کیا اکہری اقامت ثابت ہے؟
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سوال : اکہری اقامت کے بارے میں کیا ثابت ہے؟
جواب: اکہری اذان کے ساتھ اکہری اقامت اور دوہری اذان کے ساتھ دوہری اقامت کہی جائے گی۔ اس بارے میں وارد ہونے والی تمام روایات کا یہی مفہوم ہے۔ جہاں تک اکہری اقامت کا تعلق ہے، تو یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، جیسا کہ :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
إِنَّمَا كَانَ الْأَذَانُ عَلٰي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، وَالْإِقَامَةُ مَرَّةً مَرَّةً، غَيْرَ أَنَّهُ يَقُولُ : قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اذان دو دو مرتبہ ( أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ کہنے کے ساتھ) ہوتی تھی اور اقامت ایک ایک مرتبہ ( اکہری) تھی۔ ہاں، صرف قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ کے کلمات دو مرتبہ کہے جاتے تھے۔ “ [ مسند الإمام أحمد : 85/2، سنن أبى داؤد : 510، سنن النسائي : 629، وسندهٗ حسنٌ ]
◈ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ [374] ، امام ابن حبان رحمہ اللہ [1674، 1677] اور امام حاکم رحمہ اللہ [709] رحمہم اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أُمِرَ بلَالٌ أَنْ يَّشْفَعَ الْأَذَانَ، وَيُوتِرَ الْإقَامَةَ .
”( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ) سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے کلمات دو دو دفعہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہنے کا حکم ہوا۔ “ [صحيح البخاري : 603، صحيح مسلم : 378 ]
یاد رہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے دوہری تکبیر قطعاً ثابت نہیں۔
امام ابوعبداللہ، محمد بن نصر، مروزی رحمہ الله ( 202 – 294 ھ ) فرماتے ہیں :
فَأَرٰي فُقَهَاءَ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، قَدْ أَجْمَعُوا عَلٰي إِفْرَادِ الْإِقَامَةِ .
”میرے علم کے مطابق تمام فقہاء محدثین کا اکہری اقامت پر اجماع ہے۔ “ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 420/1، وسندهٗ صحيحٌ ]

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے