جواب :
جی ہاں!
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ اللَّـهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿١١٨﴾ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّـهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾
”وہ اس کے سوا نہیں پکارتے مگر مؤنثوں کو اور نہیں پکارتے، مگر سرکش شیطان کو۔ جس پر اللہ نے لعنت کی اور جس نے کہا کہ میں ہر صورت تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ ضرور لوں گا۔ اور یقیناً میں انھیں ضرور گمراہ کروں گا اور یقین میں انھیں ضرور آرزوئیں دلاؤں گا اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقینا وہ ضرور چوپاؤں کے کان کاٹیں گے اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقیناً وہ ضرور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت بدلیں گے اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقیناً اس نے خسارہ اٹھایا، واضح خسارہ۔ وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔“ [النساء: 117 – 120]
ان آیات کریمات کے الفاظ وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا کا مطلب یہ ہے کہ شیطان عورتوں کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اس کو ان کے لیے حسین و مزین کرتا ہے اور وہ حقیقت میں شیطان ہی کی پوجا کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ شیطان کے حکم سے وہ ایسا کرتے ہیں تو شیطان کی بات مان کر غیر کی عبادت گویا شیطان ہی کی عبادت ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان: لَّعَنَهُ اللَّـهُ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دھتکارا اور اپنی رحمت سے دور کر دیا اور اپنے پڑوس سے بھی نکال دیا تو ابلیس نے کہا: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا یعنی ایک معین مقدار کو گمراہ کروں گا اور اپنا ساتھی بناؤں گا۔
نَصِيبًا مَّفْرُوضًا کی تفسیر میں مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ ایک ہزار میں سے 999 جہنم کی طرف لے جاؤں گا اور ایک جنت کی طرف جائے گا۔ (ابلیس نے کہا) وَلَأُضِلَّنَّهُمْ اور میں انھیں حق سے گمراہ کروں گا۔ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ میں ترک توبہ کو ان کے لیے آراستہ کروں گا، امیدوں کا وعدہ دلاؤں گا اور انھیں تسویف (لیکن تھوڑی دیر ٹھہر کر توبہ کرتا ہوں) کا حکم دوں گا۔ یاد رکھیے تسویف (یعنی یہ کہنا کہ بعد میں توبہ کر لوں گا یا بعد میں نیک کام کر لوں گا، ابھی کون سا بوڑھا ہو گیا ہوں) یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔
وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ یعنی وہ کان کو چیرا لگائیں گے اور اس کو بہ طور علامت استعمال کریں گے، جیسا کہ سائبہ، بیرہ اور وصیلہ جانور ہیں۔
وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ۚ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے مراد جانوروں کو خصی کرنا ہے۔ ایک دوسرے قول کے مطابق اس سے وثم، (یعنی جسم میں تل بنانے کے لیے گوشت کرید کر سرمہ بھر دینا ) مراد ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے ’’دین‘‘ مراد ہے، لیکن وہ اللہ کے دین کو بدل دیں گے۔
عياض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا، آپ کے بیان میں سے ایک یہ امر تھا:
ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم وما علمني يومي هذا، كل مال نحلته عبدا حلال، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالهم عن دينهم، وحرمت عليهم ما أحللت لهم، وأمرتهم أن يشركوا بي ما لم أنزل به سلطانا
”خبردار! اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آج اس (اللہ) نے جو مجھے سکھایا ہے، جو تمھیں نہیں پتا وہ تم کو سکھاؤں، ہر مال جو میں نےکسی بندے کو دیا ہے، حلال ہے، میں نے اپنے تمام بندوں کو ملت اسلامیہ اور توحید پر پیدا کیا ہے، شیطان ان کے پاس آ کر انھیں ان کے دین سے پھیر دیتے ہیں، میری حلال کردہ اشیا کو ان پر حرام کرتے ہیں اور انھیں شرک کرنے کا حکم دیتے ہیں، حالاں کہ میں نے اس بارے میں کوئی دلیل (حکم) نازل نہیں کی۔“