ڈی این اے ٹیسٹ سے نسب معلوم کرنے کا شرعی اور سائنسی جائزہ

سوال:

کیا صدیوں پرانی تاریخ اور نسب کو پرکھنے کے لیے جدید سائنسی ٹیسٹ جیسے BIGY 700 DNA ٹیسٹ کو شرعی طور پر بنیاد بنایا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ سائنسی طور پر درست ہو سکتا ہے کہ انسان کا نسب تین لاکھ سال پہلے تک بتایا جائے؟

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ ، فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

1. ڈی این اے ٹیسٹ اور شرعی احکام:

نسب معلوم کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروانا بغیر کسی حقیقی ضرورت کے جائز نہیں ہے۔
علماء نے ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت صرف اضطراری حالات میں دی ہے، جیسے:

  • اگر کوئی شخص مجھول النسب ہو اور اس کے والد کا تعین ضروری ہو۔
  • ہسپتال میں بچوں کے درمیان غلط فہمی یا اشتباہ پیدا ہو جائے تو شناخت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

2. ممانعت کی وجہ:

عام حالات میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے نسب معلوم کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ شرعی طور پر نسب کے اثبات اور نفی کا طریقہ "فراش” اور "لعان” کے اصولوں پر مبنی ہے، نہ کہ سائنسی تجزیے پر۔
اگر کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں ڈی این اے ٹیسٹ کرواتا ہے اور نتائج میں اختلاف یا مشکوک صورتحال سامنے آتی ہے تو یہ خاندانوں میں انتشار اور فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔

3. جدید سائنس کی دعویداری:

ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے لاکھوں سال پرانے نسب کی معلومات دینا ایک غیر یقینی اور سائنسی طور پر متنازعہ معاملہ ہے۔
اسلامی نظریہ تخلیق اور قرآن کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان ہیں، اور موجودہ سائنس کی یہ دعویداری کہ انسان کا نسب لاکھوں سال پرانا ہے، شرعی عقائد کے خلاف ہے۔

4. نسل نو کو متاثر کرنے کی سازش:

شیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ کے مطابق، ایسے ٹیسٹ اور نظریات کا اصل مقصد نسل نو کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا اور انہیں دینی عقائد اور اعمال سے دور کرنا ہے۔

خلاصہ:

  • بغیر ضرورت اور شرعی جواز کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے نسب معلوم کرنا جائز نہیں۔
  • اضطراری حالات میں، جیسے مجھول النسب کا تعین یا ہسپتال میں بچوں کے اشتباہ کی صورت میں، علماء کی اجازت کے مطابق اس کا استعمال ہو سکتا ہے۔
  • نسب کے تعین کا شرعی طریقہ "فراش” اور "لعان” ہے، ڈی این اے نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1