چاند دیکھنے کی شہادت: دیانتدار کی گواہی کا اعتبار
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھنا شروع کیا تو :
فاخبرت النبى أني رأيته
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 2052 ، كتاب الصوم: باب فى شهادة الواحد على رؤية هلال رمضان ، أبو داود: 2342 ، دارمي: 4/2 ، دار قطنى: 156/2 ، حاكم: 423/1 ، بيهقي: 218/4]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر کہا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں؟ اس نے کہا ”ہاں ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا، کیا تو شہادت دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ تو اس نے کہا ”ہاں ۔“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا بلال أذن فى الناس فليصو مواغدا
”اے بلال ! لوگوں میں اعلان کر دو آئندہ کل روزہ رکھیں ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 507 أيضا ، ضعيف ترمذي: 108 ، ضعيف ابن ماجة: 364 ، إرواء الغليل: 907 ، المشكاة: 1978 ، أبو داود: 2340 ، ترمذي: 676 ، نسائي: 123/4 ، ابن ماجة: 1652 ، ابن خزيمة: 1923]
معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے کے لیے ایک عادل شخص کی شہادت بھی قبول کی جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی شہادت قبول فرمائی۔
(احمدؒ) اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن مبارکؒ اور ایک روایت کے مطابق امام شافعیؒ سے بھی یہی قول مروی ہے۔
(مالکؒ ، ثوریؒ) صرف دو آدمیوں کی شہادت قبول کی جائے گی ۔ امام اوزاعیؒ ، امام لیثؒ اور امام شافعیؒ سے بھی ایک روایت میں یہی قول مروی ہے۔
(احناف) اگر آسمان صاف ہو تو ایک بڑی جماعت کا گواہی دینا ضروری ہے لیکن اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے آسمان پوشیدہ ہو تو پھر ایک بالغ ، عاقل ، عادل ، مسلمان کی شہادت قبول کر لی جائے گی۔
[نيل الأوطار: 152/3 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 1651/3 ، الأم: 124/2 ، شرح المهذب: 283/6 ، الكافي لا بن عبد البر: ص/ 119 ، الخرشي: 235/2 ، المغنى: 416/4 ، كشاف القناع: 304/2 ، سبل السلام: 216/2]
ایک سے زیادہ گواہوں کی شہادت ضروری قرار دینے والے حضرات کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حدیث نبوی ہے کہ :
فإن شهد شاهدان مسلمان فصوموا وأفطروا
”اگر دو مسلمان گواه شهادت دیں تو روزه رکھو اور (دو کی گواہی کے ساتھ ) روزہ رکھنا چھوڑ دو۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 909 ، 16/4 ، نسائي: 132/4 ، أحمد: 321/4]
➋ ایک اور روایت میں ہے کہ :
فإن لم نره وشهد شاهدا عدل نسكنا بشهادتهما
”اگر ہم چاند نہ دیکھ سکیں اور دو دیانتدار گواہ (چاند دیکھنے کی) شہادت دے دیں تو ہم ان کی شہادت کی وجہ سے روزہ رکھ لیں گے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 2050 ، كتاب الصوم: باب شهادة رجلين على رؤية هلال شوال ، أبو داود: 2338 ، دار قطني: 167/2 ، بيهقى: 247/4]
ان احادیث میں محل شاہد یہ مفہوم مخالف ہے کہ اگر دو گواہ شہادت نہ دیں تو روزہ نہ رکھا جائے حالانکہ یہ بات مسلم ہے کہ مفہوم اور منطوق کے باہم تعارض کے وقت منطوق کو ترجیح دی جاتی ہے لٰہذا یہاں بھی منطوق یعنی گذشتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ترجیح دیتے ہوئے اکیلے شخص کی گواہی قبول کی جائے گی۔ علاوہ ازیں خبر واحد کی حجیت کے تمام دلائل بھی اس کے موید ہیں۔
(نوویؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[شرح مسلم: 207/4]
(شوکانیؒ) اس کو ترجیح دیتے ہیں۔
[السيل الجرار: 114/2]