وعن عبادة بن الصامت رضى الله عنه ، قال: كنا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم [فى صلاة الفجر، فقر أرسول الله صلى الله عليه وسلم] فتقلت عليه القراءة فلما فرغ قال: (لعلكم تقرؤون خلف إمامكم؟ ) قلنا: نعم ، هذا يا رسول الله ، قال: (لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها )
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز فجر ادا کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآت شروع کی اور قرآت آپ پر بھاری ہونے لگی یعنی آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے مشکل پیش آنے لگی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی یہ بات ٹھیک ہے آپ نے فرمایا: ”سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی ۔“ ابوداؤد اور دیگر محدثین نے اسے روایت کیا ، اس کے سلسلہ سند میں ابن اسحاق ہے جو کہ صحیح اور اس کے ہاں قابل حجت ہے ۔
تحقيق و تخریج: یہ حدیث حسن ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل: (322۔ 316/5 ) , ابوداود: (823) ، ترمذی: 310 ، الدارقطني: 1/ 318، ابن حبان: 460 ، مستدرك حاكم: 1/ 238 ، البيهقي: 2/ 164
ولمسلم (رواية) فى حديث لأبي موسى الأشعري (طويل): (وإذا قرأ فأنصتوا) يعني الإمام
مسلم شریف میں ابوموسیٰ اشعری کے حوالے سے مروی ، طویل حدیث میں یہ الفاظ مذکور ہیں وإذا قرأ فانصتوا اور جب وہ قرآت کرتا ہے تو تم خاموش ہو جاؤ ، یعنی امام ۔
تحقیق و تخریج: مسلم: 404
فوائد:
➊ امام کے پیچھے صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے ۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
➋ مقتدیوں کی بے توجہی اور گنگناہٹ امام کی قرآت کو متاثر کرتی ہے ۔ لہٰذا متانت و سنجیدگی سے اور جہاں پیچھے پیچھے پڑھنے کا موقع ہو وہاں پڑھنا چاہیے ورنہ خاموشی سے قرآت سننی چاہیے قرآت میں بھول یا ثقالت مقتدیوں کی وجہ سے بھی ہوتی ہے ۔
➌ امام نماز سے فراغت کے بعد مقتدیوں سے شرعی کلام کر سکتا ہے دنیاوی معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ نماز کے بعد وظائف واذکار سنت ہیں ۔
➍ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکثریت سے امام الانبیاء علیہ السلام کے پیچھے نمازیں ادا کرتے تھے ۔
➎ سورۃ فاتحہ کے علاوہ قرآت پر خاموش رہنا امام کے پیچھے فرض ہے ۔