کافر ممالک کے سودی بنکوں میں مال رکھوانے کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

کافر ممالک میں بنکوں میں مال رکھوانے کا حکم
سودی بنکوں میں مال رکھوانا جائز نہیں، چاہے ان کے ذمے داران مسلمان ہوں کہ کافر، کیونکہ اس میں گناہ اور زیادتی پر تعاون ہے، خواہ یہ سود کے بغیر ہی ہو، لیکن جب انسان حفاظت کی غرض سے اس کے لیے مجبور ہو جائے تو پھر بلا فائدہ رکھوانے میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں :
«وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ» [الأنعام : 119]
”حالانکہ بلاشبہ اس نے تمہارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ۔“
لیکن سود کی شرط کے ساتھ رکھوانا بہت بڑا گناہ ہے کیونکہ سود کبیرہ گناہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنی نبی کی زبان سے حرام قرار دلوایا ہے، نیز بتایا ہے کہ یہ بے برکت کام ہے، جو ایسا کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جائز ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں اور مجاہدین کی مدد میں یہ مال خرچ کر دیں، اللہ انھیں اجر بھی دے گا اور بدل بھی :
«الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ» [البقرة : 274]
”وہ لوگ جو اپنے مال رات اور دن، چھپے اور کھلے خرچ کرتے ہیں، سو ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
نیز فرمایا :
«وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ » [السباء : 39]
”اور تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔“
یہ زکاۃ وغیرہ سب کو شامل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”صدقے کی وجہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ درگزر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر عاجزی اختیار کرتا ہے وہ اس کو بلند کر دیتا ہے۔“ [صحيح مسلم 2588/69]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
ہر دن کہ لوگ صبح کے وقت بیدار ہوتے ہیں مگر اس میں دو فرشتے اترتے ہیں، ایک کہتا ہے : ”اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو نعم البدل عطا فرما۔“ دوسرا کہتا ہے : ”اے اللہ ! خرچ نہ کرنے والے کا مال تلف کر دے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1442 صحيح مسلم 11010/57]
اچھائی کے کاموں میں خرچ کرنے اور ضرورت مندوں پر صدقہ کرنے کی فضیلت پر دلالت کرنے والی آیات و احادیث بکثرت ہیں۔
لیکن اگر مال کا مالک جہالت یا پھر سستی کی وجہ سے سودی فائدہ لے، پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نصیب فرما دے تو وہ اسے نیکی اور اچھائی کے کاموں میں صرف کر دے اور اپنے مال کے ساتھ باقی نہ رکھے، کیونکہ سود کے ساتھ جو چیز بھی خلط ملط ہو جائے وہ اسے مٹا دیتا ہے، جیسا کہ فرمان الہی ہے :
«يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ» [البقرة : 276]
”اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“
[ابن باز : مجموع الفتاوي و المقالات : 420/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: