کشف کی شرعی حیثیت اور غیب دانی کا اسلامی موقف
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، كتاب العقائد، صفحہ 87

سوال:

کشف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا کشف اور الہام کو دلیل کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ کشف کا مطلب مکاشفہ ہے، جس میں بعض افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں جنت، دوزخ، ملائکہ، اور دوسرے غیر مرئی حقائق نظر آتے ہیں۔

📖 کشاف اصطلاحات الفنون (جلد 2، ص 1254) میں لکھا ہے:

"عرفِ عام میں کشف اور الہام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔”

کشف کو بعض صوفیہ اور باطنی گروہ خاص اہمیت دیتے ہیں، لیکن اس کی شرعی حیثیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔

کشف کے بارے میں حدیث مبارکہ

◈ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"إِنَّهُ قَدْ كَانَ فِيمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ وَإِنَّهُ إِنْ كَانَ فِي أُمَّتِي هَذِهِ مِنْهُمْ فَإِنَّهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ”
بے شک تم سے پہلے کی امتوں میں ایسے لوگ ہوتے تھے جن سے (اللہ کی طرف سے) الہام کیا جاتا تھا، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر بن خطاب ہیں۔

📖 (صحیح بخاری 3469)

یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ امت مسلمہ میں کسی کو کشف یا الہام کا درجہ حاصل نہیں۔

کشف اور غیب دانی میں فرق

کشف درحقیقت غیب دانی کا ایک اور نام ہے، اور شریعت میں کسی کو غیب دانی کا اختیار نہیں دیا گیا، سوائے نبیوں کے، وہ بھی وحی کے ذریعے۔

◈ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ﴾
کہہ دو: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، غیب کا علم کسی کو نہیں، سوائے اللہ کے۔

📖 (سورۃ النمل 65)

یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ کسی ولی، بزرگ، پیر، یا کسی اور کو غیب کا علم نہیں ہو سکتا۔

◈ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إِنِّي لاَ أَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ وَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ مَا فِي الصُّدُورِ”
بے شک میں نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا، اور میں نہیں جانتا جو کچھ سینوں میں ہے۔

📖 (مسند احمد 25838، صحیح ابن حبان 7/279)

اگر نبی کریم ﷺ خود غیب نہیں جانتے، تو کسی اور ولی، پیر، یا بزرگ کا یہ دعویٰ کہ وہ غیب جانتے ہیں، سراسر باطل ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا "یَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ” کہنا

◈ بعض لوگ کشف اور الہام کے ثبوت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشہور واقعے کو پیش کرتے ہیں، جس میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سینکڑوں میل دور سے لشکر کے ایک کمانڈر ساریہ کو پکارا:

"يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ”
"اے ساریہ! پہاڑ کی طرف ہو جاؤ!”

یہ روایت اصولِ حدیث کے مطابق ضعیف اور مردود ہے، کیونکہ:
➊ اس روایت میں محمد بن عجلان مدلس راوی ہیں، جو ضعیف ہیں۔
➋ اس روایت کی مضبوط سند موجود نہیں۔

📖 لہٰذا، اس روایت کو بنیاد بنا کر کشف کو ثابت کرنا درست نہیں۔

کشف اور الہام کے جھوٹے دعوے

نام نہاد صوفی بزرگوں کے کشف و الہام کے قصے بے بنیاد ہیں، کیونکہ:
➊ یہ اکثر جھوٹ، مبالغہ آرائی یا نفسیاتی کیفیتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
➋ کسی بھی ولی یا بزرگ کو نبیوں کی طرح غیب کا علم نہیں دیا گیا۔
➌ شریعت کی روشنی میں کشف اور الہام کا کوئی عملی یا فقہی اعتبار نہیں۔

◈ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"کشف اور الہام کے دعوے اکثر دھوکہ، شیطانی وسوسے، یا جھوٹے خوابوں پر مبنی ہوتے ہیں، جو کہ کوئی شرعی حجت نہیں رکھتے۔”

📖 (مجموع الفتاویٰ 11/231)

خلاصہ

کشف اور الہام کوئی شرعی دلیل نہیں۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کشف یا الہام کو شرعی حجت نہیں بنایا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے "یَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ” والے واقعے کی کوئی مستند سند نہیں۔
کشف درحقیقت غیب دانی کا ایک اور نام ہے، اور غیب صرف اللہ کو معلوم ہے۔
لہٰذا، کسی پیر، ولی، یا بزرگ کے کشف کو دلیل کے طور پر قبول کرنا شرعی طور پر غلط ہے۔

📖 "واللہ أعلم بالصواب”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1