کم سن بچے کی امامت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کم سن بچے کی امامت

حضرت عمر و بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حق لے کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک آذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن کا زیادہ عالم ہو ۔“ (حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ) میری قوم نے دیکھا کہ میرے سوا کوئی دوسرا مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم نہیں ہے تو انہوں نے مجھے آگے کر دیا:
وأنا ابن ست أو سبع سنين
”اس وقت میری عمر چھ یا سات برس تھی ۔“
[بخاري: 4302 ، كتاب المغازي: باب وقال الليث حدثني يونس ، أبو داود: 585 ، نسائي: 9/2 ، ابن خزيمہ: 1512]
اس واضح حدیث کے باوجود فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔
(شافعیؒ) بچے کی امامت درست و مباح ہے۔
(مالکؒ) بچے کی امامت مکروہ ہے۔
(احمدؒ ، ابو حنیفہؒ) اس کی امامت نوافل میں کفایت کر جائے گی فرائض میں نہیں ۔
[فتح الباري: 415/2 ، نيل الأوطار: 425/2 ، المجموع: 144/4 ، الأم: 295/1 ، رد المختار ، المبسوط: 180/1 ، المغنى: 80/3 ، الهداية: 56/1]
(راجح) مطلقا جواز کا قول راجح ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے