کرنٹ اکاؤنٹ کی شرعی حیثیت اور اضطراری حالت کی وضاحت

سوال:

کیا بینک کا کرنٹ اکاؤنٹ، جس پر بینک سودی کاروبار کر رہا ہوتا ہے لیکن کرنٹ اکاؤنٹ والے کو سود نہیں دیتا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اور افضل صورت کیا ہو سکتی ہے؟ علماء اس حوالے سے کیا احتیاطی پہلو بتاتے ہیں؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

موجودہ تمام بینکوں کے نظام سود پر مبنی ہیں، چاہے انہیں اسلامی لبادہ پہنایا جائے یا ان کا نام تبدیل کیا جائے، حقیقت میں یہ سودی نظام ہی ہے۔ اس مسئلے کی وضاحت درج ذیل نکات میں کی جا سکتی ہے:

بینکوں کا نظام اور سودی حقیقت:

◈ آج کے تمام بینک سودی کاروبار پر مبنی ہیں، چاہے وہ کرنٹ اکاؤنٹ پر سود نہ بھی دیتے ہوں۔
◈ کرنٹ اکاؤنٹ رکھنے والے کے پیسے سے بینک سودی فائدہ اٹھاتا ہے، گو کہ وہ اس کا حصہ اکاؤنٹ ہولڈر کو نہیں دیتا۔

اضطرار کی حالت میں اجازت:

◈ موجودہ دور میں، چونکہ عملی طور پر بینک سے رابطہ ایک مجبوری بن گیا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بغیر کئی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں، اس لیے اہل علم نے اضطراری حالات کے پیش نظر کرنٹ اکاؤنٹ کی اجازت دی ہے۔
◈ یہ اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ یہ مجبوری کی حالت میں ہو اور سودی فائدے سے اجتناب کیا جائے۔

احتیاطی پہلو:

◈ اگر کوئی متبادل اسلامی نظام میسر ہو تو اسے اختیار کرنا افضل ہے۔
◈ بینک کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتی جائے اور صرف ضرورت کے مطابق ہی کرنٹ اکاؤنٹ استعمال کیا جائے۔

متبادل صورت کی عدم موجودگی:

◈ چونکہ موجودہ بینکاری نظام میں متبادل اسلامی نظام محدود یا غیر موجود ہے، اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ کو اضطراری حالت کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے۔
◈ یہ واضح رہے کہ یہ اجازت ضرورت کے دائرے میں محدود ہے، اور اسے معمول کے طور پر اختیار کرنا درست نہیں۔

نتیجہ:

موجودہ بینکنگ نظام میں کرنٹ اکاؤنٹ رکھنے کی اجازت اضطراری حالت میں دی گئی ہے، بشرطیکہ اس سے صرف ضرورت کے تحت استفادہ کیا جائے۔ تاہم، اسلامی متبادل کی تلاش اور اسے اپنانے کی کوشش کرنا بہتر اور افضل ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1