سائنس اور مذہب کے مابین تعلق
بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس نے کائنات میں موجود قوانینِ فطرت کو واضح کرکے مذہب کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ اس دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہو رہا ہے، وہ پہلے سے طے شدہ فطری قوانین کے تحت ہو رہا ہے، اس لیے کسی "نامعلوم خدا” کو اس عمل میں فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن اس دعوے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے دو اہم سوالات کا جائزہ لینا ضروری ہے:
کیا قوانینِ فطرت خود سے کوئی نظام تخلیق کر سکتے ہیں
قوانینِ فطرت اور زندگی کی تخلیق
قوانینِ فطرت کے ذریعے زندگی کی تخلیق کا سوال ملحدین عموماً یہ کہہ کر قبول کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے۔ تاہم، نینسی پیرسی (Nancy Pearcy) نے اپنی کتاب
Total Truth میں اس دعوے کی تردید کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
"اصولی طور پر، قوانینِ فطرت معلومات تخلیق نہیں کرتے کیونکہ وہ صرف باقاعدہ اور دہرائے جانے والے واقعات کو بیان کرتے ہیں، جیسے کہ ایک پنسل کا گرنا یا پانی میں نمک کا حل ہونا۔”
نینسی پیرسی کے مطابق، جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے میں موجود پیچیدہ معلومات کا تخلیق ہونا "قوانینِ فطرت” کے ذریعے ممکن نہیں۔ ان کے مطابق:
- قوانینِ فطرت صرف محدود معلومات والی ترتیب پیدا کر سکتے ہیں، جیسے:
ABC ABC ABC
- لیکن حیاتیاتی نظام کے لیے زیادہ وسیع، بے قاعدہ اور منفرد معلومات ضروری ہیں، جیسا کہ:
1492 میں، کولمبس نے بحیرہ کا سفر شروع کیا۔
- اس قسم کی ترتیب کسی "قانونی عمل” کی پیداوار نہیں ہو سکتی بلکہ یہ کسی شعوری کوشش کی نشاندہی کرتی ہے۔
شعور اور معلومات کی تخلیق
Henry Quastler، ایک ماہر معلومات، کہتے ہیں:
"نئی معلومات کی تخلیق عموماً شعوری سرگرمی سے تعلق رکھتی ہے۔”
نیز، NASA کے خلائی مخلوق کی تلاش کے پروگرام (SETI) میں بھی جب خلا سے جفت اعداد کی کوئی ترتیب ریڈیائی لہروں کے ذریعے ملی تو اسے کسی ذہین کردار کی موجودگی کا ثبوت سمجھا گیا، کیونکہ یہ ترتیب "فطری قوانین” کے ذریعے ممکن نہیں سمجھی گئی۔
سائنسدانوں کی آراء
- Hubert Yockey نے اپنی کتاب Information Theory, Evolution, and the Origin of Life میں وضاحت کی کہ قوانینِ فطرت سے ڈی این اے جیسی پیچیدہ ساخت کا تخلیق ہونا ریاضی کے اصولوں کے تحت ناممکن ہے۔ ان کے مطابق:
"فطری قوانین فٹ بال کے اصولوں کی طرح ہیں جو بتا سکتے ہیں کہ قوانین کی پابندی ہو رہی ہے یا نہیں، لیکن وہ کھیل کے نتائج کا تعین نہیں کر سکتے۔”
- Gregory Chaitin نے قوانینِ فطرت کو پروگرام کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ ان قوانین میں معلوماتی مواد (Information Content) بہت محدود ہے، اور یہ حیاتیاتی زندگی کی تخلیق کے لیے ناکافی ہیں۔
- ماہر طبیعیات Paul Davies کا نکتہ نظر:
Paul Davies نے گارڈین اخبار میں شائع اپنے مضمون How We Could Create Life میں کہا:"کیمیکل کو ایک ٹیسٹ ٹیوب میں مکس کرکے زندگی تخلیق کرنے کی کوشش ایسا ہی ہے جیسے سوئچ اور تاریں جوڑ کر Microsoft Windows بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہ عمل ناکام ہوگا کیونکہ یہ مسئلے کو غلط زاویے سے حل کرنے کی کوشش ہے۔”
خلاصہ
قوانینِ فطرت خود کسی نظام یا زندگی کو تخلیق نہیں کر سکتے۔ یہ کام کسی شعور یا ذہین ڈیزائنر کی موجودگی کا متقاضی ہے۔ کائنات کی پیچیدگی اور اس میں موجود مختلف مخلوقات ایک "ذہین خالق” کی گواہی دیتی ہیں۔
کیا قوانینِ فطرت مذہبی توجیہہ کی جگہ لے سکتے ہیں
فطرت کا قانون: واقعہ یا توجیہہ؟
یہ سچ ہے کہ سائنس نے کائنات میں موجود قوانین کو دریافت کرکے ہمارے مشاہدے کو وسعت دی ہے۔ مثال کے طور پر:
- بارش کے عمل کو سمجھانے کے لیے سائنس نے یہ بتایا کہ سمندر سے بھاپ اٹھتی ہے، بادل بنتے ہیں، اور پھر بارش ہوتی ہے۔
لیکن یہ تمام دریافتیں صرف "واقعات کی تصویر” پیش کرتی ہیں۔ یہ ان واقعات کی "توجیہہ” نہیں ہیں۔ مثلاً:
- سائنس بتا سکتی ہے کہ بارش کیسے ہوتی ہے، لیکن یہ سوال کہ "یہ قوانین کیسے بنے اور کیوں اتنے منظم ہیں؟” سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
فطرت: واقعہ، نہ کہ وضاحت
ایک عیسائی عالم کے الفاظ میں:
"Nature is the fact, not an explanation.”
یعنی، فطرت ایک واقعہ ہے، کائنات کی توجیہہ نہیں۔
سائنسی علم کی حدود
سائنس صرف یہ بتاتی ہے کہ "کیا ہو رہا ہے” مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ "یہ کیوں ہو رہا ہے”۔ مثلاً:
- اگر ڈاکٹر سے پوچھا جائے کہ خون سرخ کیوں ہے، تو وہ بتائے گا کہ خون میں موجود ہیموگلوبن کی وجہ سے ایسا ہے۔ لیکن یہ سوال کہ "ہیموگلوبن کا وجود اور اس کا کام اتنا منظم کیوں ہے؟” سائنس اس کا جواب نہیں دے سکتی۔
مثال
کسی مشین کی کارکردگی کو سمجھنا، اس کے ڈیزائنر یا خالق کی موجودگی کو رد نہیں کر سکتا۔ اگر ہم کسی مشین کے تمام پرزے دیکھ لیں اور ان کی کارکردگی سمجھ لیں، تو یہ اس بات کا جواب نہیں ہوگا کہ وہ مشین خود کیسے بنی اور کیوں کام کر رہی ہے۔
تنقیدی جائزہ
A. Lunn نے اپنی کتاب Revolt Against Reason میں ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر تنقید کرتے ہوئے لکھا:
"Natural selection may explain the survival of the fittest, but cannot explain the arrival of the fittest.”
یعنی، انتخابِ طبیعی (Natural Selection) یہ تو بتا سکتا ہے کہ بہتر مخلوق کیسے باقی رہتی ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ بہتر مخلوق خود کیسے وجود میں آئی۔
نتیجہ
سائنس نے بے شک کائنات کے بارے میں ہمارا علم بڑھایا ہے، لیکن اس نے صرف واقعات کو بیان کیا ہے، ان کی مکمل توجیہہ نہیں کی۔ قوانینِ فطرت کی موجودگی، تخلیق کے عمل کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مذہب اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے کہ کائنات کیوں وجود میں آئی اور اسے کس نے تخلیق کیا۔ سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجود، یہ سوالات آج بھی مذہب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کو برقرار رکھتے ہیں۔