الجواب : کتاب ”الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان“ حافظ ابوالفضل احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (متوفی 852 ھ) کی لکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ اسے شہاب الدین احمد بن محمد بن محمد بن علی بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی المکی السعدی الانصاری الشافعی ابوالعباس (متوفی 973ھ) نے لکھا ہے۔
اس ابن حجر المکی کے بارے میں امام محمود شکری بن عبداللہ بن محمود بن عبداللہ بن محمود الحسینی الآلوسی البغدادی رحمہ اللہ (متوفی 1342 ھ) لکھتے ہیں کہ :
” ابن حجر کی اکثر کتابیں جھوٹ کا پلندہ ہیں، اور افتراء، قول زور، بے اصل آراء اور دعوت الی غیراللہ جیسی بدعات و ضلالات سے پر ہیں“ [انور رحماني ترجمة غاية الاماني : 433/2 ]
◈ امام آلوسی مزید لکھتے ہیں :
”ابن حجر کی سب کتابیں اہل بصیرت کی نظر میں عیوب کی جامع ہیں اور ان میں بعض میں دوسروں کی کتابوں کا عیب بھی ہے۔۔۔۔ پھر ان میں موضوع احاد یث ہیں۔ جنہیں غلط طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ “ [ انوار رحماني ترجمةغايةالاماني 434-433/2 ]
◈ علامہ آلوسی کے بارے میں عمر رضا کحالہ نے لکھا ہے :
”جمال الدین ابوالمعالی مورخ ادیب لغوی من علماء الدین۔۔۔۔ “ [معجم المولفين ج 3 ص810 ت 16603 ]
◈ خیر الدین زرکلی نے لکھا ہے :
مورخ عالم بالادب والدين من الدعاة الي الاصلاح و حمل على اهل البدع فى الاسلام برسائل فعاداه كثيرون [الاعلام ج 8 ص172 ]
علامہ آلوسی البغدادی کی اس گواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ الخیرات الحسان “ کے بارے میں درج ذیل اہم نکا ت پیش خدمت ہیں۔
➊ اس کتاب میں سندیں حذف کر کے قال فلان اور روي فلان کے ساتھ روایتیں لکھی گئی ہیں، اہل تحقیق پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ بےسند و غیر ثابت روایات کے بارے میں قال فلان و روي فلان وغیرہ کے الفاظ لکھنا انتہائی معیوب اور ناپسندیدہ حرکت ہے۔
➋ ابن حجر مکی نے موضوع و بےاصل روایات کو جزم کے صیغے استعمال کر کے بیان کیا ہے تا کہ عام لوگ یہ سمجھیں کہ یہ روایات صحیح اور ثابت ہیں۔
مثال نمبر ① وعنه : ان احتيج للراي فراي مالك و سفيان وابي حنيفة وهو افقههم و احسنهم وادقهم فطنة و اغوصهم على الفقه [ الخيرات الحسان ص45 ]
ترجمہ : ابن مبارک فرماتے ہیں کہ اگر رائے کی ضرورت ہو تو امام مالک اور سفان اور امام ابوحنیفۃ کے رائیں درست ہیں، ان سب میں امام ابوحنیفہ سے زیادہ فقیہ اور اچھے فقیہ تھے اور باریک بینی اور فقہ میں زیادہ غور و حوض کرنے والے تھے۔ [ سرتاج محدثين ص157، مترجم عبدالغني طارق ديوبندي ]
تبصرہ :
یہ روایت تاریخ بغداد للخطیب البغدادی (ج13ص343) میں احمد بن محمد بن مغلس (الحمانی) کی سند سے موجود ہے اس ابن مغلس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا : وما رايت فى الكذابين اقل حياء منه ”اور جھوٹوں میں اتنا بے حیاء شخص کوئی نہیں دیکھا۔ “ [ الكامل لابن عدي ج1 ص202 ]
امام دارقظنی رحمہ اللہ نے فرمایا :
يضح الحديث ” یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔“ [ كتاب الضعفاء المتروكين : ص 123، ترجمه 59 ]
اس کذاب شخص کو کسی محدث نے ثقہ یا صدوق نہیں کہا ہے۔
◈ حافظ زہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
و قسم كالبخاري و احمد بن حنبل و ابي ذرعة و ابن عدي : معتدلون منصفون
” یعنی امام بخاری رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ امام ابوذرعہ اور امام ابن عدی رحمہ اللہ سب معتدل اور انصاف کرنے والے تھے۔“ [ ذكر من يعتمد قوله فى الجرح والتعديل : ص 159/2 ]
سخاوی نے کہ :
وقسم معتدل كا حمد والدارقطني و ابن عدي يعني اور ايك قسم [جرح تعديل] والے معتدل هيں مثلا احمد، دارقطني اور ابن عدي . [ المتكلمون فى الرجال ص : 137 ]
مثال نمبر ② ابن حجر المکی نے کہا: وقال وكيع : ما رايت احدا فقه منه ولااحسن صلاة منه [الخيرات الحسان : 48 ]
ترجمہ : محدث وکیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”میں نے امام ابوحنیفہ سے بڑا نہ فقیہ دیکھا ہے اور نہ ان سے اچھی کسی کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ “ [سرتاج محدثين : ص 163 ]
تبصرہ :
یہ روایت تاریخ بغداد [345/13] میں احمد بن الصلت الحمانی کی سند سے ہے اور احمد بن الصلت کذاب ہے جیسا کہ اوپر گزرا ہے۔ یہ دو مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ورنہ ”الخیرات الحسان“ اس قسم کی موضوع، بے اصل اور باطل روایات سے بھری ہوئی ہے۔
کسی کتاب سے حوالہ پیش کرنے کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے :
اول : صاحب کتاب ثقہ و صدوق ہو۔
دوم : کتاب، صاحب کتاب تک صحیح ثابت ہو۔
سوم : صاحب کتاب سے لے کر صاحب قول و روایت تک سند صحیح و حسن لذاتہ ہو۔
تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابن حجر المکی المبتدع کی کتاب ”الخیرات الحسان“ میں مناقب الامام ابی حنیفۃ رحمہ اللہ والی روایات کا بہت بڑا اور اکثر حصہ غیر ثابت، موضوع اور بے اصل روایات پر مشتمل ہے۔