«كتاب الطهارة»
طہارت کے مسائل
لفظ «كتاب» کی لغوی وضاحت :
لفظ «كتاب»، جمع کرنا، ملانا، جس میں لکھا جائے، صحیفہ، فرض اور حکم کے معانی میں مستعمل ہے اور باب «كتب يكتب» (نصر) کا مصدر ہے۔
اصطلاحی تعریف :
کتاب مستقل حیثیت کے حامل مسائل کے مجموعے کو کہتے ہیں خواہ وہ کئی انواع (یعنی ابواب) پر مشتمل ہو یا نہ ہو۔
[القاموس المحيط ص /119، الدرر 6/1، الصحاح 208/1، أنيس الفقهاء ص/45]
«الطهارة» لغوی وضاحت :
«الطهارة» پاکیزگی، صفائی ستھرائی، پاک ہونا، پاک کرنا سب اس کے معانی ہیں اور یہ باب «طهر يطهر» (نصر، کرم) کا مصدر ہے۔ لفظ «طهور» (طاء کے ضمہ کے ساتھ) ’’پاک کرنا“ باب «طهر» سے مصدر ہے۔ اور لفظ «طهور» (طاء فتحہ کے ساتھ) ”پاک یا پاک کرنے والا“ بروزن ”فعول“ صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ «طهر» ”حالت حیض کے خلاف حالت کو کہتے ہیں۔“ «تطهير» (تفعیل) کا معنی ”پاک کرنا“ ہے۔
[القاموس المحيط ص/ 289، الصحاح 227/2، المصباح المنير 579/2، الجواهر المضية 190/2]
اصطلاحی و شرعی تعریف :
(شافعی رحمہ اللہ، نووی رحمہ اللہ) حدث کو رفع کرنا اور نجاست کو زائل کرنا طہارت کہلاتا ہے۔
[المجموع 124/1، مغني المحتاج 16/1]
(حنابلہ، مالکیہ) طہارت ایسی حکمی صفت ہے جو اپنے موصوف کے ساتھ یا اس میں یا اس کے لیے نماز کے جواز کو ثابت کر دیتی ہے۔
[المغني 13/1، الشرح الكبير 30/1، الشرح الصغير 20/1]
(حنفیہ) طہارت سے مراد نجاست سے پاکیزگی حاصل کرنا ہے خواہ نجاست حقیقی ہو (مثلاً گندگی و پاخانہ وغیرہ) یا حکمی ہو مثلا حدث و بےوضگی وغیرہ)۔
[اللباب شرح الكتاب 10/1، الدر المختار 79/1، الكليات لأبي البقاء ص /234، حدود أبن عرفة ص /12، المطلع للبعلي ص/5]
«باب اقسام المياه»
پانیوں کی اقسام کا بیان
«باب» لغوی وضاحت :
جس میں ایک ہی نوع سے متعلقہ مسائل بیان کیے جائیں۔
[تحفة الأحوذي 19/1 نيل الأوطار 43/1]
«اقسام المياه» لغوی وضاحت :
لفظ «مياه» «مآء» (پانی) کی جمع ہے اس کے جنس ہونے کے باوجود اسے اختلاف انواع (مثلاً کوئیں کا پانی، سمندر کا پانی، چشمے کا پانی وغیرہ) پر دلالت کے لیے جمع لایا گیا ہے۔
[نيل الأوطار 43/1]
● ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا»
[25-الفرقان:48]
”اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا۔“
● ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
«وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ»
[8-الأنفال:11]
”اور وہ تم پر آسمان سے پانی نازل کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کرے۔“
❀ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «الْمَاءُ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ» ”پانی پاک ہے، اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔“
[صحيح : صحيح أبو داود 60، كتاب الطهارة : باب ماجاء فى بئر بضاعة أبوداود 66، مسند شافعي 30،أبوداود طيالسي 292،أحمد 31/3، ترمذي 66، نسائي 1781، شرح معاني الآثار 11/1، دارقطني 29/1]
❀ سمندر کے پانی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ» ”اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔“
[صحيح : صحيح أبو داود 76، كتاب الطهارة : باب الوضوء بماء البحر : أبو داود 83، موطا 22/1، ابن أبى شيبة 131/20، أحمد 361/2، دارمي 186/1، ترمذي، نسائي 176/1، ابن ماجة 386، ابن خزيمه 111، ابن حبان 119، الموارد ابن الحارود ص /20، دارقطني 36/1، حاكم 140/1، بيهقي 3/1، معرفة السنن والآثار 100/1]
● سادے پانی کے طاہرہ ومطہر ہونے پر اجماع ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته 260/1]
« لا يخرجه عن الوصفين إلا ما غير ريحه أو لونه او طعمه من النجاسات »
”ان دونوں اوصاف سے اسے کوئی چیز خارج نہیں کرتی مگر صرف ایسی نجاست جو اس کی بو یا اس کا رنگ یا اس کا ذائقہ تبد یل کر دے۔“
❀ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، کیا ہم بئر بضاعہ کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں ؟ (بئر بضاعہ ایک قدیم کنواں تھا جس میں حیض آلود کپڑے، کتے کے گوشت کے ٹکڑے اور بدبودار اشیاء ڈالی جاتی تھیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا : «الْمَاءُ طَهُورٌ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ» ”پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔“
[صحيح : صحيح أبوداود 20، كتاب الطهارة : باب ما جاء فى بئر بضاعة، ابوداود 67، ترمذي 66، نسائي 174/1، أحمد 31/3، مسند شافعي 30، ابن الجارود 47، شرح معاني الآثار 11/1، دار قطني 29/1، بيهقي 207/1]
❀ حضرت ابوامامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِنَّ الْمَاءَ لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ، إِلَّا مَا غَلَبَ عَلَى رِيحِهِ، وَطَعْمِهِ، وَلَوْنِهِ»
”یقیناًً پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی الا یہ کہ پانی پر اس ناپاک چیز کی بؤ ذائقہ اور رنگ غالب ہو جائے۔“
[ضعيف : ضعيف ابن ماجة 117، كتاب الطهارة : باب الحياض، الضعيفة 2644، ابن ماجه 521، دار قطني 208/1، طبراني كبير 123/8]
حافظ بوصیری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رشدین کے ضعف کی بنا پر اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔
[الزوائد 170/1]
❀ بیھقی کی روایت میں یہ لفظ ہیں :
«الماء طهور إلا إن تغير ريحه أو طعمه أو لونه بنجاسة تحدث فيه»
’’پانی پاک ہے سوائے اس کے کہ نجاست گرنے کی وجہ سے اس کی بو یا اس کا ذائقہ یا اس کا رنگ بدل جائے۔“
[بيهقي 209/1، دار قطني 28/1]
اس کی سند میں بھی رشدین بن سعد راوی متروک ہے لہٰذا یہ حدیث بھی قابل حجت نہیں۔
[فيض القدير 383/2، نيل الاوطار 67/1]
امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کے مرسل ہونے کو صحیح قرار دیا ہے۔
[علل الحديث 44/1]
امام دارقطنی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔
[دارقطني 29/1]
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضعف پر محدثین کا اتفاق نقل کیا ہے۔
[المجموع 110/1]
امام ابن ملقن رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ استثناء کمزور ہے۔
[البدر المنير 832]
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی رشدین بن سعد کو ضعیف قرار دیا ہے۔
[المجمع 214/1]
(راجح) اگرچہ استثناء والی روایات ضعیف ہیں لیکن ان کے معنی و مفہوم کے صحیح و قابل عمل ہونے پر اجماع ہے جیسا کہ امام بن منذر، امام نووی، امام ابن قدامہ اور امام ابن ملقن رحمہم اللہ اجمعین نے اس مسئلے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، حضرت حسن بصری، حضرت سعید بن مسیب، امام عکرمہ، امام ابن ابی لیلی، امام ثوری، امام داود ظاہری، امام نخعی، امام جابر بن زید، امام مالک، امام غزالی، امام قاسم اور امام یحیی رحمہم اللہ اجمعین بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
[والإجماع لابن المنذر 10 ص 33، المجموع للنوري 110/1، المغني لابن قدامة 03/1، البدر المنير لابن الملقن 83/2، نيل الأوطار 69/1]
«وعن الثاني ما أخرجه عن اسم الماء المطلق من المغيرات الطاهرة»
”اور دوسرے وصف (پاک کرنے والا) سے اسے ایسی پاک اشیاء بھی خارج کر دیتی ہیں جو اسے سادہ (یعنی مطلق) پانی نہ رہنے دیں۔“
◈ کیونکہ جس پانی کو بطور طہارت استعمال کرنے کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے وہ محض وہی ہے جس پر مطلق طور پر لفظ «مآء» (پانی) بولا جا سکتا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : «مَاءً طَهُورًا» [الفرقان : 48] اور حدیث میں ہے : «إِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ»
[صحيح : أبوداود 67]
(جمہور، مالک، شافعی) اسی کے قائل ہیں۔
[المجموع 95/1، هداية المجتهد 54/1]
(ابن قدامہ حنبلی) جمہور کے موقف کو ترجیح حاصل ہے۔
[المغني لابن قدامة 25/1]
(ابن حزم) جب تک پانی پر لفظ «مآء» (پانی) بولا جا سکتا ہے اس وقت تک وہ طاہر و مطہر ہے۔
[المحلى بالآثار 193/1]
(شوکانی) کسی پاک چیز کے ملنے کی وجہ سے جس پانی پر مائے مطلق کا نام نہ بولا جا سکے بلکہ اس پر کوئی خاص نام بولا جاتا ہو مثلاً گلاب کا پانی وغیرہ تو وہ صرف فی نفسہ طاہر ہو گا دوسروں کے لیے مطہر نہیں ہو گا۔
[السيل الجرار 56/1]
(احناف) پاک چیز ملنے کی وجہ سے متغیر پانی مطہر بھی ہو گا جب تک کہ یہ تغیر پکانے کی وجہ سے نہ ہوا ہو
[هداية المجتهد 54/1]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[المغني 20/1، السيل الجرار 56/1]
↰ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسا پانی جس میں زعفران، صابن یا آٹے وغیرہ کی مثل کوئی ایسی چیز مل جائے جو اغلباً جدا ہو سکتی ہو اور اس پانی پر مائے مطلق کا لفظ بھی بولا جا سکے تو وہ پانی پاک ہونے کے ساتھ ساتھ پاک کرنے والا بھی ہے لیکن اگر وہ چیز پانی کو مائے مطلق (سادہ پانی) کے نام سے خارج کر دے تو پانی فی نفسہ پاک ہو گا لیکن دوسری اشیاء کے لیے پاک کرنے والا نہیں ہو گا جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل اس پر شاھد ہیں :
➊ «فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً
[4-النساء:43]
قرآن نے طہارت کے لیے مائے مطلق کا ہی ذکر کیا ہے۔
➋ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے تین یا پانچ مرتبہ یا اسے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو اگر تم ضرورت محسوس کرو «وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا» ”پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور آخر میں کافور ڈالو۔“
[مسلم 990 كتاب الجنائز : باب فى غسل الميت، بخاري مع الفتح 125/3، مؤطا 222/1، مسند شافعي 203/1، احمد 4 : 407/6، أبوداود 3142، ترمذي 990، نسائي 28/4، ابن ماجة 1458]
➌ حضرت ام ہانی بنت أبی طالب رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گنبد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹب میں غسل کیا جس میں آٹے کے آثارنمایاں تھے۔
[نسائي 214]
➍ ایک روایت میں ہے کہ «اغْتَسَلَ وَمَيْمُونَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ فِي قَصْعَةٍ فِيهَا أَثَرُ الْعَجِينِ» ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک ایسے ٹب میں غسل کیا جس میں آٹے کے نشانات موجود تھے۔“
[صحيح : صحيح ابن ماجة 303، كتاب الطهارة وسننها : باب الرجل والمرأة يغتسلان من إناء واحد، ابن ماجة 378، نسائي 131/1، احمد 342/6، إرواء الغليل 64/1، المشكاة 485]
◈ ان احادیث میں پانی اور کافور کے درمیان، اور پانی اور آٹے کے درمیان آمیزش و ملاوٹ اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل کروانا اور خود کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی پاک اشیاء کی ملاوٹ کے بعد بھی اگر مائے مطلق کا نام باقی رہے تو اس پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔
[فقه السنه 14/1، السيل الجرار 56/1]
«ولا فرق بين قليل وكثير وما فوق القلتين و ما دونهما»
”(اس مسئلہ میں) قلیل اور کثیر پانی کے درمیان اور دو مٹکوں سے زیادہ یا کم پانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔“
⟐ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم، حضرت حسن بصری، حضرت سعید بن مسیب، امام عکرمہ، امام ابن ابی لیلیٰ، امام ثوری، امام داؤد ظاہری، امام نخعی، امام جابر بن زید، امام مالک، امام غزالی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور شیخ محمد بن عبد الوھاب رحمہم اللہ اجمعین کا یہی موقف ہے۔
⟐ لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما، امام مجاہد، امام شافعی، امام احمد، احناف اور امام اسحاق رحمہم اللہ اجمعین قلیل اور کثیر پانی کے درمیان فرق و امتیاز کے قائل ہیں۔ (یعنی اگر پانی کثیر ہو گا تو اوصاف ثلثہ میں سے کسی ایک کے بدل جانے پر اس کے نجس ہونے کا حکم لگانے والا اصول و قانون کارفرما ہو گا، لیکن اگر پانی قلیل ہو گا تو مجرو نجاست گرنے سے ہی نجس ہو جائے گا اگرچہ اوصاف ثلثہ میں سے کوئی ایک بھی وصف تبدیل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
[نيل الأوطار 69/1، السبل الجرار 54/1، التعليق على سبل السلام للشيخ عبدالله بسام 18/1، الالروضة الندية 61/1، 63]
انہوں نے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے :
● ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ» ”اور پلیدگی و گندگی سے بچو۔“
[74-المدثر:5]
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ تین مرتبہ دھونے سے پہلے پانی کے برتن میں نہ ڈالے کیونکہ اسے معلوم نہیں رات بھر اس کا ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا۔“
[مسلم : ف 278، د 643، كتاب الطهارة : باب كراهة غمس المتوضي . . .، مسند ابي عوانة 263/1، بيهقي 45/1، موطا 21/1، أحمد 465/2، بخاري مع الفتح 363/1]
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم میں سے کسی کے برتن میں جب کتا منہ ڈال جائے تو اسے (یعنی اس کے پانی کو) بہا دینا چاہیے پھر اسے سات مرتب ھونا چاہیے۔“
[مسلم ف 279، د 648، كتاب الطهارة : باب حكم ولوغ الكلب، نسائي 176/1، ابن الجارود 51، دارقطني 64/1، بيهقي 18/1، أحمد 253/2، ابن خزيمة 98/1، ابن حبان 1296، طبراني اوسط 93/1]
● حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے
اور پھر اس میں غسل کرے۔“
[بخاري 239، كتاب الوضوء : باب البول فى الماء الدائم، مسلم 282، أبوداود 69، نسائي 49/1، ترمذي 68، شرح معاني الآثار 14/1، بيهقي 256/1، ابن حبان 1251، ابن خزيمة 66، مصنف عبدالرزاق 299، مسند أبى عوانة 276/1، دارمي 186/1، مصنف ابن ابي شيبة 141/1، أحمد 492/2]
● حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب پانی کی مقدار دو بڑے مٹکوں کے برابر ہو تو وہ نجاست کو قبول نہیں کرتا۔
[صحيح : صحيح أبو داود 56، كتاب الطهارة : باب ما ينحس الماء، أبوداود 63، ترمذي 67، أحمد 27/2، نسائي 175/1، ابن ماجة 517، ابن خزيمة 92]
● ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اپنے دل سے پوچھو، نیکی وہ ہے جس پر نفس اور دل مطمئن ہو جائے اور گناہ وہ ہے جو نفس میں کھٹکتا ہے اور سینے میں متردد ہوتا ہے اگرچہ لوگ تمہیں اس کا فتوی دیں یا تم انہیں اس کا فتوی دو۔
[حسن : صحيح الجامع الصغير 948، دارمي 246/2، فيض القدير 492/1، التاريخ الكبير للبخاري 144/1]
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس کام میں شک ہو اسے چھوڑ کر ایسے کام کو اختیار کرو جس میں شک نہ ہو۔“
[صحيح : إرواء الغليل 12، ترمذي 2019، كتاب صفة القيامة والرقالق والورع : باب منه، نسائي 327/8، أحمد 200/1، حاكم 13/2، ابن حبان 512 الموارد، الحلية لأبي نعيم 264/8، شرح السنة للبغوي 210/4، عبدالرزاق 117/3]
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ گذشتہ دلائل سے امام احمد رحمہ اللہ اور احناف وغیرہ نے قلیل و کثیر پانی کے درمیان فرق کی کوشش کی ہے لیکن ان میں ان کے مطلوب و مقصود کے لیے کوئی واضح دلالت و رہنمائی موجو نہیں۔
[الروضة الندية 62/1]
قلیل و کثیر پانی کی تعیین میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(شافعیہ، حنابلہ) قلیل و کثیر کے درمیان حد فاصل حدیث قلتین ہے۔
[الأم للشافعي 54/1، نيل الأوطار 70/1، سبل السلام 18/1]
حدیث قلتین سے مراد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلِ الْخَبَثَ»
”جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو نجاست کو قبول نہیں کرتا۔“
[صحيح : إرواء الغليل 60/1، 23، ترمذي 67، كتاب الطهارة : باب منه آخر، شرح السنة 369/1، ابن الجارود 46، شرح معاني الآثار 15/1، مشكل الآثار 266/3، مصنف ابن أبى شيبة 144/1، بيهقي 260/1، دارقطني 13/1 -23، حاكم 132/1، ابن خزيمة 92، ابن ماجة 517، نسائي 175/1، احمد 27/2]
لیکن یہ صحیح ہے جیسا کہ شیخ عبدالقادر ارنؤوط، حافظ ابن حجر، امام حاکم، امام ابن مندہ، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام طحاوی، امام نووی اور امام ذہبی رحمہم اللہ اجمعین نے اسے صحیح کہا ہے۔
[تخريج جامع الأصول 65/7، فتح الباري 277/1، التعليقات الرضية على الروضة الندية للألباني 92/1، البدر المنير 91/2، نصب الراية 107/1]
جس روایت میں قلتین کو قبیلہ ھجر کے مٹکوں کے ساتھ مقید کیا گیا ہے وہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں مغیرہ بن سقلاب راوی منکر الحدیث ہے۔
[تلخيص الحبير 20/1]
بالفرض اگر قبیلہ ھجر کے مٹکوں کے پانی کا حساب لگایا جائے تو دو مٹکوں کے پانی کی مقدار پانچ سو رطل بنتی ہے۔
[سبل السلام 13/1]
علاوہ ازیں اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب پانی قلتین (یعنی دو مٹکوں) تک پہنچ جائے تو نجس نہیں ہوتا اور جب قلتین سے کم ہو تو نجس ہو جاتا ہے۔
(ابوحنیفہ) کثیر پانی وہ ہے کہ جس کی ایک طرف کو حرکت دی جائے تو دوسری طرف متحرک نہ ہو۔
( ابویوسف، محمد) دس ہاتھ چوڑے اور دس ہاتھ لمبے حوض میں موجود پانی کثیر ہے اور جو اس سے کم جگہ میں ہے وہ قلیل ہے۔
[فتح القدير 55/1، المبسوط 61/1، الهداية 18/1]
(بغوی) (تالاب کے پانی کو) حرکت دینے والی بات تو انتہائی جہالت پر مبنی ہے کیونکہ حرکت دینے والوں کی حالت قوت و ضعف میں مختلف ہوتی ہے۔ (یعنی اگر کوئی کمزور شخص حرکت د ے گا تو ممکن ہے کہ دوسرا کنارہ متحرک نہ ہو اور اگر کوئی قوی و طاقتور حرکت دے تو دوسرا کنارہ متحرک ہو جائے گا، لہٰذا ایہ قاعدہ ناقابل قبول ہے۔) اور دو دردہ والا مسئلہ بھی محض عقلی ہے شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
[شرح السنة 59/2 -60، الروضة الندية 64/1]
(ابن حزم) حنفیہ کا قول بڑا عجیب ہے کہ پانی کا حوض اتنا بڑا ہو کہ ایک طرف کو حرکت دیں تو دوسری جانب متحرک ہو جائے۔ اے کاش ! ہمیں پتہ ہوتا کہ یہ حرکت کیسے دی جائے گی ؟ آیا بچے کی انگلی سے ؟ کسی تنکے سے، دھاگے سے، تیراک کے تیرنے سے، ہاتھی کے گرنے سے، چھوٹی کنکری سے، منجنیق کے پتھر سے یا حوض کے گر جانے سے۔ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم کو ان غلط فہمیوں سے محفوظ رکھا۔ [المحلى بالآثار 150/1]
(راجح) اس حدیث کو اجماع یعنی «إلا أن تغير ريحه أو طعمه أو لونه» کے ساتھ اسی طرح مقید کیا جائے گا جیسے حدیث «المآء طهور لا ينجسه شي» کو اجماع کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب پانی دو مٹکوں کے برابر ہو تو نجس نہیں ہوتا لیکن اگر اوصاف ثلثہ میں سے کوئی وصف نجاست گرنے کی وجہ سے متغیر ہو جائے تو بالاجماع نجس ہو جائے گا اور اگر دو مٹکوں سے کم ہو اور کوئی وصف متغیر نہ ہو تو حدیث «لا ينجسه شئ» کی وجہ سے محض نجاست گرنے سے نجس نہیں ہو گا بلکہ اپنی اصل (طہارت) پر باقی رہے گا۔
[نيل الأوطار 70/1، الروضة الندية 59/1]
علاوہ ازیں حدیث قلتین سے یہ استدلال کرنا کہ دو مٹکوں سے کم پانی مجرد گندگی گرنے سے نجس ہو جاتا ہے مفہوم ہے جو کہ صریع منطوق «لا أن تغير ريحه أو طعمه أو لونه» کے خلاف ہے اور اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ جب مفہوم منطوق کے مخالف ہو تو قابل حجت نہیں ہوتا۔
«ومتحرك و ساكن»
”متحرک و ساکن پانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔“
جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔
[الروضة الندية 66/1]
جن علماء نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہوئے متحرک اور ساکن پانی کے درمیان فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ کھڑا پانی مجرد نجاست گرنے سے ہی ناپاک ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی تبدیل ہو یا نہ ہو اور یہ کہ اس حدیث میں منع کا سبب یہ ہے کہ جب کھڑے پانی میں غسل کیا جائے گا تو وہ مستعمل ہو جائے گا اور مستعمل پانی مطہر نہیں ہوتا، ان کی یہ بات درست نہیں بلکہ باطل و بےبنیاد ہے کیونکہ اس کے اثبات میں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا پانی اپنی اصل (طہارت) پر ہی باقی رہے گا جب تک کہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی متغیر نہ ہو جائے اور باقی رہی یہ حدیث تو اس میں صرف کھڑے پانی میں پیشاب یا غسل کی ممانعت ہے اور پیشاب کرنے والے کے لیے اس سے غسل یا وضو کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ وہ شخص اس پانی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے اور پیشاب کرنے والے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لیے اس سے غسل اور وضو کرنا جائز ومباح ہے۔
[المحلى بالآثار 186/1، الأحكام لابن حزم 21/1]
کھڑے پانی سے غسل کا طریقہ یہ ہو گا کہ کسی برتن کے ذریعے پانی باہر نکال کر اس سے غسل کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ «يَتَنَاوَلُهُ تَنَاوُلًا
[صحيح مسلم/ فواد: 283، دارالسلام: 658]
(البانی) اسی کو ترجیح دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حدیث میں صرف جنبی کے لیے کھڑے پانی میں غوطہ (لگا کر غسل کرنے) کی ممانعت ہے جبکہ حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کو باہر نکال کر اس سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية 98/1]
مطلوبہ احادیث درج ذیل ہیں :
❀ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ»
”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس میں غسل کرے۔“
[صحيح البخاري/ ح: 239]
❀ جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں :
«ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْهُ» ”پھر اس سے وضو کرے۔“
[سنن ترمذي/ ح: 68]
❀ سنن ابی داود اور مسند احمد میں ہیں :
«لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَلَا يَغْتَسِلُ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ»
”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں غسل جنابت کرے۔
[سنن ابي داود/ ح: 70]
❀ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
«أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب سے منع فرمایا ہے۔
[صحيح مسلم/ فواد: 281، دارالسلام: 655]
❀ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں مرفوعاً یہ الفاظ بھی موجود ہیں :
«لَا يَغْتَسِلْ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَهُوَ جُنُبٌ»
”تم میں سے کوئی بھی حالت جنابت میں کھڑے پانی میں غسل نہ کرے۔“
[صحيح مسلم/ فواد:283، دارالسلام: 658]
(علامہ عینی) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے اور اسے بالاتفاق خاص کرنا ضروری ہے (یا تو) ایسے وسیع الظرف پانی کے ساتھ جس کے ایک کنارے کو حرکت دینے سے دوسرا کنارہ متحرک نہ ہو یا حدیث قلتین کے ساتھ جیسا کہ امام شافی رحمہ اللہ کے قائل ہیں یا ایسی عمومات کے ساتھ جو پانی کے اس وقت تک پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں جب تک کہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی تبدیل نہ ہو جائے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔
[عمدة القاري 50/3]
(شوکانی) اس حدیث میں شارع علیہ السلام کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں ہے کہ ممانعت کا سبب یہ ہے کہ پانی مستعمل ہو جائے گا اور مستعمل پانی مطہر نہیں ہوتا۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں منع کا سبب (اس میں پیشاب یا غسل کرنے کے ساتھ) اس کے کھڑا رہنے کی وجہ سے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
[السيل الجرار 57/1]
(ابن حزم) ان لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو کھڑے پانی میں داخل ہونے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں پانی مستعمل نہ ہو جائے باطل ہے۔
[المحلی 186/1]
(نووی) کھڑے پانی میں داخل ہو کر جنبی شخص کے غسل کرنے سے ممانعت کی حدیث اس عمل کے مکروہ تنزیہی ہونے کی دلیل ہے۔
[شرح مسلم 189/3]
جاری پانی کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
➊ جسے عرف میں جاری تسلیم کیا جاتا ہو۔
➋ جس میں خشک تنکے بہ جائیں۔
➌ پانی اس قدر ہو کہ وضو کرنے والے کے دوبارہ چلو بھرنے پر پہلے پانی کے بجائے (چلنے کی وجہ سے) نیا پانی ہاتھ لگے۔
[فتح القدير 83/1]
(را جح) پہلا قول را جح ہے۔
«ومستعمل وغير مستعمل»
”مستعمل اور غیر مستعمل (پانی میں کوئی فرق نہیں)۔“
مستعمل (استعمال شدہ) پانی طاہر (پاک) ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں :
❀ حضرت عروہ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
«وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریب ہوتے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے (بچے ہوئے) پانی کو لینے میں جھگڑا نہ شروع کر دیں۔
[بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح : 189، أحمد 329/4 – 330]
❀ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا تو لوگوں کی یہ حالت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے پانی کو حاصل کر کے اسے (اپنے جسموں پر) لگاتے تھے۔
[بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح : 187]
❀ جب جابر رضی اللہ عنہ مریض تھے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوء کا پانی ان پر بہایا۔
[صحيح البخاري/كتاب المرضى/ بَابُ وُضُوءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ:/ ح: 5676]
مستعمل پانی مطہر (یعنی پاک کرنے والا) بھی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے اثبات کے لیے علماء کی طرف سے پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرنا تو محل نظر ہے لیکن یہ مسئلہ صحیح ثابت ہے۔
❀ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
«أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مِنْ فَضْلِ مَاءٍ كَانَ فِي يَدِهِ»
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اسی زائد پانی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود تھا۔“
[حسن : صحيح أبو داود 120، كتاب الطهارة : باب صفة وضوء النبى، أبو داود 130، تر مذي 33]
❀ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک ٹب میں غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹب سے وضو یا غسل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ میں جنبی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ» ”بے شک پانی ناپاک نہیں ہوتا۔“
[صحيح : صحيح أبو داود 16، كتاب الطهارة : باب الماء لا يجنب أبو داود 68، ابن ماجة 364، عارضة الأحوذي 82/1]
واضح رہے کہ مستعمل پانی سے مراد فقہاء کے نزدیک ایسا پانی ہے جسے جنابت رفع کرنے کے لیے، یا رفع حدث (یعنی وضو یا غسل)کے لیے، یا ازالہ نجاست کے لیے، یا تقرب کی نیت سے اجر و ثواب کے کاموں (مثلاًً وضو پر وضو کرنا یا نماز جنازہ کے لیے، مسجد میں داخلے کے لیے، قرآن پکڑنے کے لیے وضو کرنا وغیرہ) میں استعمال کیا گیا ہو۔
[كشاف القناع 31/1-37، المغني 10/1، ہداية المجتهد 26/1، بدائع الصنائع 69/1، الدر المختار 182/1، فتح القدير 58/1]
مستعمل پانی کے حکم میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(ابوحنفیہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ) کسی حال میں بھی ایسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔ امام لیث رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے۔
(مالکیہ) مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں۔
(ابویوسف رحمہ اللہ) مستعمل پانی نجس ہے (یاد رہے کہ یہ اپنے قول میں منفرد ہیں)۔
(اہل ظاھر) مستعمل پانی اور مطلق پانی میں کوئی فرق نہیں (یعنی جیسے مطلق پانی طاہر و مطہر ہے اسی طرح مستعمل پانی بھی طاہر و مطہر ہے) امام حسن، امام عطاء، امام نخعی، امام زہری، امام مکحول، اور امام احمد رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب مروی ہے۔
[والمجموع 151/1، المبسوط 46/1، بدائع الصنائع 66/1، مختصر الطحاوي 16، المغني 47/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/40، اللباب 76/1، الأصل 125/1]
(راجح) مستعمل پانی طاہر ومطہر ہے جیسا کہ ابتدا میں دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔
(شوکانی رحمہ اللہ) مستعمل پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔
[نيل الأوطار 85/1]
(ابن رشد رحمہ اللہ) مستعمل پانی حکم میں مطلق پانی کی طرح ہی ہے۔
[بداية المجتهد 55/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) حق بات یہی ہے کہ مجرد استعال کی وجہ سے پانی پاک کرنے والی صفت سے خارج نہیں ہوتا۔
[الروضة الندية 68/1]
(ابن حزم رحمہ اللہ) استعمال شدہ پانی کے ساتھ غسل جنابت اور وضو جائز ہے قطع نظر اس سے کہ دوسرا پانی موجود ہو یا نہ ہو۔
[المحلى بالآثار 182/1]
استعمال شدہ پانی کو مطہرنہ کہنے والوں کے دلائل اور ان پر حرف تنقید
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں تو اس میں کوئی مضائقہ ہیں۔
[صحيح : صحيح ابن ماجه 300، كتاب الطهارة وسننها : باب النهي عن ذلك، ابن ماجة 374، طحاوي 64/1، دار قطني 26/1]
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ جواز کی احادیث کے قرینہ کی وجہ سے اس حدیث کی ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کیا جائے گا۔
[سبل السلام 26/1]
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔
[مسلم 323، كتاب الحيض : باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، احمد 366/1، بيهقي 188/1]
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
[صحيح بخاري/ ح 239]
ان کے نزدیک (مذکورہ حدیث میں) ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں پانی مستعمل ہو کر غیر مطہر نہ ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجو نہیں بلکہ منع کا سبب زیادہ سے زیادہ صرف یہی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور اس کا نفع جاتا رہے اس بات کی تائید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے ہوتی ہے کو ”وہ شخص اسے (یعنی پانی کو) باہر نکال کر استعمال کر لے۔“
[نيل الأوطار 58/1، السيل الجرار 57/1، المحلي 186/1]
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ہم نے احناف کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے عجیب ترین قول یہ ہے کہ ایک صاف ستھرے طاہر مسلمان کے وضو کا مستعمل پانی مردہ چوہے سے زیادہ نجس ہے۔
[المحلى بالآثار 150/1]
متفرقات
1۔ نبیذ کے ساتھ وضو کا حکم
(امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز و درست ہے۔
[بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :
➊ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شب جن“ (جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کے ساتھ ملاقات کی) مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے، میں نے عرض کیا : میرے پاس پانی نہیں ہے البتہ میرے پاس ایک برتن ہے جس میں نبیند ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ فَتَوَضَّأَ بِهِ»
”اسے انڈیل کر اس کے ساتھ وضو کرو“ اور یہ بھی فرمایا : ”یہ پینے کی چیز اور پاک کرنے والا ہے۔“
[ضعيف : ضعيف ابن ماجة 85، كتاب الطهارة وسننها : باب الوضوء بالنبيذ ابن ماجة 385، أحمد 398/1، دارقطني 76/11، المعجم الكبير 65/10]
↰ اس کی سند میں ابن لھیعہ راوی ضعیف ہے۔
[الضعفاء والمتروكين 192/1، ميزان الاعتدال 65/2، المغني 266/1]
➋ اس معنی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
«تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ»
’’ (یہ تو) عمدہ کھجور اور پاک کرنے والا پانی ہے۔
[ضعيف : ضعيف ابن ماجه 84، أيضا، ابن ماجة 384، ابوداود 84، ترمذي 88، أحمد 402/1، المعه الكبير 95/10، دارقطني 77/1]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ علمائے سلف نے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے۔
[فتح الباري 471/1]
◈ امام طحاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث مختلف اسناد سے مروی ہے لیکن کوئی بھی قابل حجت نہیں۔
[شرح معاني الآثار 94/1]
◈ ملا على قاری رحمہ اللہ نے سید جمال کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے ضعیف ہونے پر محدثین نے اجماع کیا ہے۔
[مرقاة المفاتيح 182/2]
◈ امام ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ابوفزار کی نبیذ والی حدیث صحیح نہیں ہے۔
[العلل لابن أبى حاتم 17/1]
◈ نیز اس کی سند میں ابوزید راوی مجہول ہے جیسا کہ امام زیلعی، امام ابن حبان، امام بخاری اور امام ترمذی رحمها اللہ نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔
[نصب الراية 147/1، المجروحين لابن حبان 198/3، تحفة الأحوذي 307/1، سنن ترمذي 88]
➌ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
«كان لا يرى باسا بالوضوء من النبيذ»
”وہ نبیذ سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
[ضعيف : دارقطني 78/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے دو سندوں سے روایت کیا ہے ایک میں حجاج ابن أرطاۃ راوی ضعیف ہے۔
[تقريب التهذيب 1119]
◈ اور دوسری سند میں ابو لیلیٰ خراسانی راوی مجہول ہے۔
[التقريب 8333]
➍ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«إذا لم يجد أحدكم ماء ووجد النبيذ فليتوضا به»
’’ جب تم میں سے کسی کو پانی میسر نہ ہو لیکن اسے نبید مل جائے تو وہ اسی کے ساتھ وضو کرے۔
[ضعيف : دارقطني 76/1]
◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ابان بن ابی عیاش راوی متروک الحدیث ہے اور مجاعہ ضعیف ہے۔
(جمہور، اہلحدیث، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ) نبیذ کے ساتھ وضو کرنا جائز نہیں۔
[بداية المجتهد 66/1]
ان کے دلائل حسب ذیل ہیں :
➊ نبیذ پانی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے صرف مطلق پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں نبیذ نہیں بلکہ مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
«فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
» [4-النساء:43] ، [5-المائدة:6]
اور حدیث میں ہے کہ ”مٹی مومن کا وضو ہے خواہ دس سال تک اسے پانی میسر نہ آئے مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیے۔“
[صحيح : إرواء الغليل 153، ابوداود 332، كتاب الطهارة : باب الحنب يتيمم، ترمذي 164، نسائي 171/1، ابن حبان 1311/4، دارقطني 186/1، بيهقي 212/1]
➋ گذشتہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں نیبذ سے وضو کا جواز موجود ہے ”شب جن والی“۔ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف : سنن ابن ماجه/ ح: 385]
➌ بلکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف حدیث مروی ہے کہ
«لَمْ أَكُنْ لَيْلَةَ الْجِنِّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ مَعَهُ»
”میں شب جن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود نہیں تھا حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا۔
[صحيح : بداية المجتهد 66/1، مسلم 450 كتاب الصلاة : باب الجهر بالقراءة من الصبح . . . . فواد: 688، دارالسلام: 1010، ترمذي 3258، ابوداود 85، أحمد 436/1، ابن خزيمة 82]
(امام نووی رحمہ اللہ) یہ حدیث سنن ابی داود میں مروی حدیث ”کہ جس میں نبیذ سے وضو اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شب جن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونا مذکور ہے“ کے بطلان میں واضح (ثبوت) ہے کیونکہ یہ حدیث صحیح ہے اور روایت نبیذ محدثین کے
اتفاق کے ساتھ ضعیف ہے۔
[شرح مسلم 307/2]
➍ ابوعبیدہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے والد شب جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے ؟ تو انہوں نے کہا : ”نہیں۔“
[دارقطني 77/1، كتاب الطهارة : باب الوضوء بالنبيذ، بيهقي 10/1]
➎ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو ترجیح دی ہے۔
[ترمذي بعد الحديث 77]
(راجح) جمہور اہلحدیث کا موقف راجح ہے جیسا کہ گذشتہ بحث اسی کی متقاضی ہے اور اس لیے بھی کہ پانی میں پاک چیز ملنے کی وجہ سے اگر اس پر مائے مطلق (یعنی سادے پانی) کا نام نہ بولا جا سکتا ہو تو وہ پانی طاہر تو ہوتا ہے لیکن مطہر نہیں ہوتا۔
[المجموع 90/1، بداية المجتهد 54/1، المغني 25/1، السيل الجرار 56/1، المحلى بالآثار 193/1، فقه السنة 141]
2- پانی کے متعلق اگر نجس ہونے کا شبہ ہو ؟
جس پانی کے متعلق پلید و نجس ہونے کا شبہ ہو اسے ترک کر دینا ہی اولی و افضل ہے جیسا کہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔
[السيل الجرار 58/1]
3۔ ایسے پانی کا حکم جو کسی جگہ زیادہ دیر ٹھہرنے کی وجہ سے متغیر ہو جائے۔
ایسا پانی جو نجاست گرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ زیادہ دیر ٹھہرنے کی بنا پر متغیر ہو جائے (یعنی اوصاف ثلثہ میں سے کوئی وصف بدل جائے) تو اس کے ساتھ وضو کرنا درست ہے۔ جمہور کا یہی موقف ہے اور امام ابن منذر رحمہ اللہ نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کنوئیں سے وضو کیا جس کا پانی مہندی رنگ کے مشابہ تھا، عین ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس لیے وضو کیا ہو کہ اس کا تغیر نجاست کی وجہ سے نہیں تھا۔
[المغني لابن قدامة 24/1]
4- سمندر کے پانی سے طہارت حاصل کرنا
سمندر کے پانی کو بطور طہارت (یعنی وضو یا غسل وغیرہ کے لیے) استعمال کرنا جائز و درست ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، سے مروی روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی سے وضو کرنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «هو الطهور مائه والحل ميتته» ’’ اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مرداربھی حلال ہے“۔
[صحيح: صحيح أبو داود 76، كتاب الطهارة: باب الوضوء بماء البحر: أبو داود 83، موطا 22/1، ابن أبى شيبة 131/20، أحمد 361/2، دارمي 186/1، ترمذي 69، نسائي 176/1، ابن ماجة 386، ابن خزيمه 111، ابن حبان 119، الموارد ابن الحارود ص /20، دارقطني 36/1، حاكم 140/1، بيهقي 3/1، معرفة السنن والآثار 100/1]
5- جس پانی میں بلی منہ ڈال جائے اس کا حکم
ایسے پانی سے وضو کرنا مباح و درست ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل اس پر شاہد ہیں :
➊ حضرت کبثہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے لیے وضو کا پانی ڈالا۔ (اچانک) ایک بلی آئی اور اس برتن سے پینے لگی۔ اس پر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے مزید اس برتن کو بلی کے لیے ٹیڑھا کر دیا حتی کہ بلی نے اس سے پی لیا۔ حضرت کبثہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت مجھے دیکھ لیا جب میں انہیں دیکھ رہی تھی تو انہوں نے کہا: ”اے بھتیجی ! کیا تو تعجب کرتی ہے ؟ تو میں نے کہا: ”ہاں“ پھر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ⑰ نے فرمایا ہے :
«إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ»
”یہ نجس و پلید نہیں ہے، یہ تو تم پر پھرنے والی ہے۔“
[حسن : صحيح أبى داود 68، كتاب الطهارة : باب سؤر الهرة، أبو داود 75، ترمذي 92، ابن ماجة 367، نسائي 55/1، مؤطا 23/1، مسند شافعي 39، أحمد 303/5، ابن خزيمة 104، دارقطني 70/1، حاكم160/1، بيهقي 240/1، عبدالرزاق 353، ابن أبى شيبة 31/1، شرح السنة 376/1، شرح معاني الآثار 18/1، مشكل الآثار 270/3]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
«وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَوَضَّأُ بِفَضْلِهَا»
”بے شک میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے (یعنی بلی کے) بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیتے تھے۔“
[صحيح : صحيح أبو داود 69، كتاب الطهارة : باب سؤر الهرة، أبو داود 76، طبراني اوسط 36/1، دارقطني 70/1، مشكل الآثار 270/3، بيهقي 246/1]
(امام شافعی، امام احمد، امام مالک) بلی کا جوٹھا پانی پاک ہے۔ امام لیث، امام ثوری، امام اوزاعی، امام اسحاق، امام ابوثور، امام ابوعبید، امام علقمہ، امام ابراہیم، امام عطاء، امام حسن، امام ابن عبدالبر، اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔
(امام ابوحنیفہ) بلی کا جوٹھا درندے کے جوٹھے کی طرح نجس ہے، لیکن اس میں کچھ تخفیف کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ بلی کا بچا ہوا کراہت کے ساتھ پاک ہے۔
[المجموع 224/1، المبسوط 38/1]
◈ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ”بلی درندہ ہے۔“
[أحمد 327/2، دارقطني 63/1، حاكم 183/1]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے :
➊ گذشتہ صحیح حدیث سے اس کی تخصیص ہو جاتی ہے۔
➋ درندگی نجاست کو مستلزم نہیں یعنی یہ ضروری نہیں کہ جو درندہ ہو نجس بھی ہو۔
[نيل الأوطار 79/1]
(راجح) ائمہ ثلاثہ کا موقف برحق ہے۔
[تحفة الأحوذي 326/1]
6- ایک من گھڑت روایت
جس روایت میں مذکور ہے :
«حب الهرة من الإيمانه»
”بلی سے محبت کرنا ایمان سے ہے۔“
وہ موضوع ومن گھڑت ہے۔
[تحفة الأحوذي 327/1، مرقاة المفاتيح 188/2، كشف الخفاء 415/1]
7- برف وغیرہ سے پگھلے ہوئے پانی کا حکم
برف اور اولوں سے پگھلا ہوا پانی پاک ہے (اور پاک کرنے والا بھی ہے)۔
[المغني 30/1]
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ :
«اللهم طهرني بالماء والثلج والبرد»
”اے اللہ ! مجھے پانی، برف اور اولے کے ساتھ پاک کر دے“۔
[بخاري 100، كتاب الآذان : باب ما يقول بعد التكبير، مسلم 2078، أبو داود 180، عارضة الأحوذي 29/13، نسائي 234، 230، ابن ماجة 1262، دارمي 283/1، أحمد 231/2]
8- ایسے پانی کا حکم جس میں حشرات اور کیڑے مکوڑے گر جائیں
مکھی، بچھو یا خنفس (گبریلا) وغیرہ جیسے جانور کہ جن کا خون بہنے والا نہیں ہوتا اگر پانی میں مر جائیں تو پانی کو نجس نہیں کرتے۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس مسئلہ میں کسی اختلاف کا علم نہیں بجز امام شافعی رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے ایک کے۔ وہ یہ ہے کہ قلیل پانی نجس ہو جاتا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ نجس نہیں ہوتا اور یہی بات زیادہ صحیح و درست ہے۔
[المغني 59/1، بدائع الصنائع 26/1، المبسوط 51/1، المحلي 148/1، الإفصاح 73/1]