے، اہل سنت و الجماعت میں سے کوئی بھی اس کا منکر نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!