وعن أبى بَكْرَة نُفيْعِ بْنِ الْحارِثِ الثَّقفِي رَضِي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم قَالَ: "إِذَا الْتقَى الْمُسْلِمَانِ بسيْفيْهِمَا فالْقاتِلُ والمقْتُولُ فى النَّارِ”قُلْتُ: يَا رَسُول اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ فمَا بَالُ الْمقْتُولِ؟ قَال: ” إِنَّهُ كَانَ حَرِيصاً عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ” متفقٌ عليه.
حضرت ابو بکرہ نفیح بن حارث ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں سونت کر مد مقابل آجاتے ہیں تو پھر یہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل ہے (اس لیے جہنمی ہے) مقتول جہنمی کیوں ہو گا ؟ آپ نے فرمایا: ” اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی (مد مقابل ) کے قتل کا حریص تھا۔“ متفق عليه
توثيق الحديث :
[أخرجه البخاري 85/1- فتح ، واللفظ له ، و مسلم 2888]
غريب الحديث :
التقى المسلمان : ” جب دو مسلمان مد مقابل ہوں اور وہ دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنا چاہتے ہوں۔“
فقه الحديث :
➊ انسان اس ارادہ معصیت پر عتاب الٰہی کا مستحق ہوگا جس کا اس نے اپنے دل میں پختہ عزم کیا اور اس کے ارتکاب کے لیے اسباب و وسائل بھی اختیار کیے، پھر اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اگر وہ چاہے تو اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو اسے معاف کر دے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ پختہ ارادہ فعل کے قائم مقام متصور ہوگا، اگرچہ انسان کسی رکاوٹ کی وجہ سے اس میں کامیاب نہ ہوا ہو۔ اس کے لیے شارح کی کتاب حادى الروح إلى احكام التوبة النصوح كا باب "توبة العاجز” نہایت مفید ہے۔
➋ دل میں پیدا ہونے والے وساوس قابل مواخذہ نہیں اور جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان کا تعلق ہے:
وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُم بِهِ اللهُ [البقرة : 284]
”جو تمہارے دلوں میں ہے اسے ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے گا۔“
تو یہ آیت اللہ تعالی کے اس فرمان سے منسوخ ہے۔
لا يُكلف الله نَفَسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكتسبت [البقرة : 286]
”اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، اس کے لیے (اس کے فائدے میں ) جو اس نے کمایا (نیکی) اور اس پر اس کے لیے نقصان دہ) جو اس نے کمایا (گناہ)۔ “
➌ مسلمانوں کو باہمی قتال سے بچنا چاہیے، کیونکہ اس طرح وہ کمزور اور بزدل ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہوگا۔
➍ جس قتال سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ ہے جو دنیاوی غرض و غایت، سرکشی یا ظلم و زیادتی کی وجہ سے ہو۔ ان مقاصد کے تحت مسلمانوں کا آپس میں قتال منع ہے۔ جہاں تک حق کی نصرت اور باغی گروہ سے لڑنے کا تعلق ہے تو وہ لڑنا جائز ہے حتی کہ باغی گروہ حق کی طرف لوٹ آئے۔ کیونکہ اس طرح اگر مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والے اختلاف میں مسلمان گھروں میں بیٹھ جائیں اور تلوار نیام میں ڈال لیں کہ ہمیں لڑنے سے منع کیا گیا تو پھر حدود معطل ہو جائیں، ظالم دندناتے پھریں اور وہ لوگوں کے اموال لوئیں، خون بہائیں اور عزتیں لوٹیں ۔ اسلام کا یہ منشا نہیں بلکہ وہ تو ظالموں کے ہاتھ روکنے اور انھیں توڑنے کا حکم دیتا ہے۔
➎ قاتل یہ حدیث اور مقتول دونوں جہنمی ہیں، اس سے مراد دائمی جہنمی ہونا نہیں۔ اس حدیث میں خوارج کے لیے دلیل نہیں جو گناہ گار کو کافر سمجھتے ہیں اور نہ معتزلہ کے حق میں ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کے جنت میں داخلے کا انکار کرتے ہیں اور اسے دائی جہنمی سمجھتے ہیں، اہل السنہ کسی شخص کو گناہ کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیتے۔